قربانی اب وسائل پر قابض طبقات دیں
اس کالم کے باقاعدہ قاری جانتے ہیں کہ رواں برس کا آغاز ہوتے ہی میں دہائی مچانا شروع ہوگیا تھا کہ عمران حکومت کو اس کے تمام سیاسی مخالفین یکجا ہوکر تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ہٹانا چاہ رہے ہیں۔جو گیم لگائی جارہی تھی امریکہ کا اس سے ہرگز کوئی لینا دینا نہیں تھا۔ بنیادی حقیقت یہ تھی کہ عمران پراجیکٹ کو بہت چائو سے ریاستی قوت کا ہر ذریعہ رعونت سے استعمال کرنے والے بوتل سے نکلے جن کے ہاتھوں پریشان ہوگئے تھے۔’’ہماری بلی ہمیں کو میائوں‘‘ سے غضب ناک ہوئے ’’سرپرستوں ‘‘نے ہماری سیاست کے ’’کائیاں اور انتہائی تجربہ کار‘‘کرداروں سے روابط بڑھائے۔ ان کی لگائی گیم بالآخر کامیاب ہوگئی۔ سیاسی منظر نا مے پر رچائے کٹھ پتلیوں کے کھیل نے دریں اثناء ریاست پاکستان کی معاشی بقاء کو سنگین خطرات سے دو چار کردیا۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ عمران خان کو وزارت اعلیٰ کے منصب سے ہٹانے کے بعد ملک میں فی الفور عام انتخابات کا انعقاد یقینی بنایا جاتا۔ ’’سرپرستوں‘‘ کو مگر ریاست کے دیوالیہ ہونے کی فکرلاحق ہوگئی۔اس ضمن میں اگرچہ وہ ازخود ذمہ داری لینے کو تیار نہیں تھے۔جن کے کاندھوں پر یہ بھاری بوجھ منتقل کیا انہیں ’’کھلا ہاتھ‘‘ دینے کو بھی ’’سرپرست‘‘ مگر آمادہ نہیں تھے۔صدر عارف علوی کی معاونت سے عمران خان کی دلجوئی کے علاوہ اس امرکو بھی یقینی بناتے رہے کہ آبادی کے اعتبار سے ہمارے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں بھان متی کا کنبہ دِکھتی وفاقی حکومت کامل بے اختیار رہے۔کئی ماہ تک جاری رہے انتشار کے بعد بالآخر اس صوبے کی اسمبلی تحلیل ہوگئی۔اس کے بعد کیا کرنا ہے؟اس کے بارے میں اب کامل بے یقینی کا عالم ہے۔شہباز حکومت اس کے باوجود حیران کن اعتماد کے ساتھ ’’اچھے دن‘‘ لوٹنے کے دلاسے دیتی چلی جارہی ہے۔
ریاست کو ’’دیوالیہ‘‘ سے بچانے کے لئے مفتاح اسماعیل کے ہاتھوں ’’لازمی‘‘ مگر عوام کے لئے ناقابل برداشت ’’سخت‘‘ فیصلے کروائے گئے۔ موصوف نے انہیں متعارف کروادیا تو ذلت آمیز انداز میں گھر بھیج دئے گئے۔ ان کی جگہ اسحاق ڈار تشریف لائے۔ ان سے زخموں کے لئے امید دلاتی مرہم کی توقع باندھی گئی۔ معیشت کی مبادیات سے قطعاََ نابلد ہوتے ہوئے بھی میں فریاد کرتا رہا کہ دنیا کی طاقت ور ترین حکومتیں بھی بازار میں موجود حقائق کے روبرو بالآخر ڈھیر ہوجاتی ہیں۔بازار کی حقیقت یہ تھی کہ پاکستانی روپے کی امریکی ڈالر کے مقابلے میں جو قدر حکومت نے طے کررکھی تھی اس کی بنیادیں مضبوط نہیں بلکہ کاملاََ کھوکھلی تھیں۔بازار سے سمجھوتہ کرنے کے بجائے ڈار صاحب اپنی ضد پر لیکن اڑے رہے۔ عالمی معیشت کے نگہبان ادارے کو بھی ٹھینگا دکھانے کی کوشش کی۔ محض ذاتی انا کی تسکین کرتی ’’ضد‘‘ ہمیشہ منہ کے بل گرتی ہے۔ ڈار صاحب کو اب اس کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔پاکستانی روپے کی ’’حقیقی قدر‘‘ کو تسلیم کرلیا گیا ہے اور اتوار کی صبح اُٹھتے ہی خبر ملی کہ پیٹرول اور ڈیزل کی فی لیٹر قیمت میں یکمشت 35روپے کا اضافہ کردیا گیا ہے۔
ریاست کو دیوالیہ سے بچانے کے لئے مفتاح اسماعیل سے جو اعلانات کروائے گئے تھے ان کی وجہ سے 30ہزار روپے ماہموار کمانے والے کروڑوں پاکستانیوں کا دیوالیہ نکل چکا ہے۔اتوار کی صبح جو فیصلہ ہوا وہ اب ایک لاکھ روپے ماہوار کمانے والوں کا بھی کچومرنکالنا شروع ہوجائے گا۔ جس معیار زندگی کے وہ عادی ہوچکے ہیں اسے برقرار رکھنا اب ناممکن ہے۔حکومتی ترجمان اور جناتی انگریز میں ہم جاہل بدنصیبوں کو علم معیشت کی مبادیات سمجھانے والے مگر نہایت سفاکی سے ہمیں قائل کرنا شروع ہوجائیں گے کہ ’’ریاست‘‘ کو دیوالیہ ہونے سے بچالیا گیا ہے۔
جس ’’ریاست‘‘ کے تحفظ کو بے چینی کا اظہار ہورہا ہے میرے اور آپ جیسے پاکستانی اس کے ’’شہری‘‘ نہیں بے بس ولاچار رعایا ہیں۔ہمارے ’’دیوالیہ‘‘ ہوجانے کا مگر سرسری ذکر بھی نہیں ہورہا۔ ٹی وی سکرینوں پر فواد چودھری کی ’’فسطائی حکومت‘‘ کے ہاتھوں گرفتاری،محترمہ مریم نواز صا حبہ کی پاکستان ا ٓمد اور زمان پارک میں جمع ہوکر عمران خان کو ’’ریڈ لائن‘‘ ٹھہرانے والوں پر توجہ مرکوز رکھتے ہوئے رونق لگانے کی کوشش ہورہی ہے۔میڈیا کا سنجیدہ طالب علم ہوتے ہوئے میں ریٹنگزکو یقینی بنانے والے ان موضوعات کو قطعاََ فروعی تصور کرتا ہوں۔ان پر توجہ دوں تو خلافت عباسیہ کے زوال کے ایام یاد آنا شروع ہوجاتے ہیں۔بغداد میں آخری ہلہ بولنے کے لئے ہلاکو خان کا لشکر بہت تیزی سے اس شہر کی جانب بڑھ رہا تھا۔ وہاں کے بازاورں میں لیکن طوطے کے حلال یا حرام ہونے کی بابت مناظرے ہورہے تھے۔ہمارے خطے میں محمد شاہ رنگیلا بھی تھا جو ’’ہنوز دلی دور است‘‘ کا ورد کرتے ہوئے نادرشاہ کی پیش قدمی کبوتر کی طرح آنکھ بند کرتے ہوئے نظرا نداز کررہا تھا۔ ایسے ہی ایام سلطنت اودھ کا بھی مقدر ہوئے تھے جہاں ’’شطرنج کے کھلاڑی‘‘ سنگین تر ہوتے بحران کو بھلائے بساط پر بازی لگانے میں محو تھے۔
فروعی مباحث سے رونق لگاتے ’’صحافی‘‘ مگر اب بھی خود کو عقل کل ثابت کرنے کو ڈٹے ہوئے ہیں۔یہ سوال کوئی اٹھا ہی نہیں رہا کہ ریاست کو دیوالیہ سے بچانے کے لئے 30سے پچاس ہزارروپے ماہوار کمانے والا کنبہ ویسی ہی ’’قربانی‘‘ کیوں دے رہا ہے جو پیٹرول یا ڈیزل کی قیمت کے حوالے سے لاکھوں روپے کمانے والے خوش حال کنبے اپنے محل نما مکانوں کے کوریڈور میں کھڑی قیمتی گاڑیوں کے استعمال کے ذریعے دے رہے ہیں۔’’مشکل فیصلوں‘‘ کے بوجھ ہمارے معاشرے کا ہر طبقہ ’’یکساں انداز‘‘ میں برداشت کررہا ہے۔ ایسی ’’یکسانیت‘‘ مگر اقتدار اور اختیار کے حوالے سے اشرافیہ کے معدودے چند گھرانوں ہی کو میسر ہے۔ان پر واجب ’’قربانی‘‘ کا مگر ذکر نہیں ہورہا ۔ ایک ہی لاٹھی سے سب کو ہانکا جارہا ہے۔لاٹھی کا لفظ لکھتے ہی میرا کمرہ زلزلے کے جھٹکے سے لرز گیا۔میرے وہمی ذہن کو اس کی وجہ سے خوف لاحق ہوا کہ غالباََ قدرت بھی ہم سے مزید قربانی کی طلب گار ہے۔ گزرے برس ریکارڈ بناتی بارشوں نے سندھ اور بلوچستان کے کروڑوں باسیوں کو بے گھر وبرباد کردیا تھا۔ ان کی بحالی ہمارا درد سر نہیں رہی۔ محدود آمدنی کے شکنجے میں جکڑے پاکستانیوں کو اب ’’بس بھئی بس‘‘ پکارنا ہی ہوگا۔’’قربانی‘‘ اب ان ہی سے طلب کرنا ہوگی جنہوں نے ہمارے اجتماعی وسائل پر کئی دہائیوں سے اپنا اجارہ قائم کررکھا ہے۔مصر میں انڈہ خریدنا ان دنوں ’’عیاشی‘‘ تصور ہورہا ہے۔لبنان میں گزشتہ دو برسوں سے ’’ریاست‘‘ گھروں کو بجلی بھی فراہم نہیں کرپارہی۔ یاد رہے کہ مصر میں ’’معاشی بحالی‘‘ کے لئے آئی ایم ایف گزشتہ کئی برسوں سے مسلسل ’’امدادی رقوم‘’‘ فراہم کررہا ہے۔عمران حکومت کے دوران سٹیٹ بینک آف پاکستان کے ’’کامل خودمختار‘‘ بنائے گورنر ڈاکٹر رضا باقر کے ہاتھوں مذکورہ عمل کا آغاز ہوا تھا۔ربّ کریم ہمیں ایسی ’’بحالی‘‘ سے محفوظ ہی رکھے۔