پاکستان تحریک انصاف کی پنجاب میں الیکشن کی تاریخ کے اعلان کے لیے درخواست کو سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے لاہور ہائی کورٹ کے جج جسٹس جواد حسن نے ریمارکس دیے ہیں کہ الیکشن 90 روز میں ہی ہونے چاہییں، 90 روز میں الیکشن کس نے کرانے ہیں، یہ ہم ڈھونڈ لیں گے۔
گزشتہ ہفتے پنجاب میں الیکشن کی تاریخ دینے کے لیے پاکستان تحریک انصاف نے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا، بیرسٹر علی ظفر کی وساطت سے دائر درخواست میں گورنر پنجاب کو بذریعہ سیکریٹری فریق بنایا گیا۔
درخواست میں مؤقف اپنایا کہ آئین کے تحت اسمبلی تحلیل ہونے کے فوری بعد گورنر نے الیکشن کا اعلان کرنا ہے، گورنر پنجاب الیکشن کی تاریخ کا اعلان نہیں کر رہے جو کہ آئین کی خلاف ورزی ہے، 10 روز سے زائد کا وقت گزر چکا، گورنر پنجاب کی جانب سے تاحال الیکشن کی تاریخ کا اعلان نہیں کیا گیا۔
پی ٹی آئی نے کہا کہ گورنر اپنے حلف کی خلاف ورزی کر رہے ہیں، درخواست میں استدعا کی گئی کہ لاہور ہائی کورٹ پنجاب میں الیکشن کی تاریخ دینے کے لیے گورنر کو ہدایات جاری کرے ۔
پنجاب میں الیکشن کی تاریخ دینے کے لیے پاکستان تحریک انصاف کی درخواست پر سماعت ہوئی، جسٹس جواد حسن نے درخواست پر سماعت کی، دوران سماعت پی ٹی آئی کے وکیل نے مؤقف اپنایا کہ پنجاب اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد گورنر نے الیکشن کی تاریخ کا اعلان کرنا ہوتا ہے۔
جسٹس جواد حسن نے کہا کہ آپ کی درخواست ہے کہ گورنر کو الیکشن کی تاریخ دینے کے لیے ہدایات جاری کی جائیں، گورنر نے اسمبلی کی تحلیل پر دستخط نہیں کیے، اسمبلی خود بخود تحلیل ہوئی، الیکشن 90 روز میں ہی ہونے چاہییں۔
دوران سماعت عدالت نے کہا کہ اس کیس میں الیکشن کمیشن کو فریق بنائیں جس پر بیرسٹر علی ظفر نے الیکشن کمیشن کو کیس میں فریق بنا دیا، جسٹس جواد حسن نے استفسار کیا کہ کیا اپ نے گورنر کو الیکشن کی تاریخ کے لیے لکھا ؟ پی ٹی آئی وکیل نے کہا کہ آئین کہتا ہے کہ گورنر نے اپنی آئینی زمہ داری پوری کرنی ہے ۔
جسٹس جواد حسن نے کہا کہ 90 روز میں الیکشن کرانے ہیں، کس نے کرانے ہیں یہ ہم ڈھونڈ لیں گے، اس دوران جسٹس جواد حسن نے اسد عمر کو روسٹرم پر بلا لیا، جج نے کہا کہ اسد عمر صاحب آپ الیکشن کے حوالے سے آئین کا متعلقہ پیراگراف پڑھیں جس پر اسد عمر نے عدالت میں پیراگراف پڑھا۔
اسد عمر نے کہا کہ پیراگراف میں سیاسی انصاف کی اصطلاح میرے لیے بھی نئی ہے ، بیرسٹر علی ظفر گورنر پنجاب الیکشن کی تاریخ دینے کے پابند ہیں، جسٹس جواد حسن نے کہا ہم یہاں بیٹھے ہیں، ہم جمہوریت کے لیے جدوجہد کریں گے۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ گورنر ایڈوائس پر اسمبلی تحلیل کرے یا خود ہو جائے، الیکشن 90 دن میں کرانا ہوتے ہیں، جسٹس جواد حسن نے کہا کہ ہم نے یہ دیکھنا ہے کہ الیکشن کی تاریخ کس نے دینی ہے، بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ قومی اسمبلی کے انتخابات کے لیے صدر پاکستان تاریخ کا اعلان کرتا ہے ۔
جسٹس جواد حسن نے اسد عمر سے استفسار کیا آپ نے خیبرپختونخوا کے الیکشن کے لیے پٹیشن دائر کی ہے جس پر انہوں نے جواب دیا کہ ہم کل صبح پشاور ہائیکورٹ میں درخواست دائر کریں گے۔
اس دوران اسسٹنٹ اٹارنی جنرل نے کہا کہ گورنر کی نمائندگی وفاقی حکومت نہیں کرتی، گورنر ایک الگ آئینی عہدہ ہے جس کی نمائندگی وفاقی حکومت نہیں کرتی، جسٹس جواد حسن نے کہا کہ حکومت کے 200 لا افسران ہیں، وہ کیا کرتے ہیں، آپ تیاری کیے بغیر ہی آگئے ہیں، سرکاری وکیل کا رویہ اتنا غیر سنجیدہ کیوں ہے، یہاں تحریک انصاف نہیں عوام کا معاملہ ہے ۔
عدالت نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف کی درخواست میں اہم قانونی نقطہ اٹھایا گیا ہے، اس دوران لاہور ہائی کورٹ نے تحریک انصاف کی درخواست کو سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے گورنر پنجاب کو بذریعہ سیکریٹری اور الیکشن کمیشن کو نوٹس جاری کر کے 3 فروری تک جواب طلب کرلیا۔
گورنر پنجاب نے 14 جنوری کو صوبائی ایوان کے تحلیل ہونے کے بعد سے صوبے میں انتخابات کے انعقاد کی تاریخ طے کرنے کے حوالے سے اسپیکر پنجاب اسمبلی سبطین خان کے خط کا تاحال کوئی جواب نہیں دیا۔
اپنے خط میں اسپیکر پنجاب اسمبلی نے کہا تھا کہ آرٹیکل 105(3) ،آرٹیکل 224 اور 224 کے تحت صوبے کے گورنر کو صوبائی اسمبلی کی تحلیل کی تاریخ سے 90 روز کے اندر انتخابات کے لیے تاریخ کا اعلان کرنا ہوتا ہے۔
چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان نے الزام لگایا کہ محسن نقوی اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ پنجاب میں 90 روز میں انتخابات نہ ہوں۔
پی ٹی آئی کے سینئر رہنما فواد چوہدری نے بھی یہ دعویٰ کیا کہ محسن نقوی کو پنجاب میں انتخابات میں تاخیر اور قبل از وقت انتخابات کی تحریک انصاف کی کوششوں کو ناکام بنانے کا کام سونپا گیا ہے۔
بعد ازاں لاہور ہائی کورٹ کے باہر میڈیا سے بات کرتے ہوئے اسد عمر کا کہنا تھا کہ آج کی کارروائی کے بعد یقینی ہے کہ 90 روز میں صوبے میں انتخابات ہوں گے۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ ملک اس وقت 2 حصوں میں بٹ چکا، ایک فریق عمران خان اور جمہوریت کے ساتھ کھڑا ہے جب کہ دوسرا گروہ ملک میں انتشار پھیلانے پر تلا ہوا ہے۔
اسد عمر نے کہا کہ الیکشن میں تاخیر کی کوششوں سے آئین سے بغاوت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، پاکستان کی سالمیت کو خطرے سے دوچار کیا جا رہا ہے۔
ٹوئٹر پر جاری اپنے ایک بیان میں بھی انہوں نے اپنے الفاظ کو دہرایا آج کی عدالت کی کارروائی سے یہ تو بالکل واضح ہو گیا کہ صوبائی الیکشن تو 90 دن میں ہوں گے، چاہے امپورٹڈ حکومت جتنا بھی بھاگنے کی کوشش کرے۔
آج کی عدالت کی کارروائی سے یہ تو بالکل واضح ہو گیا کہ صوبائی الیکشن تو 90 دن میں ہوں گے، چاہے امپورٹڈ جتنا بھی بھاگنے کی کوشش کرے #انصاف_کرو_پاکستان_بچاؤ
— Asad Umar (@Asad_Umar) January 30, 2023
واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے گورنر پنجاب بلیغ الرحمٰن سے جب پوچھا گیا کہ وہ اسپیکر پنجاب اسمبلی کی درخواست کے باوجود پنجاب اسمبلی کے انتخابات کی تاریخ کا اعلان کیوں نہیں کر رہے تو گورنر پنجاب نے کوئی واضح جواب نہیں دیا تھا۔
گورنر پنجاب نے ایک صحافی کے سوال کے جواب میں کہا تھا کہ آئین و قانون کی پاسداری میری ترجیح ہے، آئینی عمل جاری ہے، ابھی تک خلاف آئین کوئی کام نہیں ہوا، مستقبل میں تمام معاملات کو آئین اور قانون کے مطابق نمٹایا جائے گا۔