پاکستان

پشاور: پولیس لائنز دھماکے میں شہدا کی تعداد 96 ہوگئی

Share

خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں پولیس لائنز کے قریب واقع مسجد میں گزشتہ روز ہونے والے دھماکے کے نتیجے میں شہید ہونے والے شہریوں کی تعداد 96 ہوگئی جبکہ ریسکیو آپریشن مکمل کرلیا گیا ہے۔

پشاور کے لیڈی ریڈنگ ہسپتال (ایل آر ایچ) کے ترجمان محمد عاصم نے 92 افراد کی شہادت کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہسپتال لائے گئے تمام افراد کی شناخت ہوگئی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ اس وقت ہسپتال میں بم دھماکے کے 57 زخمی زیر علاج ہیں، لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں مجموعی طور پر 157 زخمی لائے گئے تھے جن میں بیشتر کو طبی امداد فراہم کرنے کے بعد گھر بھیج دیا گیا ہے۔

کمشنر پشاور ریاض محسود نے شہیدوں کی تعداد میں اضافے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ تلاش اور امدادی کام 24 گھنٹوں کے بعد مکمل ہوچکا ہے۔

تحریر جاری ہے‎

کالعدم تحریک طالبان (ٹی ٹی پی) نے حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی بعد ازاں ایک بیان میں اس کی تردید کردی تاہم خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اس میں ٹی ٹی پی کا مقامی گروپ اس میں ملوث ہوسکتا ہے۔

تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی تشکیل

پولیس لائنز میں میڈیا بریفنگ کے دوران آئی جی خیبر پختونخوا معظم جاہ انصاری نے کہا کہ نگران وزیراعلیٰ اعظم خان نے حملے کی تحقیقات کے لیے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دے دی ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ ایک انٹر ایجنسی جے آئی ٹی ہوگی جس میں انٹیلی جنس ایجنسیوں، پولیس اور دیگر سیکیورٹی اداروں کے حکام شامل ہوں گے، اس ٹیم کی قیادت سینئر ڈی آئی جی کریں گے جن کا تعلق پشاور پولیس سے نہیں ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم سی سی ٹی وی فوٹیج کی جانچ کر رہے ہیں، آپ ان تحقیقات کے 24 گھنٹے میں مکمل ہونے کی تعقع نہیں کرسکتے، انہوں نے مزید کہا کہ پولیس جلد از جلد تحقیقات کے نتائج کو منظر عام پر لانے کی کوشش کرے گی۔

آئی خیبر پختونخوا نے کہا کہ ٹی ٹی پی کی جانب سے حملے میں ملوث ہونے کی تردید کے بعد پولیس کو شبہ ہے کہ دہشت گردی میں جماعت الاحرار ملوث ہو سکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ جماعت الاحرار کسی حد تک کالعدم ٹی ٹی پی کے ساتھ کام کرتی رہی ہے لیکن عمر خالد خراسانی کی موت کے بعد سے دونوں عسکریت پسند گروپ الگ ہو گئے، اسی طرح سے داعش نے بھی کل رات حملے کی ذمے داری قبول کرنے کا دعویٰ کیا، ہم اس کی بھی تحقیقات کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ گروہ اکثر مبالغہ آرائی پر مبنی دعوے کرتے ہیں، ہم اپنی تحقیقات کو آگے بڑھائیں گے، ہم ان کے دعووں پر اعتبار نہیں۔

سیاسی قوتیں دہشت گردی کے خلاف ایک ہوجائیں، وزیراعظم

وزیراعظم شہباز شریف نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے بیان میں پاکستان مخالف عناصر اور دہشت گردی کے خلاف متحد ہونے کا مطالبہ کیا۔

وزیراعظم نے کہا کہ دہشت گرد بزدلانہ حملوں کے ذریعےعوام میں خوف اور بے چینی پھیلانا اور انتہاپسندی اور دہشت گردی کے خلاف ہماری محنت سے حاصل ہوئی کامیابی کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ تمام سیاسی جماعتوں کو میرا پیغام ہے کہ پاکستان مخالف عناصر کے خلاف متحد ہوجائیں، ہم اپنی سیاسی لڑائیاں بعد کرسکتے ہیں۔

’سرچ آپریشن مکمل کرلیا گیا‘

دوسری جانب ترجمان ریسکیو1122 بلال فیضی نے کہا کہ سرچ آپریشن مکمل کرلیا گیا، ریسکیو1122 کو ایک بج کر 18منٹ پر کال موصول ہوئی اور 4 منٹ میں ایمبولینسز موقع پر پہنچیں۔

ترجمان نے بتایا کہ ریسکیو1122 نے سرچ آپریشن کے دوران 146 افراد کو ہسپتال منتقل کیا، 94 زخمی اور 54 شہدا کو ہسپتال میں منتقل کیا گیا، ریسکیو1122 کی 37 آپریشنل گاڑیوں اور 168 اہلکاروں نے حصہ لیا۔

بلال فیضی کے مطابق ریسکیو1122 نے پشاور، نوشہرہ، خیبر، صوابی، بنوں اور ڈی آئی خان شہدا کے جسد خاکی منتقل کیے، سرچ آپریشن کے دوران ریسکیو1122 پشاور، نوشہرہ اور خیبر کی ٹیموں نے حصہ لیا۔

دوسری جانب پشاور پولیس چیف محمد اعجاز خان نے بتایا کہ شہید ہونے والوں میں 90 فیصد سے زیادہ پولیس اہلکار تھے، دھماکے کے وقت 300 سے 400 اہلکار مسجد میں موجود تھے۔

زندہ بچنے والے 23 سالہ پولیس کانسٹیبل وجاہت علی نے کہا کہ وہ اپنے زندہ بچنے کی تمام امیدیں کھو چکے تھے، اہلکار نے ایل آر ایچ میں اے ایف پی کو بتایا کہ میں سات گھنٹے تک ملبے تلے لاش کے نیچے دبا رہا۔

’دھماکا خودکش ہونے کا امکان مسترد نہیں کیا جاسکتا‘

دوسری جانب پولیس نے دھماکے سے متعلق اپنی ابتدائی رپورٹ میں کہا ہے کہ پولیس لائنز پشاور کی مسجد میں دن ایک بج کر 15 منٹ پر دھماکا ہوا جہاں 300 سے 350 افراد کے نماز ادا کرنے کی گنجائش تھی۔

پولیس کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دھماکے کے بعد مسجد کی چھت منہدم ہوگئی، مجموعی طور پر 63 لاشوں اور 157 زخمیوں کو ملبے سے نکالا گیا۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاک فوج اور ریسکیو 1122 کی مدد سے ریسکیو آپریشن تاحال جاری ہے، ملبے کے نیچے سے ایک سر بھی ملا ہے جب کہ دھماکے کی نوعیت جاننے سے متعلق تحقیقات جاری ہیں، دھماکے کے خودکش ہونے کے امکان کو مسترد نہیں کیا جاسکتا جب کہ دھماکے کی مختلف پہلوؤں اور زاویوں سے تحقیقات جاری ہیں۔

دھماکے کے نتیجے میں قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع کے بعد وزیراعظم شہباز شریف پشاور پہنچے تھے، جہاں آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے ان کا استقبال کیا، وزیر دفاع خواجہ آصف، وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب اور دیگر بھی ان کے ساتھ تھے۔

اس موقع پر وزیر اعظم نے کہا تھا کہ دہشت گرد پاکستان کے دفاع پر مامور اداروں پر حملے کرکے خوف اور دہشت کی فضا پیدا کرنے کی مذموم کوشش کر رہے ہیں لیکن اس کو ریاست اور عوام کے اتحاد کی قوت سے ناکام بنائیں گے۔

وزیراعظم نے دھماکے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا تھا کہ شہریوں کا ناحق خون بہانے والوں کو عبرت کا نشان بنائیں گے۔

بھارت کی پشاور میں دہشت گردی کے حملے کی سخت مذمت

بھارتی امور خارجہ نے پشاور میں ہونے والے دہشت گردی کے حملے کی سخت مذمت کی ہے۔

بھارتی امور خارجہ کے ترجمان اریندم بگچی نے ٹوئٹر پر جاری کردہ بیان میں کہا کہ بھارت، پشاور میں ہونے والے دہشت گردی کے حملے کی شدید مذمت کرتا ہے جس میں متعدد شہری جاں بحق ہوگئے ہیں۔

ترجمان امور خارجہ نے کہا کہ بھارت گزشتہ روز پشاور میں ہونے والے دہشت گرد حملے کے متاثرین کے اہل خانہ سے گہری تعزیت کا اظہار کرتا ہے۔

ترکیہ کا اظہار مذمت

ترکیہ نے پشاور میں مسجد میں دہشت گردی کی شدید مذمت کی ہے۔

سرکاری خبر رساں ادارے ’اے پی پی‘ کی رپورٹ میں ترک خبر رساں ادارے کے کے حوالے سے کہا گیا کہ دفتر خارجہ نے اپنے بیان میں کہا کہ پشاور میں پولیس لائنز مسجد کو ہدف بنانے والے اس دہشت گرد حملے کے نتیجے میں بھاری جانی نقصان اور متعدد افراد کے زخمی ہونے پر ترکیہ کو سخت صدمہ پہنچا ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ ہم اس دہشت گرد حملے کی شدید مذمت کرتے ہیں، انہوں نے حملے میں جاں بحق ہونے والے افراد کے اہل خانہ اور عوام سے تعزیت کا اظہارکیا اور زخمیوں کی جلد شفایابی کے دعا کی۔

سلامتی کونسل کا اظہار مذمت

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے پشاور کی مسجد میں دہشت گردوں کے خودکش حملے کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اس انتہائی گھناؤنے اوربزدلانہ جرم کے ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔

15 رکنی سلامتی کونسل کے جنوری کے لیے صدر جاپان کے سفیر اشی کانے کیمی ہیرو کی طرف سے جاری بیان میں متاثرین کے لواحقین اور حکومت پاکستان سے دلی ہمدردی کا اظہار کیا گیا ہے اور زخمیوں کی جلد صحتیابی کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا گیا۔

بیان میں اس عزم کا اعادہ کیا گیا کہ سلامتی کونسل کے نزدیک دہشت گردی خواہ وہ کسی بھی صورت میں ہو بین الاقوامی امن و سلامتی کے لیے سنگین ترین خطرہ ہے۔

اشی کانے کیمی ہیرو نے کہا کہ اس سانحے کے ذمہ داروں، اس کے لیے مالی معاونت اور سرپرستی کرنے والوں کوانصاف کے کٹہرے میں لا کھڑا کیا جائے۔

بیان میں تمام ممالک سے اپیل کی گئی کہ وہ بین الاقوامی قانون اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق اپنی ذمہ داریاں ادا کرتے ہوئے اس معاملے میں پاکستان کی حکومت اور متعلقہ حکام کی مدد و معاونت کریں۔

سلامتی کونسل کے صدر نے کہا کہ سلامتی کونسل کے رکن ممالک اس عزم کا اعادہ کرتے ہیں کہ دہشت گردی کی کارروائیاں، خواہ ان کا کوئی بھی مقصد ہو اور وہ دنیا کے کسی بھی حصے میں ہوں اور انہیں جس نے بھی انجام دیا ہو مجرمانہ کارروائیاں ہیں اور ان کا کوئی جواز پیش نہیں کیا جاسکتا۔

دریں اثنا ہائی ریپریزنٹیٹو فار یونائیٹڈ نیشنز الائنس آف سویلائزیشنز (یواین اے او سی) میگوئل اینجل موراٹینوس نے پشاور حملے پر مذمت کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ تشدد کی تمام صورتیں، شہریوں اور مذہبی مقامات کے خلاف دہشت گردی ناقابل قبول اور بلاجواز ہے اور اس کی متفقہ طور پر مذمت کی جانی چاہیے۔

انہوں نے اپنے بیان میں کہا کہ عبادت گاہیں مقدس مقامات ہیں جہاں مختلف مذاہب کے پیروگار تحفظ اور آزادی کے ساتھ اپنے عقائد پر عمل کرتے ہیں، امتیاز، عدم برداشت اور تشدد کی کارروائیوں میں اضافہ گہری تشویش کا باعث ہے۔

میگوئل اینجل موراٹینوس نے تمام مذاہب کے لیے باہمی احترام اور بھائی چارے اورامن کے کلچر کے فروغ کی اپیل کرتے ہوئے تمام حکومتوں اور متعلقہ اداروں سے کہا کہ وہ مذہبی مقامات کے تحفظ کے لیےاقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کی درخواست پرالائنس آف سویلائزیشز کی طرف سے تشکیل دیے گئے ’پلان آف ایکشن‘ کی معاونت کریں۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز پشاور کی مسجد میں خوفناک دھماکے سے درجنوں افراد شہید اور 100 سے زائد زخمی ہوگئے تھے۔

شہید ہونے والوں میں امام مسجد صاحبزادہ نورالامین بھی شامل تھے۔

کیپیٹل سٹی پولیس افسر (سی سی پی او) پشاور محمد اعجاز خان نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ دھماکے کے بعد مسجد کی چھت منہدم ہوگئی، متعدد جوان اب بھی ملبے کے نیچے پھنسے ہوئے ہیں اور امدادی کاموں میں مصروف رضاکار انہیں نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا تھا کہ دھماکے کی نوعیت سے متعلق ابھی کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے، بارود کی بو آرہی ہے، تحقیققات جاری ہیں، جائزہ لینے کے بعد وجہ کی تصدیق ہوسکے گی۔

اعجاز خان نے کہا تھا کہ دھماکے کے وقت وہاں 300 سے 400 کے درمیان پولیس اہلکار موجود تھے، سی سی پی او نے کہا کہ بظاہر ہے یہ ہی لگتا ہے کہ کہیں سیکورٹی میں کوتاہی ہوئی۔