سرکاری ملازمت کے لیے دنیا کے سخت ترین امتحان میں تیسری پوزیشن لیکن بھول گئی کہ ’آرام کیسے کرتے ہیں‘
گامنی سنگلا تقریباً تین سال تک اپنے دوستوں سے دور رہیں، کہیں چھٹی پر نہیں گئیں اور خاندان والوں سے ملاقاتوں اور تقریبات سے گریز کرتی رہیں۔
انھوں نے باہر کا کھانا کھانا چھوڑ دیا، سنیما جانا بند کر دیا اور سوشل میڈیا سے دور ہوگئيں۔
اس کے بجائے شمالی انڈیا کے شہر چندی گڑھ میں وہ اپنے گھر میں صبح سویرے جاگتیں اور خود کو نصابی کتابوں میں غرق کر دیتیں۔ اس طرح وہ روزانہ دن میں 10 گھنٹے پڑھائی کرتیں۔
اس دوران وہ معلومات کو ذہن نشین کرتیں، فرضی ٹیسٹ دیتیں، ان امتحانات میں کامیابی حاصل کرنے والوں کی یوٹیوب ویڈیوز دیکھتیں اور اخبارات کے ساتھ مختلف موضوعات سے متعلق مدد دینے والی ’سیلف ہیلپ‘ کتابیں بھی پڑھتیں۔ اس دوران ان کے والدین اور بھائی ہی ان کے واحد ساتھی تھے۔
گامنی سنگلا کہتی ہیں کہ ’تنہائی آپ کی ساتھی بن جاتی ہے۔ یہ تنہائی آپ کو آگے بڑھنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔‘
وہ ملک کے سول سروسز کے امتحانات کی تیاری کر رہی تھیں، جو دنیا کے مشکل ترین امتحانات میں سے ایک شمار کیا جاتا ہے۔ اس کا ممکنہ طور پر صرف چین کے گاوکاو سے موازنہ کیا جاسکتا ہے جو کہ چین میں قومی سطح پر کالج میں داخلے کا امتحان ہے۔
انڈیا کے یونین پبلک سروس کمیشن (یو پی ایس سی) کے امتحانات کے ذریعے نوجوان مرد اور خواتین ملک کی سول سروسز میں شامل ہوتے ہیں۔
ہر سال دس لاکھ سے زیادہ امیدوار تین مراحل کے مشکل امتحان میں شرکت کے لیے درخواست دیتے ہیں۔ ان میں سے ایک فیصد سے بھی کم تحریری امتحان یا دوسرے مرحلے میں جگہ بنانے میں کامیاب ہوتے ہیں۔
سنہ 2021 میں جب گامنی سنگلا امتحان میں بیٹھیں تو کامیابی کی شرح آٹھ سالوں میں سب سے کم تھی۔ 1,800 سے زیادہ امیدوار انٹرویوز میں شامل ہوئے اور آخر میں صرف 685 مرد اور خواتین نے کوالیفائی کیا۔
گامنی سنگلا امتحان میں تیسرے نمبر پر رہیں، ان سے آگے بھی دو خواتین ہی تھیں اور ان سے ایک پوزیشن پیچھے بھی ایک خاتون تھیں، اور ایسا اس امتحان کی تاریخ میں پہلی بار ہوا تھا۔ انھوں نے ایلیٹ آئی اے ایس (انڈین ایڈمنسٹریٹو سروس) کا حصہ بننے کے لیے کوالیفائی کیا۔ زیادہ تر کامیاب امیدوار انڈیا کے 766 اضلاع کے کلکٹرز، سینیئر سرکاری افسران اور سرکاری کمپنیوں کے مینیجرز کے طور پر ملک چلاتے ہیں۔
24 سالہ گامنی نے کہا کہ ’جس دن میرا رزلٹ آیا، مجھے لگا کہ سر سے ایک بوجھ اتر گیا ہے۔ میں مندر گئی اور پھر ڈانس کرنے چلی گئی۔‘
لندن یونیورسٹی کے سکول آف اورینٹل اینڈ افریقن سٹڈیز (SOAS) میں ماہر عمرانیات سنجے سریواستو کا کہنا ہے کہ ایک ایسے ملک میں جہاں اچھی نجی ملازمتیں محدود ہیں اور ریاست کی روزمرہ کی زندگی میں بہت زیادہ موجودگی ہے، سرکاری ملازمت انتہائی مرغوب اور طاقتور ہوتی ہے۔ سرکاری ملازمت کے ساتھ بہت سی سہولیات بھی ہیں جیسے کہ رعایتی شرحوں پر قرض، رینٹل سبسڈی، سفر اور تعطیلات وغیرہ۔
اس کے علاوہ سول سروس چھوٹے شہروں کے لوگوں کے لیے بہت پرکشش ہے۔ سریواستو کہتے ہیں کہ ’نجی شعبے میں شامل ہونا کافی آسان ہو سکتا ہے، لیکن آگے بڑھنے کے لیے ثقافتی سرمائے کی ضرورت ہوتی ہے۔ دوسری طرف، سول سروس میں جانا بذات خود ثقافتی سرمایہ ہے۔’
دیگر امیدواروں کی طرح گامنی سنگلا انجینئرنگ گریجویٹ ہیں، ایک کمپیوٹر انجینیئر جنھوں نے بینکنگ کمپنی جے پی مورگن چیز کے ساتھ انٹرنشپ کی تھی۔ اور دوسروں کی طرح انھوں نے بھی اپنی نگاہیں بالآخر بیوروکریٹ بننے پر مرکوز کر رکھی تھیں۔ اپنا ڈرائیونگ لائسنس حاصل کرنے کے لیے لوکل گورنمنٹ ٹرانسپورٹ آفس کے چکر لگانے کے دوران انھوں نے وہاں ایک بیوروکریٹ کو دیکھا اور ان سے رہنمائی حاصل کرنے کے لیے انھوں نے ان سے ملاقات کا وقت طلب کیا (انھیں ملاقات کا وقت مل گيا)۔
وہ کہتی ہیں کہ ‘یہ سفر بہت مشکل ہے۔ اس میں کافی وقت لگتا ہے، اور بہت کچھ داؤ پر بھی ہوتا ہے۔’
ایک ایسی عمر میں جب بہت سے لوگوں کو یہ شعور ہی نہیں ہوتا کہ اپنی زندگی کے ساتھ کیا کرنا ہے، گامنی سنگلا کی انتھک محنت اور قربانی کی کہانی انڈیا کے اس سخت امتحان کے نظام کی ایک جھلک پیش کرتا ہے جس میں نہ ختم ہونے والی پڑھائی، خاندان کی شمولیت، وقت بچانے کے طریقے تلاش کرنا اور دھیان ہٹانے والی کسی بھی چیز سے گریز اور دنیا سے تقریباً مکمل دوری شامل ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’ایسے میں مایوسی اور تھکاوٹ کے لمحات آتے ہیں۔ یہ ذہنی طور پر بہت تھکا دینے والا ہوتا ہے۔‘
گامنی سنگلا نے اس منصوبے پر عمل کیا جو کسی میراتھن ٹریننگ پلان جیسا لگتا تھا۔ اپنی صحت کا خیال رکھنے اور منزل تک پہنچنے کے لیے انھوں نے پھلوں، سلاد، خشک میوہ جات اور دلیہ کی خوراک کو اپنا لیا۔ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ وقت ضائع نہ ہو، وہ ورزش کے لیے باہر نکلنے کی بجائے ہر تین گھنٹے بعد اپنے کمرے میں دو سے تین سو بار کود لیتی تھیں۔
فارغ وقت کو دانشمندی سے استعمال کرنے کی ضرورت ہے اس لیے وہ مختلف موضوعات پر مسائل کو حل کرنے میں مددگار ’سیلف ہیلپ‘ کتابیں پڑھتی ہیں۔ انھوں نے اپنی صلاحیتوں کو جانچنے کے لیے متعدد آن لائن فرضی ٹیسٹ لیے۔ مثال کے طور پر آپ دو گھنٹے میں جنرل نالج کے معروضی امتحان میں 100 سوالوں کے جواب کیسے دے سکتی ہیں؟ گامنی سنگلا کہتی ہیں: ‘جب میں نے [پچھلے] ٹاپرز کی ویڈیوز سنیں، تو میں نے محسوس کیا کہ ہر کوئی 35-40 سوالات کے جوابات جانتا ہے، اور باقی اندازوں پر حل کیے جاتے ہیں۔’
وہ کہتی ہیں کہ چونکہ اس کا ایک اہم امتحان سردیوں میں ہوتا ہے، اس لیے کمفرٹ زون سے باہر نکل کر سرد اور ناگوار ماحول کا تجربہ کرنے کے لیے وہ فرضی ٹیسٹوں کے لیے ’کم سے کم سورج کی روشنی والے سرد ترین کمرے‘ کا انتخاب کرتیں۔ انھوں نے اس کے لیے تین مختلف جیکٹیں آزمائیں اور جو سب سے زیادہ آرام دہ تھی اسے انھوں نے منتخب کیا۔ انھوں نے کہا: ’میں نے امیدواروں کے بارے میں سنا تھا کہ انھیں اپنی غیر موزوں، بھاری جیکٹس کی وجہ سے لکھنے میں پریشانی ہوئی تھی۔ لہذا اپنا بہترین دینے کے لیے یہ سب کرنا اہم بھی تھا۔‘
یہ سب ان کے خاندان کے لیے بھی ایک مشترکہ تجربہ بن گیا۔ گامنی سنگلا کے والدین بھی اس میں جوش و خروش سے شامل ہوئے۔ دونوں سرکاری ڈاکٹر ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ان کے والد روزانہ کم از کم تین اخبارات پڑھتے ہیں اور ’اخبارات امتحانات کے لیے آپ کی تیاریوں کا 80 فیصد حصہ ہوتے ہیں۔ وہ اپنی بیٹی کی حالات حاضرہ کے بارے میں معلومات کو تیز کرنے کے لیے اہم خبروں پر نشان لگا دیا کرتے تھے۔ ان کے بھائی نے فرضی ٹیسٹوں میں ان کی مدد کی۔ ان کے دادا دادی نے کامیابی کے لیے دعا کی۔
اس بات کو یقینی بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی کہ گامنی کی تیاری میں کوئی خلل نہ ہو۔ جب ان کے گھر کے سامنے دو عمارتوں پر تعمیراتی کام کی وجہ سے پریشانی ہوئئ اور سورج کی روشنی آنے میں رکاوٹ پیدا ہوئی تو ان کے گھر والوں نے ان کے پڑھنے کے لیے ایک پرسکون اور بہتر روشنی والی جگہ بنانے کے لیے اپنی چھت پر ایک کمرہ گرا دیا۔
انھوں نے کہا کہ متجسس رشتہ داروں سے بچانے کے لیے جو یہ سوچتے تھے کہ ان کی بیٹی خاندانی تقریبات سے کیوں غائب ہے، ان کے والدین نے بھی ’سوشل ہونا چھوڑ دیا اور خاندان کی دعوتوں سے گریز کرنے لگے تاکہ میں خود کو الگ تھلگ محسوس نہ کروں۔‘
گامنی کہتی ہیں کہ ’وہ میرے سفر کا حصہ ہیں۔ وہ اسی راستے پر چلتے رہے۔ یہ [امتحان] ایک خاندانی کوشش ہے۔‘
سنگلا کا تعلق انڈیا کے مراعات یافتہ متوسط طبقے سے ہے جنھیں بیوروکریسی میں شامل ہونے کے اپنے خوابوں کی راہ میں کم رکاوٹوں کا سامنا ہے۔ لیکن ان امتحانات نے محروم پس منظر سے تعلق رکھنے والے طلباء کے لیے بھی اوپر کی طرف آنے کا ایک راستہ بنایا ہے۔ سرکاری ٹی وی پر کرنٹ افیئرز کا ایک مشہور شو پروڈیوس کرنے والے فرینک روسن پریرا کا کہنا ہے کہ ان کے خاندان اپنے بچوں کو بڑے شہروں میں کوچنگ سکولوں میں بھیجنے کے لیے زمین اور زیورات بیچتے ہیں۔ ان کا شو سول سروس کے خواہشمندوں میں بہت مقبول ہوا۔
پریرا کا کہنا ہے کہ آج کے زیادہ تر امیدوار انڈیا کے چھوٹے شہروں اور دیہاتوں سے آتے ہیں۔ انھوں نے ایک نوجوان سول سروینٹ سے بات کی جو ہاتھ سے گندگی اور کوڑا اٹھانے والے ایک شخص کا بیٹا تھا۔ وہ انسانوں اور جانوروں کا فضلہ بالٹیوں یا گڑھوں سے صاف کرتا تھا۔ یہ ایک ایسا کام ہے جو زیادہ تر نچلی ذات کے لوگ کرتے ہیں۔ اس نوجوان نے گھر پر رہ کر ہی تعلیم حاصل کی اور امتحان میں کامیاب رہے۔ یہاں تک کہ باوقار فارن سروس میں شمولیت اختیار کی۔
پریرا کہتے ہیں ’میں ایسے امیدواروں کو بھی جانتا ہوں جنھوں نے 16 سال تک ان امتحانات کی تیاری کی جس دوران وہ ایک درجن سے زیادہ بار ناکام رہے۔‘ (ان سروسز کے امیدوار 32 سال کی عمر تک چھ بار امتحان دے سکتے ہیں جبکہ کچھ پسماندہ ذات کے لوگ جتنی بار چاہیں امتحان میں بیٹھ سکتے ہیں۔ امیدوار 21 سال کی عمر میں پہلی بار امتحان دے سکتے ہیں۔)
گامنی سنگلا کہتی ہیں کہ سرکاری ملازم بننے سے انھیں ایک وسیع اور پیچیدہ ملک میں ’حقیقی تبدیلی لانے اور بہت سی زندگیوں پر اثر انداز ہونے‘ کا بہترین موقع ملتا ہے۔ انھوں نے اس پر ایک کتاب لکھی ہے کہ ’دنیا کے سب سے مشکل امتحان میں کامیاب ہونے‘ کے لیے کیا کرنا پڑتا ہے۔ اس میں دیگر چیزوں کے علاوہ ’قربانیاں کیسے دی جائیں‘، اور ’ایسے المیوں سے کیسے نمٹا جائے جو آپ کے قابو سے باہر ہیں‘ اور ’اپنے خاندان کے دباؤ کو کیسے سنبھالیں‘ جیسے ابواب ہیں۔
گامنی سنگلا نے مجھے بتایا کہ وہ کبھی کبھی سوچتی ہیں کہ شاید وہ یہ بھول ہی گئی ہیں کہ ’آرام کیسے کرتے ہیں‘۔ وہ اب تھوڑا سا آرام کرنے کے قابل ہیں کیونکہ وہ اب ٹریننگ کر رہی ہیں اور اضلاع میں اپنی پہلی تقرری کی تیاری کے لیے ملک کا سفر کر رہی ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ اس کے بعد ’زندگی مصروف ہو جائے گی۔ اور ایک بار پھر سے ریلیکس کرنا مشکل ہو جائے گا۔‘