سعودی عرب کے کئی شہریوں نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ قید کیے گئے ان کے پیاروں کو اہل خانہ کو پیشگی وارننگ کے بغیر موت کی سزا دے دی جاتی ہے۔
انسانی حقوق کی ایک نئی رپورٹ کے مطابق، سنہ 2015 یعنی جب سے شاہ سلمان اور ان کے بیٹے محمد بن سلمان نے اقتدار سنبھالا ہے، ملک میں سزائے موت کی شرح تقریباً دوگنی ہو گئی ہے۔
مصطفیٰ الخیاط کے اہل خانہ کو کوئی اطلاع نہیں دی گئی کہ انھیں موت کی سزا دی جا رہی ہے۔
اب تک ان کے پاس دفنانے کے لیے لاش بھی نہیں ہے اور فاتحہ پڑھنے کے لیے کوئی قبر نہیں ہے۔
آخری بار ان کا مصطفیٰ سے رابطہ جیل سے آنے والی ایک فون کال کے ذریعے ہوا تھا، اور انھوں فون بند کرنے سے پہلے اپنی ماں سے کہا: ’اچھا، مجھے جانا ہے۔ میں خوش ہوں کہ آپ ٹھیک ہیں۔‘
دونوں میں سے کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ یہ ان کی آخری بات ہو گی۔
ایک ماہ بعد، مصطفیٰ کو پھانسی دے دی گئی۔ 12 مارچ 2022 کو81 افراد کو سزائے موت دی گئی جو حالیہ سعودی تاریخ میں ایک ہی دن کی ریکارڈ تعداد تھی۔
شاہ سلمان اور محمد بن سلمان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے سزائے موت کی شرح دوگنی
مصطفیٰ کا نام اس طویل اور تیزی سے بڑھتی ہوئی فہرست میں شامل ہے جو ریپرئیو گروپ کی طرف سے بنائی گئی ہے۔
یہ گروپ ایک نئی رپورٹ کے لیے یورپی سعودی آرگنائزیشن فار ہیومن رائٹس کے ساتھ مل کر سعودی عرب میں دی جانے والی پھانسیوں کو تفصیلی دستاویز کی شکل دے رہا ہے۔
2010 سے جمع کیے گئے ڈیٹا کی بنیاد پر، ان کی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ:
- 2015 میں شاہ سلمان کے اقتدار سنبھالنے اور اپنے بیٹے محمد بن سلمان کو اہم عہدوں پر تعینات کرنے کے بعد سے سعودی عرب میں سزائے موت پر عمل درآمد کی شرح تقریباً دوگنی ہو گئی ہے۔
- سزائے موت کو معمول کے مطابق اختلاف رائے رکھنے والوں اور مظاہرین کو خاموش کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، جو انسانی حقوق کے بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے، جبکہ اسے صرف انتہائی سنگین جرائم کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے۔
- سنہ 2015 سے اب تک جن افراد کو موت کی سزا دی جا چکی ہے ان میں سے کم از کم 11 افراد کو اس وقت حراست میں لیا گیا تھا جب وہ بچے تھے، اس کے باوجود سعودی عرب بار بار یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ نابالغوں کو کم سے کم سزائے موت دے رہا ہے۔
- سعودی جیلوں میں مسلسل اذیت دی جاتی ہے، یہاں تک کہ بچوں کو بھی۔
’ہمیں یہ بھی نہیں پتا اس کا کفن دفن مناسب طریقے سے کیا گیا یا لاش صحرا یا سمندر میں پھینک دی گئی‘
ریپرئیو نے گذشتہ برس سعودی عرب میں 147 ایسے کیسز کو دستاویزی شکل دی لیکن ان کا کہنا ہے کہ یہ تعداد اس سے زیادہ بھی ہو سکتی ہے۔
گروپ کا یہ بھی کہنا ہے کہ سعودی عرب نے غیر ملکی شہریوں، بشمول خواتین گھریلو ملازمین اور منشیات کے کم درجے کے مجرموں کے خلاف سزائے موت کا غیر موزوں استعمال کیا ہے۔
تقریباً ایک سال گزرنے کے باوجود حکام نے مصطفیٰ کے اہل خانہ کو یہ نہیں بتایا کہ انھیں اور دیگر کو کیسے موت کی سزا دی گئی۔ ان کے بڑے بھائی یاسر کا کہنا ہے خاندانوں کے لیے یہ بہت بڑا المیہ ہے۔
’ہمیں یہ بھی نہیں پتا کہ اس کا کفن دفن مناسب طریقے سے کیا گیا یا اس کی لاش صحرا یا سمندر میں پھینک دی گئی تھی۔ ہمیں کچھ معلوم نہیں ہے۔‘
’جان بوجھ کر انھیں بدنام بھی کیا‘
یاسر پہلی بار کھلے عام آواز اٹھا رہے ہیں۔ اب وہ جرمنی میں رہتے ہیں، جہاں انھیں 2016 میں سعودی عرب سے فرار ہونے کے بعد سیاسی پناہ دی گئی ہے۔ انھیں ڈر تھا کہ ان کا حشر بھی اپنے بھائی جیسا ہو گا۔
یاسر کا کہنا ہے کہ ان کا بھائی ’مذاحیہ، ملنسار اور مقبول‘ لڑکا تھا۔
2011 سے مصطفیٰ نے سعودی حکومت کے خلاف روزانہ کی بنیاد پر مظاہروں میں حصہ لیا۔ ان مظاہروں کی قیادت ملک کی شیعہ اقلیت کر رہی تھی۔
مصطفیٰ کو 2014 میں حراست میں لیا گیا تھا۔ ان کی موت کے بعد ایک سرکاری اعلان میں کہا گیا تھا کہ 30 دیگر افراد کے ساتھ انھیں بھی اسی سلسلے کے جرائم کے لیے موت کی سزا دی گئی ہے۔
ان پر الزام لگایا گیا کہ وہ سیکیورٹی اہلکاروں کے قتل کی کوشش، عصمت دری، ڈکیتی، بم بنانے، جھگڑا کرنے اور افراتفری پھیلانے کے ساتھ ساتھ ہتھیاروں اور منشیات کی تجارت جیسے جرائم میں شامل تھے۔
یاسر کہتے ہیں ’انھوں نے کبھی کوئی ثبوت فراہم نہیں کیا۔ یہ بہت سنگین جھوٹ ہے۔‘
یاسر بتاتے ہیں کہ جب حکام نے مصطفی اور 80 دیگر مردوں کو موت کی سزا دی ان دنوں ان کا بھائی اپنی سزا کے خلاف اپیل کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔
’ناصرف انھوں نے مصطفی اور دیگر کو جان سے مار ڈالا بلکہ جان بوجھ کر انھیں بدنام بھی کیا اور ان پر ایسے ایسے الزام لگائے جو کام انھوں نے کبھی نہیں کیے تھے۔‘
اقتدار میں آنے کے بعد ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان یعنی سعودی عرب کے ڈی فیکٹو حکمران نے مملکت کو جدید بنانے کا وعدہ کیا اور 2018 میں ایک انٹرویو میں کہا کہ ان کا ملک، جو ایک اہم مغربی اتحادی ہے، موت کی سزا کی سزا کو ’کم سے کم‘ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
لیکن تقریباً پانچ سال بعد سعودی عرب دنیا کے سب سے زیادہ سزائے موت دینے والے ملکوں میں سے ایک ہے۔
’ولی عہد کے حکم پر پھانسیاں دی جا رہی ہیں‘
ریپرئیو کی ڈائریکٹر مایا فوا نے مشرقی لندن میں واقع دفتر سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ولی عہد شہزادہ جنھیں ایم بی ایس کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، نے ’جو وعدہ کیا تھا اس کے بالکل برعکس کیا۔‘
’ولی عہد کے حکم پر بڑی تعداد میں پھانسیاں دی گئی ہیں اور جمہوریت کے حامی مظاہروں میں شرکت کرنے والوں کے خلاف بہیمانہ کریک ڈاؤن بھی ان کی نگرانی میں ہوا ہے۔‘
سزائے موت کے ارد گرد رازداری کا ایک نظام ہے جس کی وضاحت کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ ریپرئیو نے بہت سے ایسے مقدمات کو دیکھا ہے، جن کے بارے میں کوئی نہیں جانتا تھا کہ انھیں بھی سزائے موت دی جانی ہے۔
’ان کے خاندان والوں کو پتا ہی نہیں تھا۔ بہت سے ایسے لوگ ہیں جنھیں گرفتار کیا گیا، مقدمہ چلایا گیا، سزائے موت سنائی گئی اور پھر خفیہ طور پر سزا دی گئی۔‘
کچھ خاندانوں کو صرف سوشل میڈیا کے ذریعے پتہ چلا کہ ان کے پیاروں کو سزا دی گئی۔
فوا کہتی ہیں کہ سرکاری طور پر معلومات کی کمی ’سب سے ظالمانہ اور تکلیف دہ‘ پہلوؤں میں سے ایک ہے۔‘
روایتی طور پر سعودی عرب میں سر قلم کرنا موت کی سزا کا بنیادی طریقہ رہا ہے۔ عوامی اجتماعات میں سزا دی جاتی تھی اور ہلاک ہونے والوں کے ناموں کے ساتھ ان پر لگائے گئے الزامات کو سرکاری ویب سائٹس پر شائع کیا جاتا تھا۔
لیکن انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ سزائے موت کا استعمال بہت زیادہ مبہم ہو گیا ہے۔
میں نے جتنے لوگوں سے بات کی ان میں سے کوئی نہیں جانتا تھا کہ اب موت کی سزا کیسے دی جاتی ہے، تاہم خیال کیا جاتا ہے کہ فائرنگ سکواڈ کا استعمال کیا جا رہا ہے۔
برلن میں قائم یورپی سعودی آرگنائزیشن فار ہیومن رائٹس کے ڈائریکٹر علی ادوبیسی کا کہنا ہے کہ سزائے موت سعودی قانونی نظام کا حصہ ہے جو کہ ’غیر منصفانہ ہے۔ کسی قسم کی آزاد سول سوسائٹی یا انسانی حقوق کے گروپ وہاں کام نہیں کر سکتے۔ اگر ہم پھانسیوں کی طرف توجہ نہ دیں تو لوگوں کو خاموشی سے مارا جاتا رہے گا۔‘
’اسے بجلی کے جھٹکے لگائے گئے، مصطفیٰ اس قابل بھی نہیں تھا کہ کھڑا ہو کر ہمیں سلام کر سکے‘
ہیومن رائٹس واچ نے کہا ہے کہ مارچ میں جن 81 افراد کو موت کی سزا دی گئی ان میں سے 41 کا تعلق شیعہ اقلیت سے تھا اور یہ کہ ’سعودی عرب کے فوجداری انصاف کے نظام میں بے تحاشا اور منظم زیادتیوں سے پتہ چلتا ہے کہ ان مردوں میں سے کسی کو بھی منصفانہ ٹرائل ملنے کا امکان بہت کم تھا۔‘
ہیومن رائٹس واچ کے مطابق انھیں ان قیدیوں پر تشدد کی اطلاعات بھی ملی ہیں۔
سنہ 2014 میں گرفتاری کے 12 ماہ بعد جب یاسر کو پہلی بار مصطفیٰ سے ملنے کی اجازت دی گئی تو وہ اسے دیکھ کر چونک گئے۔
’اگرچہ ہمیں اسے آخری بار دیکھے ایک سال ہو گیا تھا، مگر وہ اس قابل بھی نہیں تھا کہ کھڑا ہو کر ہمیں سلام کر سکے۔‘
’جتنی بار اس نے کوشش کی، وہ نیچے گر جاتا۔۔۔ جب ہم نے پوچھا کہ کیا ہوا ہے تو اس نے بتایا اس پر تشدد کیا جاتا ہے۔‘
’ہم نے اس کے جسم پر چوٹوں کے نشانات دیکھے اور اس نے ہمیں بتایا کہ اسے بجلی کے جھٹکے لگائے گئے تھے۔‘
حسین کو ’پاؤں سے باندھ کر مارا پیٹا گیا‘
ایک اور قیدی کی بہن نے مجھے بتایا کہ اس کے بھائی کو بھی بری طرح تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
زینب ابو الخیر، جن کے بھائی حسین 2014 سے جیل میں ہیں، کہتی ہیں ’اس نے بتایا کہ اسے پاؤں سے باندھ کر مارا پیٹا گیا۔ اس نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ اس کے مقدمے میں جبری اعتراف کی اجازت دی جائے گی۔‘
اردن سے تعلق رکھنے والا حسین، ایک امیر سعودی خاندان کے لیے ڈرائیور تھے اور ان کو اردن- سعودی سرحد پر کار میں منشیات کے ساتھ گرفتار کیا گیا۔ زینب کو یقین ہے کہ وہ منشیات ان کی نہیں تھیں۔
کینیڈا میں اپنے گھر سے بات کرتے ہوئے وہ بتاتی ہیں کہ کس طرح حسین کی گرفتاری کے بعد سے ان کے اہل خانہ اپنے خرچے پورے کرنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔
ان کا ایک معذور بیٹا ہے اور ان کو قید کیے جانے کے بعد، ان کی 14 سالہ بیٹی کو اردن میں ’شادی کے لیے بیچ دیا گیا۔‘
جن مردوں کو حسین کی کوٹھڑی سے لے جایا گیا، وہ کبھی واپس نہیں آئے
گذشتہ نومبر میں سعودی عرب نے منشیات کے جرائم کے لیے سزائے موت پر غیر سرکاری پابندی ختم کر دی تھی۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر نے اسے ’انتہائی افسوسناک‘ قرار دیا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق 15 دن کے اندر اندر 17 افراد کو ایسے جرائم کے لیے موت کی سزا دی گئی۔
زینب کہتی ہیں کہ جن مردوں کو حسین کی کوٹھڑی سے لے جایا گیا، وہ کبھی واپس نہیں آئے۔
اس چیز نے حسین اور زینب دونوں کو خوفزدہ کر دیا ہے۔
وہ کہتی ہیں ’میں سارا دن اور رات اس کے بارے میں سوچتی ہوں۔۔۔ مجھے برے خواب آتے ہیں۔ یہ خیال کہ وہ اس کا سر کاٹ دیں گے۔۔۔۔ یہ بہت ظلم ہے۔‘
’آپ سوچ بھی نہیں سکتے کہ یہ کتنا مشکل ہے۔ کبھی کبھی میں اکیلے بیٹھ کر روتی ہوں اور بس روتی ہی رہتی ہوں۔‘
زینب کو ان ممالک پر بھی غصہ ہے کہ جو سعودی عرب کو یہ سب کرنے کی اجازت دے رہے ہیں۔
گذشتہ مارچ میں 81 مردوں کی اجتماعی سزائے موت کے چار دن بعد اس وقت کے برطانیہ کے وزیر اعظم بورس جانسن نے محمد بن سلمان سے ملاقات کی تاکہ روسی ایندھن کے متبادل کے طور پر انھیں مزید تیل پمپ کرنے پر آمادہ کیا جا سکے۔
ڈاؤننگ سٹریٹ کا کہنا تھا کہ جانسن نے سعودی عرب میں انسانی حقوق کے مسائل پر تشویش کا اظہار کیا۔
اقتدار میں آنے کے بعد سے ایم بی ایس نے کئی سماجی اور معاشی اصلاحات کی ہیں جن میں خواتین کو گاڑی چلانے کی اجازت دینا شامل ہے لیکن ان کے ساتھ ساتھ سیاسی جبر بھی بڑھتا جا رہا ہے۔
ہیومن رائٹس واچ کی تازہ ترین رپورٹ میں سعودی عرب کے انسانی حقوق کے ریکارڈ کو ’افسوسناک‘ قرار دیا گیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ ان کی ساکھ پر ایک داغ ہے جس پر وہ کھیلوں اور تفریح کے ذریعے ’پردہ‘ ڈالنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔
بی بی سی نے سعودی ہیومن رائٹس کمیشن (ایک سعودی سرکاری تنظیم) کو تین ای میلز بھیجی ہیں۔ ہم نے ان سے ایک سرکاری اہکار سے بات کروانے کی درخواست کی ہے، لیکن اس کا کوئی جواب نہیں دیا گیا۔
لندن میں سعودی سفارت خانے کی جانب سے بی بی سی کو ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ دنیا بھر میں بہت سی دوسری قوموں میں سزائے موت دی جاتی ہے اور ان ممالک میں اس بارے میں مختلف خیالات ہیں کہ کون سی سزائیں مناسب ہیں۔
انھوں نے کہا: ’جیسا کہ ہم ان کے قوانین اور رسم و رواج کا احترام کرتے ہیں، اسی طرح ہم امید کرتے ہیں کہ دوسرے بھی ہمارے عدالتی فیصلوں کا احترام کریں گے۔‘
لیکن انھوں نے ولی عہد ایم بی ایس کے متعلق یا بین الاقوامی اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے موت کی سزا میں زبردست اضافے جیسے سوالات کے جواب نہیں دیے۔
ہر صبح، ہر شام، ہمیں یہ پتا کرنا پڑتا ہے کہ وہ ابھی تک زندہ ہے یا نہیں‘
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر نے بی بی سی کو بتایا کہ اسے سعودی عرب میں سزائے موت کے استعمال کے رجحان پر گہری تشویش ہے۔
’ہمیں سزائے موت کی بڑھتی تعداد پر تشویش ہے خاص کر ان مقدمات میں جہاں نابالغ بچوں کو یہ سزائیں دی جا رہی ہیں اور ہمیں ایسے جرائم کے بارے میں تشویش ہے جو بین الاقوامی قانون کی رو سے ’انتہائی سنگین جرائم‘ کی حد پر پورا نہیں اترتے جیسا کہ منشیات سے متعلقہ جرائم۔‘
وہ لوگ جن کے پیارے جیل میں ہیں، ان کے لیے یہ انتہائی پریشانی کے دن ہیں۔۔۔۔ حسین کی بہن ہر وقت بس فیملی چیٹ گروپ پر نظریں ٹکائے رہتی ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’اتنی پریشانی میں کیسے جیا جا سکتا ہے۔۔۔ ہر صبح، ہر شام، ہمیں یہ پتا کرنا پڑتا ہے کہ وہ ابھی تک زندہ ہے یا نہیں۔‘