کراچی کے سکول میں ڈکیتی کی واردات: ’وہ بار بار کہتا تھا گولی مار دوں گا‘
جمعے کا دن تھا اور عثمان پبلک سکول کی خواتین ٹیچرز اور پرنسپل سبھی سلیبس کی تیاری کے لیے جمع ہوئے تھے جب دو نوجوان سکول میں داخل ہوئے اور تمام سٹاف کو یرغمال بنا کر موبائل نقدی اور لیپ ٹاپ لوٹ گئے۔۔۔ یہ وارادت چند منٹوں کے اندر اندر ہوئی۔
کراچی میں عثمان پبلک سکول کورنگی میں واقع ہے جس کے عین سامنے رینجرز کا مقامی ہیڈ کواٹر ہے۔
سٹیزن پولیس لیزان کمیٹی کے مطابق گذشتہ سال کراچی میں سٹریٹ کرائم کے 85948 واقعات ہوئے۔
’ہم سکول میں بھی محفوظ نہیں‘
عثمان پبلک سکول کی لیڈی ٹیچر سمیعہ شیخ بتاتی ہیں کہ وہ ساتھی ٹیچر کے ساتھ سلیبس ٹائپ کر رہی تھیں کہ اسی دوران دو بندے آئے۔
’انھوں نے کہا کہ وہ داخلے کے لیے آئے ہیں جس پر انھیں بتایا گیا کہ آپ زیادہ آگے آ گئے ہیں، دفتر باہر ہے، جس پر انھوں نے جواب دیا کہ آپ بیٹھ جائیں اور اس کے بعد انھوں نے اپنی گن بھی نکال لی۔‘
وہ بتاتی ہیں کہ ’جیسے ہی میں نے گن دیکھی اپنا موبائل نکال کر اسے دے دیا کیونکہ انھوں نے مجھے موبائل جیب میں ڈالتے ہوئے دیکھ لیا تھا۔‘
’پھر انھوں نے سر زین کا موبائل اور لیپ ٹاپ اٹھایا۔ پہلی بار میری زندگی میں یہ سب کچھ ہوا، میری تو حالت ہی خراب ہوگئی تھی اور میں نے سوچا کہ ہم سکول میں بھی محفوظ نہیں رہے۔‘
سکول کے پرنسپل ذیشان علی کہتے ہیں کہ ’وہ بار بار کہتے تھے گولی مار دوں گا‘ لہذا انھوں نے ٹیچرز کو خاموش کرایا۔
انھوں نے موبائل اور نقدی چھیننے کے بعد دفتر کے اندر موجود کیش بھی لے لیا۔
لیڈی ٹیچر انعم علی اپنے بچوں کے ساتھ سکول آئی تھیں۔
وہ بتاتی ہیں کہ ’ہم ٹیچرز روم میں ہنسی مذاق کر رہے تھے جب دو نوجوان کمرے میں داخل ہوئے اور میرا بیگ چھین کر الٹ دیا اور کہا کہ آپ موبائل فون نہیں لائیں؟ آپ فون نہیں رکھتیں؟‘
انعم بتاتی ہیں کہ میں نے کہا ’بچوں کا ساتھ ہوتا ہے، اس لیے نہیں رکھتی۔‘
’افسوس یہ ہے کہ چوتھی بار میرے ساتھ یہ واقعہ ہوا‘
غریب بستی ہو، مڈل کلاس آبادی یا پوش علاقہ۔۔۔ سٹریٹ کرائم ایک علاقے تک محدود نہیں۔
مقدر کا ستارہ ڈرامے کے ہیرو عنایت خان کو فٹنس کے لیے وقت رات کو ہی ملتا ہے اس لیے انھیں اسی وقت جم جانا پڑتا ہے۔
وہ بتاتے ہیں کہ ڈیفینس میں وہ جس جم جاتے ہیں وہ رات ساڑھے گیارہ بجے بند ہوجاتا ہے لہذا وہ اختر کالونی چلے جاتے ہیں جہاں بارہ بجے تک ایک جم کھلا رہتا ہے۔
’اس روز بارہ بج چکے تھے۔ میرا انٹرنیٹ پیکیج ختم ہوگیا تو میں نے قریبی دکان سے ری پیکیج کروایا اور ابھی میں سیل فون کودوبارہ سٹارٹ کر رہا تھا کہ جیسے ہی اس کی لائٹ آن ہوئی تو سامنے سے بائیک پر دو نوجوان گزرے۔‘
عنایت کہتے ہیں ’میں نے سوچا کہ عام طور پر جیسے بائیکس گذرتی ہیں یہ بھی گذر کر چلے جائیں گے۔‘
وہ بتاتے ہیں کہ ’انھوں نے واپس جا کر یو ٹرن لیا اور اس وقت میرے ساتھ ایک مزدوربھی موجود تھا، ہم دونوں کو روکا اور موبائل مانگا تو میں نے کہا کہ اتنے پیار سے تو ہم نہیں دے سکتے کچھ دکھاؤ گے تو ہم دیں گے۔‘
’دیکھا تو جو بائیک چلا رہا تھا اس کے پاس گن تھی اور سامنے تانی ہوئی تھی۔۔۔ میں نے کہا چلو ضرورت مند ہیں کیا کرسکتے ہیں، لے جاؤ، جان سے بڑھ کر تو نہیں ہے لیکن افسوس یہ ہے کہ چوتھی بار میرے ساتھ یہ واقعہ ہوا تھا۔‘
’مجھے اور بیگم کو یرغمال بنا لیا اور ہم پر پستول تان لی‘
کراچی میں ڈکیتیاں شام اور رات کے اوقات تک محدود نہیں رہیں۔ اب یہ دن دیہاڑے بھی ہوتی ہیں۔
گلبرگ کے رہائشیوں نے 10 نومبر کی صبح اس وقت بالی وڈ کی کرائم سیریز کا منظر دیکھا جب پولیس نے تین ڈاکوں کو مار گرایا۔
زاہد اصغر بتاتے ہیں کہ صبح 11 بجے وہ سوئے ہوئے تھے۔ ان کے بھائی آفس جا چکے تھے کہ فائرنگ کی آواز پر وہ ہڑا بڑا کر اٹھے اور لاونج میں گئے تو پی کیپ پہنے ہوئے نوجوان ان کے گھر کے اندر سے فائرنگ کر رہے تھے جبکہ باہر پولیس کی نفری تھی۔
وہ بتاتے ہیں ’ڈاکو ہمارے گھر کے اندر ہی تھے اور گھر میں خواتین اور بچے بھی موجود تھے۔ ڈاکوؤں نے مجھے اور میری بیگم کو یرغمال بنا لیا اور ہم پر پستول تان لی۔‘
’وہ ہمیں باہر گلی کے کونے تک لے کر گئے اور پولیس سے گاڑی طلب کی۔ اسی دوران جس ڈاکو نے میری بیوی پر پستول تان کر رکھی تھی اس پر ایک کانسٹیبل نے نشانہ داغہ اور وہ گر گیا جس کے بعد دو مجھے چھوڑ کر بھاگے جنھیں پولیس نے گھیر کر مار ڈالا۔‘
’سورج غروب ہونے کے ساتھ عدم تحفظ کا احساس بڑھ جاتا ہے‘
پاکستان کے صنعتی و تجارتی مرکز کراچی کی شناخت روشنیاں تھیں لیکن اب شہریوں میں سورج غروب ہونے کے ساتھ عدم تحفظ کا احساس بڑھ جاتا ہے۔
گذشتہ سال 110 شہری ڈاکوں سے مزاحمت کرتے ہوئے مارے گئے اسی لیے زیادہ تر شہری مزاحمت سے احتیاط برتتے ہیں۔
سمیعہ شیخ کہتی ہیں کہ ’اسلحے کے سامنے کون مزاحمت کرتا ہے، ہم نے سنا ہے کہ فلاں نے مزاحمت کی تھی اس کو مار کر چلے گئے یا کسی کے پیروں میں گولی ماردی اور وہ زندگی بھر کے لیےمعذور ہو گیا۔‘
انعم کہتی ہیں کہ ’مالی نقصان تو ہر کوئی برداشت کرلیتا ہے لیکن جانی نقصان ناقابل تلافی ہوتا ہے، اگر ڈاکو کسی کو زخمی کرکے چلے جاتے تو کوئی فائدہ نہیں تھا۔‘
اداکار عنایت خان کہتے ہیں کہ انھوں نے ڈرامہ انڈسٹری میں بڑی جدوجہد سے جگہ بنائی ہے، انھیں زندگی کی قدر ہے اور ابھی انھیں سٹار بننا ہے لہذا وہ ’رسک نہیں اٹھاتے۔‘
وہ کہتے ہیں ’ہم تو کہاوت سنتے ہیں کہ آپ کمائیں گے تو اور آجائے گا لیکن سچ یہ ہے کہ شادی شدہ ہوں، میرا بیٹا نو مہینے کا ہے اور میں اس صورتحال میں مزاحمت تو نہیں کر سکتا ناں، اگر خدانخواستہ مجھے گولی لگ جاتی تو ہنستا کھیلتا ہوا میرا جو گھر ہے وہ ختم ہوجاتا۔‘
کراچی میں سٹریٹ کرائم کی روک تھام کے لیے شاہین سکواڈ تشکیل دیا گیا اور ان جرائم کی تحقیقات سی ٹی ڈی اور سی آئی اے پولیس کو دی گئی ہے۔
پولیس کا دعویٰ ہے کہ گذشتہ سال 3600 ملزمان کو گرفتار کیا گیا۔
وزیر اعلیٰ ہاؤس ان جرائم کو مانیٹر کر رہا ہے لیکن ان کوششوں کے باوجود سٹریٹ کرائم اس شہر کی رونقوں کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے۔
عثمان پبلک سکول کے پرنسپل ذیشان علی کہتے ہیں کہ انھوں نے ڈکیتی کے بعد اسلحے کے ساتھ سیکیورٹی گارڈ رکھ لیا ہے اور اب کسی مرد کو سکول میں آنے کی اجازت نہیں دیتے۔
لیکن اس پالیسی کا نقصان بھی ہے۔
’داخلے متاثر ہوئے ہیں کیونکہ داخلے کے لیے اکثر مرد آتے تھے لیکن اب انھیں گیٹ سے ہی واپس بھیج دیا جاتا ہے۔‘
لیڈی ٹیچر انعم علی کہتی ہیں کہ ’ہم نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ ہمارے ساتھ ایسا ہو گا لیکن اس واقعے کی چھاپ ابھی تک موجود ہے، کہیں بھی جائیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ دوبارہ ہوسکتا ہے۔‘
گلبرگ میں لٹنے سے بچنے والے زاہد اصغر کہتے ہیں کہ ’پہلے عام زندگی تھی لیکن اب خوف کی صورتحال ہے، بچے ہلکے سے کھٹکے سے پریشان ہوجاتے ہیں اور بیوی شدید صدمے سے دوچار رہی ہے۔‘
اداکارہ عنایت خان کہتے ہیں کہ ’گھر میں سکون ہونا چاہئے، یہ شہر یہ ملک ہمارا گھر ہے اور گھر میں تو انسان کھل کر جیتے ہیں۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’میں اب بھی حتیاط نہیں کرتا کیونکہ چہل قدمی کے دوران آپ کو ضروری کالز بھی آتی ہیں جیسا کہ گھر سے کال آ سکتی ہے کوئی ایمرجنسی ہو سکتی ہے اور اگر ٹیکسی بھی منگوانی ہے تو فون کے ذریعے ہی منگوائیں گے ناں۔‘