سردیوں کے ذکر سے اپنے کالم کا آغاز کرنے لگا ہوں اور اگر آپ مجھ سے امید کرتے ہیں کہ موقع کی مناسبت سے ہی آپ کو شعیب بن عزیز کا مقبول عام شعر ؎
اب اداس پھرتے ہو سردیوں کی شاموں میں
اس طرح تو ہوتا ہےاس طرح کے کاموں میں
سنائوں تو یہ آپ کی بہت بڑی غلط فہمی ہے کیونکہ شعیب بن عزیز جب ڈی جی پی آر تھے تو ایک تھرڈ کلاس اخبار کا مالک روزانہ ان سے اپنے اخبار کے لئے اشتہار مانگنے آتا تھا اور چونکہ وہ اس کا حق دارنہ تھا چنانچہ ہربارناکام و نامرادلوٹتا تھا۔ ایک دن اس نے اپنے اخبار کے صفحہ اول پر شعیب کا یہ شعر؎
اب اداس پھرتے ہو سردیوں کی شاموں میں
اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں
بہت جلی حروف میں لگایا اور اس کے ساتھ سُستی و نامردی دور کرنے کا اشتہاردے دیا۔شعیب نے اسے فون کرکے بلایا ایک چھوٹا موٹا اشتہار اس کے متھے مارا اور کہا اگر آئندہ ایسی حرکت کی تو اخبار نکالنے کے لئے ترس جائو گے۔
چلیں جناب شعیب نے تو اس کو ایسی دھمکی دی کہ پھر اس نے اس شعر سے کبھی بے تکلفی کرنے کی کوشش نہیں کی مگر یہ جو سردی نے پاکستانیوں کی مت ماری ہوئی ہے اس کا کیا علاج ہے؟ میکلوڈ روڈ کے ایک سینما میں یار لوگ رات کا آخری شو دیکھنے جاتے تھے تو گرم کپڑوں سے خوب لپٹ لپٹا کر جاتے تھے، تاہم ان میں ایک ’’شوخا‘‘ ایسا بھی تھا جو ململ کے کرتے میں سینہ تان کر چلتا تھا ۔جب شو ختم ہو جاتا اور لوگ اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہوتے تو یہ ’’شوخا‘‘بازار سے گزر کر گلی میں داخل ہو جاتا تو دونوں ہاتھ بغلوں میں لیتے ہوئے سُو سُو کرتا اور تھر تھر کانپ رہا ہوتا تھا مگر اس حالت میں بھی اگر سامنے سے کوئی آتا دکھائی دیتا تو یہ دونوں ہاتھ بغلوں سے نکال کر دوبارہ سینہ تان کر چلنا شروع ہو جاتا ۔اس قسم کا ایک کردار مشہور پنجابی فلم پھنے خان میں علائوالدین نے کیا تھا یہ جعلی بدمعاش تھا ،اس نے شلوار کے نیفے میںخنجر اڑیساہوتا جہاں چند لوگ اسے نظر آتے یہ قمیض سے خود کو ہوا دیتے ہوئے کہتا بڑی ’’گڑمی گڑمی اے بھئی ،بڑی گڑمی اے‘‘ تاکہ قمیص سے خود کو ہوا دیتے ہوئے لوگوں کو اس کے نیفے میں اڑسا ہوا خنجر نظر آ جائے ۔
دراصل یہ ’’شوخے‘‘ ہر جگہ پائے جاتے ہیں میں نے تو انہیں دنیا کے سرد ترین ملکوں میں بھی دیکھا ہے ساری زمین برف سے ڈھکی ہوتی ہے یہ کلہاڑی سے اس کا سینہ چیرتے ہیں اور یہ برف پانی میں تبدیل ہو جاتی ہے اور پھر یہ شوخے صرف جانگیا پہنے اس برفانی پانی میں چھلانگ لگا دیتے ہیں اور سیٹیاں بجاتے ہوئے باہر آتے ہیں۔ انہوں نے یقیناً ہمارے ہاں کے کسی حکیم کا کشتہ کھایا ہوتا ہے اور ممکن ہے باقی شوخوں کا شمار بھی انہی میں ہوتا ہو۔جو کشتہ ذرا کچا رہ جانے کی وجہ سے ان حکماء کے’’ کشتگان‘‘ کا ہوتا ہے۔ سردیوں کی شاموں میں اداس ہونے کا علاج ڈھوندنے والوں کے ساتھ عموماً ایسے ہی ہوتا ہے۔
اندازہ لگائیں بات ان دنوں سردی کے ہاتھوں پاکستانیوں کی دُرگت سے شروع ہوئی تھی اور گھوم پھر کر سردیوں کی شاموں میں اداس پھرنے والوں تک آن پہنچی ۔بہرحال یار لوگ حسب توفیق خود کو گرمانے کے لئے مختلف شرعی و غیر شرعی اشغال سے کام لیتے ہیں جن میں سے ایک بادہ و جام بھی ہے۔ بادام، پستہ اور کاجوو غیرہ بھی ہیں، ابرار ندیم اپنی بیگم سے پنجیری بنوا کر دوستوں میں تقسیم کرتا ہے اور ثواب دارین حاصل کرتا ہے پھر ایک سخی دوست ایک پائو خالص گڑ لیکر آتا ہے اور گرم میوہ جات کی ایک فہرست مجھے تھما کر کہتا ہے یہ بیڈن روڈ سے لے کر آئو اسے میرا نام لینا بل بارہ پندرہ سو کا بنے گا وہ تم سے دو سو روپے کم لے گا ۔وہ کہتا ہے میں اتنی دیر میں دوستوں کو بلاتا ہوں اور گھر سے ہاون دستہ بھی لے آتا ہوں ،یہ گرم میوہ جات میں ایک خاص طریقے سے گڑ ڈال کر پیسوں گا اور پھر تم سب دوستوں میں خود تقسیم کروں گا کیونکہ اس کی کم یا زیادہ مقدار نقصان دہ ہوتی ہے ۔اس کے بعد اگر فل سردیوں میں بھی کسی کو ذرا برابر سردی محسوس ہو تو میں اس کا ذمہ دار ہوں گا ،میں نے پوچھا کیا تم میرے ساڑھے گیارہ ہزار واپس کر دوں گے بولا لاحول ولا میں دیتا ہوا اور تم لیتے ہوئے اچھے لگو گے؟ میں نے کہا تم میری فکر نہ کرو مجھے اپنے پیسے واپس لینا اچھا لگے گا۔بولا اگر پیسے واپس کرنے کی بجائے میں اپنے لئے اس سے سخت سزا تجویز کروں تو مان لو گے، میں نے کہا سوچوں گا اس پر اس مفت بر نے کہا ’’تم باقی سب دوستوں کے سامنے مجھے بے عزت کرنا ‘‘میں نے پوچھا وہ کیسے؟بولا ایسے سب کو متوجہ کرکے مجھے مخاطب کرنا اور کہنا ’’لعنت ہے تم پر‘‘ یہ سن کر سب دوست ہنسنے لگے اور ان میںسے ایک نے کہا ’’اپنے لئے یہ الفاظ تو تم دن میں دس بارہ دفعہ سنتے ہو،یہ سن کر اس نے کہا چلو تم یہ معاملہ اللہ پر چھوڑ دو وہ تمہیں تمہاری رقم سے دس گنا عطا کرے گا‘‘میں نے سوچا جنت میں بائیس ہزار روپے لے کر میں کیا کروں گا وہاں تو ہر چیز مفت ملے گی یہ سوچ کر میں نے اسے مخاطب کیا اور ’’دُر فٹے منہ‘‘ کہہ کر معاملہ ختم کر دیا۔