منگل کے دن سینٹ کے اجلاس کے دوران مشاہد حسین سید مسلم لیگ (نون) کی صفوں سے کھڑے ہوگئے۔ اپنی جماعت کے سربراہ شہباز شریف کی قیادت میں قائم حکومت کو ”لولی لنگڑی“پکارا۔ اس کے بعد نہایت عاجزی سے مشورہ یہ دیا کہ مذکورہ حکومت عوام سے اپنی پالیسیوں کی بدولت مزید ”برابھلا“ سننے کے بجائے نئے انتخابا ت کی راہ بنائے۔
مشاہد صاحب نے جو گفتگو کی اس نے ٹی وی سکرینوں پر رونق لگانے کے لئے چسکہ بھرامواد فراہم کردیا۔حامد میر نے اپنے شو میں مشاہد صاحب کی تجویز کو مسلم لیگ (نون)کے ڈاکٹر مصدق ملک کے روبرو رکھا۔مشاہد صاحب کی طرح لاہورہی میں پلے بڑھے مصدق صاحب کو ”ہر موقعہ کی غزل“ منہ زبانی یاد ہوتی ہے۔مدافعانہ رویہ اختیار کرنے کے بجائے وہ مصطفےٰ نواز کھوکھر کو یاد کرنا شروع ہوگئے جو اپنی جماعت کی عطا کردہ سینٹ کی سیٹ سے مستعفی ہوکر گزشتہ کئی مہینوں سے اپنے دل کی بات برملا کہہ رہے ہیں۔ اس جانب توجہ دینے کی ضرورت ہی محسوس نہ کی کہ مشاہد حسین جو سیاست میں صحافت کے میدان میں کئی برسوں تک دھوم مچانے کے بعد وارد ہوئے تھے شہباز حکومت کو ”لولی لنگڑی“ پکارنے کو کیوں مجبور ہوئے۔
حامد میر کے علاوہ ہماری ایک کہنہ مشق اینکر غریدہ فاروقی نے بھی مشاہد صاحب کو اپنے شو میں مدعو کیا۔ باتوں باتوں میں ان سے یہ ”خبر“ نکلوالی کہ صہیونی ریاست کو باقاعدہ تسلیم نہ کرنے کے باوجود پاکستان ماضی میں کئی بار اسرائیل کے ساتھ ”خفیہ“ بات چیت میں مصروف رہا تھا۔غریدہ مشاہد صاحب کی دی ”خبر“ سے چونک گئیں۔صحافیانہ تجسس کو بروئے کار لاتے ہوئے مشاہد صاحب سے یہ جاننے کو اٹک گئیں کہ اسرائیل کے ساتھ ”خفیہ روابط“ کس حکومت کے دوران ہوئے تھے۔مشاہد صاحب نے اس ضمن میں قطعی جواب دینے سے گریز کیا۔ان کا ذرخیز ذہن یاد نہیں رکھ پایا کہ ہماری تاریخ میں کم از کم ایک بار مشرف حکومت کے دوران اس دور کے وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری نے اسرائیل کے وزیر خارجہ کے ساتھ ترکی کی معاونت سے ہوئی ون- آن- ون ملاقات کرتے ہوئے کیمروں کے روبرو ہاتھ ملایا تھا۔غریدہ بھی وہ واقعہ بھول چکی تھیں۔مشاہد صاحب نے اگرچہ یہ حقیقت بھی سرسری انداز میں عیاں کردی کہ ”افغان جہاد“ کے دوران افغانستان میں درآئی کمیونسٹ روس کی افواج کو نادم کرنے کے لئے اسرائیل نے بھی چندکارگر ہتھیار فراہم کئے تھے۔ اسرائیل کو ”افغان جہاد“ میں حصہ ڈالنے کو امریکہ کے ایک شوباز رکن پارلیمان چارلی ولسن نے مائل کیا تھا۔وہ جنرل ضیاءکا قریبی دوست بھی تھا۔ ان دونوں کی دوستی ”افغان جہاد“ پر لکھی کتابوں میں ریکارڈ ہوچکی ہے۔ اس کے علاوہ اسرائیل کی ”افغان جہاد“ سے چارلی ولسن کی کاوشوں سے گہری ہوئی محبت پر ہالی ووڈ ایک فلم بھی بناچکا ہے۔
اسرائیل سے پاکستان کے خفیہ روابط کے ذکر کے لئے بدھ کا دن اگرچہ مناسب نہیں تھا۔ مشاہد صاحب کی اصل منشا اس دن یہ تھی کہ فوری انتخابات اور ان کی شفافیت کو یقینی بنانے کے لئے ”لولی لنگڑی“ حکومت کو اپنے سیاسی مخالفین سے مذاکرات کرنا ہوںگے۔نام لئے بغیر وہ درحقیقت یہ کہنا چاہ رہے تھے کہ اگر وقت ضرورت اسرائیل سے گفتگو ہوسکتی ہے تو پاکستان پر نازل ہوئے سیاسی بحران کا حل ڈھونڈنے کے لئے عمران خان صاحب سے رجوع کرنے سے گریز بھی مناسب نہیں ہے۔
ریگولر میڈیا کے برعکس سوشل میڈیا پر چھائے ”ذہن سازوں“ نے چسکہ فروشی کے لئے دیگر حربے استعمال کئے۔ عاشقان عمران شاداں تھے کہ بالآخر ”مشاہد حسین بھی بول اُٹھے“۔تحریک انصاف کے ثابت قدم ناقدین کو دریں اثنا یاد آنا شروع ہوگیا کہ مشاہد صاحب مسلم لیگ (نون) کو مصیبت کی گھڑی میں چھوڑ کر جنرل مشرف کی بنائی مسلم لیگ (ق) میں شامل ہوگئے تھے۔اس کا زوال شروع ہوا تو مسلم لیگ (نون) میں واپسی کی راہ بنالی۔اس کی ٹکٹ پر سینیٹر بھی منتخب ہوگئے۔اب غالباََ وہ تحریک انصاف میں شمولیت کے بہانے ڈھونڈ رہے ہیں۔
سوشل میڈیا پر ”دفاعی ماہرین“ تصور ہوتے ہوئے چند افراد بھی وقتاََ فوقتاََ ہمیں اپنے گرانقدر خیالات سے نوازتے رہتے ہیں۔ان میں سے چند نے مشاہد صاحب کے ریمارکس کو ”ذراہٹ کر“دیکھنے کی کوشش کی۔مشاہد صاحب کو ”مقتدر“ کہلاتی قوتوں کا ”ترجمان“ ٹھہراتے ہوئے تاثر یہ پھیلانے کی کوشش کی کہ ان دنوں خود کو ”نیوٹرل“ بنائے طاقت ور افراد شہباز حکومت کو نئے انتخابات کے انعقاد کے لئے ”پیغامبروں“ کے ذریعے مائل کرنا شروع ہوگئے ہیں۔
مشاہد حسین سید میرے بہت ہی مہربان ایڈیٹر رہے ہیں۔ میرے صحافتی کیرئیر کے ابتدائی دنوں میں ان دنوں بہت بااثر تصور ہوئے انگریزی اخبار ”دی مسلم“ میں رپورٹنگ کا شعبہ ہمارے پیشے کے کئی نامورافراد کے اجارہ میں تھا۔ان کی اجتماعی رائے کو نظرانداز کرتے ہوئے مشاہد حسین سید نے قومی اسمبلی کی کارروائی کی بابت میرے لکھے کالم ”ویوفرام دی گیلری“کو صف اول پر نما یاں انداز میں چھاپنا شروع کردیا۔اس کے علاوہ ایک اور کالم بھی تھا۔ ”ڈپلومیٹک فوکس“ اس کا نام تھا۔ اس کے ذریعے میں ”سفارتی تقریبات“‘کے بارے میں لکھتے ہوئے پری سنسر شپ کے دور میں ”سیاسی“ باتیں بھی لکھ دیا کرتا تھا۔ صحافت کے شعبے میں جو ”شہرت“ مجھے نصیب ہوئی مشاہد صاحب اس کا کلیدی کارن رہے ہیں۔ اس کی بدولت ان کا تاحیات احسان مند ہوتے ہوئے بھی میں نے ان کی صحافت سے سیاست کی جانب منتقل ہونے کی بابت کبھی اچھامحسوس نہیں کیا۔ یہ حقیقت مگر نظرانداز نہیں کرسکتا تھا کہ ”سیاسی“ ہوجانے کے بعد مشاہد حسین سید جیسے افراد کو وہی رویہ اختیار کرنا ہوتاہے جو اس شعبے سے مختص تصور ہوتا ہے۔مشاہد صاحب سے عرصہ ہوا میری ٹیلی فون پر بھی گفتگو نہیں ہوئی۔ ان سے ملاقات کئے بغیر میں ہرگز طے نہیں کرسکتا کہ وہ تحریک انصاف میں شمولیت کے لئے پرتول رہے ہیں یا نہیں۔ اس امر کا اثبات یا تردید بھی نہیں کرسکتا کہ بدھ کے روز سینٹ میں ہوئی ان کی تقریر ”نیوٹرل“ ہوئی قوتوں کی جانب سے آیا”پیغام“ تھا یا نہیں۔
وہ جنہیں ”مقتدر قوتیں“ کہا جاتا ہے ان کے اعلیٰ سطحی ”پالیسی ساز‘ ‘ تو دور کی بات ہیں وہاں کام کرتے کسی معمولی اہلکار سے بھی میری 2010ءسے کبھی ملاقات نہیں ہوئی۔”پانچویں پشت کی ابلاغی جنگ“ شروع ہوجانے کے بعد مجھے ”دشمنوں“ کی صف میں ڈال دیا گیا تھا۔اسی باعث 2018ءمیں عمران حکومت کے برسراقتدار آنے کے چند ہی ہفتے بعد ایک ٹی وی ادارے سے ذلت آمیز انداز میں فارغ کردیا گیا تھا۔ گوشہ نشین ہوئے دل میں اس کے بعد کبھی خواہش ہی بیدار نہیں ہوئی کہ ”مقتدر“ کہلاتی قوتوں سے رابطے کی راہ ڈھونڈ کر عاجزی سے استفسار کروں کہ ”پکڑے جاتے ہیںفرشتوں کے لکھے پہ کیوں ناحق“۔
”مقتدر قوتوں“ سے راندئہ درگار ہوجانے کے باوجود گزشتہ برس کے اپریل سے مسلسل دہائی مچاتا رہا ہوں کہ عمران حکومت کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ہٹانے کے عمل سے بازرہا جائے۔ دو دن قبل ہی جو کالم لکھا تھا اس کا عنوان شہباز حکومت کے ”بندھے ہاتھ“ تھا۔ اسے مشاہد صاحب کے استعمال کردہ ”لولی لنگڑی“ کا مترادف ہی تصور کرنا ہوگا۔میری اور مشاہد حسین صاحب کی ذاتی خوبیوں اور خامیوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے خدارا اس جانب بھی توجہ دیں کہ ایک دوسرے سے عرصہ ہوا کوئی ملاقات کئے بغیر ہم دونوں ”لولی لنگڑی“ اور ”بندھے ہاتھوں“ کا ذکر کیوں کررہے ہیں۔