فیچرز

گوتم اڈانی: انڈیا کے امیر ترین شخص کا اغوا اور رہائی جو آج بھی ایک معمہ ہے

Share

انڈیا کے مشہور صنعتکار اور ایشیا کے امیر ترین شخص گوتم اڈانی گذشتہ کچھ دنوں سے مسلسل خبروں میں ہیں اور اس کی وجہ حال ہی میں امریکی فرم ہنڈن برگ کی اڈانی کی کاروباری سلطنت سے متعلق سامنے آنے والی ایک رپورٹ ہے جس میں ان پر ’کارپوریٹ دنیا کا سب سے بڑا فراڈ‘ کرنے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔

اس رپورٹ کے آنے سے پہلے گوتم اڈانی ایشیا کے امیر ترین جبکہ دنیا کے پہلے پانچ امیر افراد میں شامل تھے تاہم اس رپورٹ سے ان کے کاروبار کو پہنچنے والے اربوں ڈالرز کے نقصان کے بعد اب وہ دنیا کے امیر ترین افراد کی فہرست میں 15ویں نمبر پر آ گئے ہیں۔

امیر ترین افراد کی فہرست میں ریلائنس انڈسٹریز کے مکیش امبانی (جن کا تعلق انڈیا ہی سے ہے) ایک بار پھر گوتم اڈانی سے آگے نکل گئے ہیں۔

یقیناً یہ اڈانی کے لیے ایک بہت بڑا دھچکا ہے۔ حال ہی میں ایک انڈین نجی چینل سے بات چیت میں گوتم اڈانی نے دو ایسے مواقعوں سے متعلق بات کی جب انھیں بہت بُرا تجربہ ہوا۔

اس گفتگو میں گوتم اڈانی نے کہا کہ ہر کسی کی زندگی میں ایسے لمحات آتے ہیں کہ انھیں بھول جانا ہی بہتر ہے۔

اڈانی جن دو واقعات کا ذکر کر رہے تھے ان میں سے ایک 26 نومبر 2008 کا ممبئی حملہ تھا جب انھوں نے موت کو قریب سے دیکھا تھا۔

کیونکہ اس حملے کے وقت اڈانی تاج ہوٹل میں ہی موجود تھے، جہاں فائرنگ میں کئی لوگوں کی جانیں گئی تھیں۔

جبکہ دوسرا موقع ایک ایسا تھا جس کے بارے میں بہت کم لوگ جانتے ہیں۔

یہ واقعہ 1998 کا ہے جب انھیں بندوق کی نوک پر اغوا کیا گیا تھا۔ اغوا کے بعد ان کی رہائی کے لیے 15 کروڑ روپے تاوان کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

انھیں کیسے اغوا کیا گیا؟

گوتم اڈانی

یکم جنوری 1998 کی شام کو گوتم اڈانی احمد آباد کے کرناوتی کلب سے نکل کر اپنے ایک قریبی دوست شانتی لال پٹیل کے ساتھ کار میں محمد پورہ روڈ کی طرف جانے والے تھے۔

گجرات کے سینیئر صحافی راج گوسوامی کے مطابق ’گوتم اڈانی کو کرناوتی کلب سے باہر آتے ہوئے اغوا کیا گیا تھا۔ تب کرناوتی کلب احمد آباد کا سب سے بڑا کلب تھا۔‘

ان کی اغوا کی واردات کے دوران ایک سکوٹر ان کی گاڑی کے سامنے آ کر رکا جس کی وجہ سے اڈانی کو اپنی گاڑی روکنی پڑی۔ اس کے بعد قریب ہی سے ایک ماروتی وین سے تقریباً چھ لوگ نکلے اور گوتم اڈانی اور شانتی لال پٹیل کو بندوق کی نوک پر اغوا کر کے وین میں بٹھا دیا گیا۔

اغوا کے بعد گوتم اڈانی اور شانتی لال کو نامعلوم مقام پر رکھا گیا۔ اغوا کا یہ واقعہ جمعرات کو پیش آیا تھا اور اڈانی سنیچر کی شب تک بحفاظت اپنے گھر پہنچ گئے تھے۔

اس معاملے کی ایف آئی آر احمد آباد کے سرکھیج پولیس سٹیشن میں درج کروائی گئی تھی۔

اڈانی کے اغوا کاروں کے چنگل سے بھاگنے کی کہانیاں

گوتم اڈانی

اتر پردیش کے آئی پی ایس افسر اور یو پی ایس ٹی ایف کے بانیوں میں سے ایک راجیش پانڈے نے بی بی سی کو بتایا کہ ’اغوا کا یہ طریقہ اس وقت کے معروف ببلو سریواستو گینگ کا تھا۔ اس اغوا کی منصوبہ بندی بھی ببلو سریواستو نے کی تھی۔‘

صحافی راج گوسوامی کا کہنا ہے کہ ’گوتم اڈانی کو پولیس نے بچایا تھا یا وہ خود ہی اغوا کاروں سے چنگل سے فرار ہوئے تھے یا ان کی رہائی کے لیے تاوان کی رقم ادا کی گئی تھی، اس پر طرح طرح کی کہانیاں مشہور ہیں لیکن کچھ بھی یقینی طور پر معلوم نہیں ہے۔‘

دوسری جانب راجیش پانڈے کا دعویٰ ہے کہ ’اس معاملے میں گوتم اڈانی کو بچانے کے لیے اغوا کاروں کو پانچ کروڑ روپے کا تاوان ادا گیا تھا۔‘ یہ رقم دبئی میں عرفان گوگا نامی شخص کو دی گئی۔ عرفان گوگا اغوا کے لیے تاوان وصول کرنے کے لیے ببلو سریواستو کے گروہ کا حصہ تھا۔

راجیش پانڈے کے مطابق یہ بات انھیں ببلو سریواستو نے بتائی تھی، جو اغوا اور قتل کے کئی مقدمات میں بریلی جیل میں بند تھے۔ راجیش پانڈے کہتے ہیں کہ ان دنوں غیر قانونی رقم کی منتقلی کا ایک بڑا ذریعہ حوالہ تھا۔

راجیش پانڈے کے مطابق گوتم اڈانی کو احمد آباد میں ہی ایک فلیٹ میں رکھا گیا تھا۔ اڈانی اس اغوا سے اس قدر خوفزدہ تھے کہ وہ اس معاملے میں کبھی گواہی دینے عدالت میں پیش نہیں ہوئے۔ اس لیے اس اغوا کے تمام ملزمان کو عدم ثبوتوں کی بنیاد پر بری کر دیا گیا تھا۔

تمام ملزمان بری

گوتم اڈانی

انڈیا کے انگریزی اخبار ’انڈین ایکسپریس‘ کی ایک خبر کے مطابق اغوا کاروں نے گوتم اڈانی کی رہائی کے بدلے 15 کروڑ روپے تاوان کا مطالبہ کیا تھا۔ اس معاملے میں نو افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی تھی۔ لیکن 2018 کے آخر تک تمام افراد الزامات سے بری ہو گئے۔

گوتم اڈانی کے اغوا کیس میں سال 2009 میں چارج شیٹ جمع کروائی گئی تھی۔ اس میں سابق گینگسٹر فضل الرحمان عرف فضلو اور بھوگی لال دارجی عرف ماما کو مرکزی ملزم نامزد کیا گیا تھا۔

فضل الرحمان کا تعلق اصل میں بہار سے تھا۔ اسے 2006 میں نیپال کی سرحد سے گرفتار کیا گیا تھا، جبکہ بھوگی لال دارجی کو اغوا کے 14 سال بعد یعنی 2012 میں دبئی سے گرفتار کر کے انڈیا لایا گیا تھا۔

لیکن عدالتی سماعت کے دوران اڈانی نے اغوا کاروں کی شناخت کے لیے کوئی پہل نہیں کی۔ یہاں تک کہ وہ کبھی عدالت میں گواہی دینے نہیں آئے تھے۔

عدم ثبوتوں کے باعث بالآخر دونوں مرکزی ملزمان کو عدالت نے سال 2018 میں بری کر دیا تھا۔ اس سے پہلے کیس میں ملزم بنائے گئے باقی افراد کو بھی اسی بنیاد پر بری کر دیا گیا تھا۔

اغوا کا یوپی کنکشن

راجیش پانڈے

گوتم اڈانی کے اغوا کے بعد 1998 میں ہی چھ ستمبر کو گجرات کے ایک کروڑ پتی نمک کے تاجر بابو بھائی سنگھوی کو اغوا کرنے کی کوشش کی گئی۔

راجیش پانڈے کے مطابق ’بابو بھائی سنگھوی اپنی کار میں تھے۔ انھیں سکوٹر اور ماروتی وین کی نقل و حرکت پر شبہ ہوا اور انھوں نے اپنی کار بھیڑ والے علاقے کی طرف موڑ دی۔ یہ معاملہ گجرات کے بھج ضلع میں ہوا تھا۔

بابو بھائی سنگھوی انڈیا کے اس وقت کے وزیر داخلہ لال کرشن اڈوانی کے قریبی تھے۔ اس لیے پولیس اس معاملے کو لے کر کافی سنجیدہ اور متحرک ہو گئی۔

بھوج کے اس وقت کے ایس پی کیشو پرساد نے تحقیقات میں پایا کہ جن لوگوں نے بابو بھائی سنگھوی کو اغوا کرنے کی کوشش کی تھی وہ اتر پردیش، بہار، دہلی، ممبئی، نیپال اور دبئی کے کچھ نمبروں پر مسلسل بات کر رہے تھے۔

ان میں سے زیادہ تر بات لکھنؤ کے ایک نمبر پر ہو رہی تھی۔ اس کے بعد کیشو پرساد نے یوپی پولیس کے آئی پی ایس افسر اور یوپی سپیشل ٹاسک فورس کے اس وقت کے سربراہ ارون کمار سے رابطہ کیا۔

ببلو سریواستو گینگ کا کردار

ببلو گینگ

کیشو پرساد کو شبہ تھا کہ اغوا کی اس کوشش میں اتر پردیش کے بدنام زمانہ مجرم سری پرکاش شکلا کا گینگ ملوث ہو سکتا ہے۔

لیکن یو پی ایس ٹی ایف کو تحقیقات میں پتا چلا کہ یہ سری پرکاش شکلا گینگ کا کام نہیں ہے بلکہ خود یوپی کے ببلو سریواستو گینگ سے وابستہ لوگوں کا کام ہے۔ ببلو سریواستو ایک بار انڈر ورلڈ ڈان داؤد ابراہیم کے لیے کام کرتے تھے۔

داؤد ابراہیم کا گینگ 1993 میں ممبئی میں ہونے والے سلسلہ وار بم دھماکوں میں نام آنے کے بعد پھوٹ پڑنے پر ختم ہوا تھا، جس میں شامل ببلو سریواستو اور چھوٹا راجن سمیت بہت سے لوگوں نے الگ الگ گینگ بنائے۔

سنہ 1995 میں سی بی آئی ببلو سریواستو کو سنگاپور سے گرفتار کر کے انڈیا لائی تھی۔ ایس ٹی ایف سے وابستہ راجیش پانڈے کے مطابق ببلو سریواستو کو اس وقت الہٰ آباد کے قریب نینی جیل میں رکھا گیا تھا۔

خود یو پی ایس ٹی ایف کی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ گوتم اڈانی کا اغوا بھی ببلو سریواستو گینگ نے ہی کیا تھا۔ ببلو سریواستو جیل میں رہتے ہوئے بھی اپنا گینگ چلاتے تھے۔

راجیش پانڈے کے مطابق ببلو سریواستو کو اغوا کا ماسٹر مائنڈ سمجھا جاتا تھا۔ اس نے ملک بھر کے 15 کروڑ پتی تاجروں کو اغوا کیا تھا جس کے عوض اس نے بھاری رقم بطور تاوان لی تھی۔

راجیش پانڈے کے مطابق ’ببلو سریواستو نے انھیں بتایا کہ گوتم اڈانی کو جمعرات کو اغوا کیا گیا تھا۔ اغوا کے بعد تاوان کے لیے بات چیت کا سلسلہ جاری رہا۔ پھر سنیچر کو اڈانی نے اغوا کاروں سے کہا کہ بینک کل تک بند رہے گا اور بینک کے بغیر وہ 15 کروڑ نہیں دے سکتے۔ اڈانی نے کہا تھا کہ پولیس مجھے ڈھونڈتے ہوئے آج شام تک یہاں ضرور پہنچ جائے گی اور پولیس واقعی وہاں پہنچ چکی تھی۔‘

تاہم ان حقائق پر گوتم اڈانی کی طرف سے کوئی موقف بی بی سی کے پاس موجود نہیں ہے۔

راجیش پانڈے بتاتے ہیں کہ انھوں نے گوتم اڈانی سے لے کر دیگر افراد کے اغوا اور قتل کے کئی کیسز کا ذکر ’قصہ گوئی‘ میں کیا ہے، لیکن آج تک کسی نے ان کے حقائق پر سوال نہیں اٹھایا۔

راجیش پانڈے کا دعویٰ ہے کہ یہ سُنی سُنائی بات نہیں ہے، ان کی ببلو سریواستو سے براہ راست بات ہوئی تھی جس نے گوتم اڈانی کو اغوا کیا تھا۔

سال 1998 تک گوتم اڈانی گجرات کے بڑے بزنس مین بن چکے تھے۔ سال 1988 سے 1992 کے دوران گوتم اڈانی کا درآمدی کاروبار اپنے بڑے بھائی کے پلاسٹک کے کاروبار میں شامل ہو کر 100 ٹن سے 40 ہزار ٹن تک بڑھ گیا۔

جلد ہی اڈانی نے برآمدات کے کاروبار میں بھی قسمت آزمانا شروع کر دی اور بہت جلد وہ ایک بڑے ایکسپورٹر بن گئے، جو تقریباً ہر چیز کو برآمد کرتے تھے۔ بعدازاں موندرا پورٹ میں شامل ہونے کے بعد، اڈانی کے کاروبار میں بڑی تیزی آئی۔

راجیش پانڈے کا ماننا ہے کہ اس وقت تک اڈانی قومی سطح پر بہت مشہور صنعت کار نہیں تھے، اس لیے لوگ ان کے اغوا کی کہانی کے بارے میں زیادہ نہیں جانتے۔