سائنس

ٹیلی کام کمپنیاں لائسنس کی تجدید ڈالرز میں کرنے پر حکومت سے نالاں

Share

ٹیلی کام سیکٹر کی اہم شخصیات نے حکومت کو امریکی ڈالر میں ٹیلی کام لائسنس کی تجدید کرنے پر تنقید کا نشانہ بناتے اور اسے انفارمیشن اینڈ کمیونیکیشن ٹیکنالوجی کی صنعت کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دیتے ہوئے مطالبہ کیا کہ اگر حکومت ڈیجیٹل پاکستان کا ادراک کرنا چاہتی ہے تو اس پالیسی پر نظر ثانی کرے۔

رپورٹ کے مطابق اپنے خدشات کو متعلقہ سرکاری حلقوں تک پہنچانے کے علاوہ ملک میں کام کرنے والی 4 میں سے 3 موبائل ٹیلی کام کمپنیوں نے سرکاری پالیسی کے خلاف کھل کر ٹوئٹس بھی کیے۔

جاز، ٹیلی نار پاکستان اور یوفون کے سربراہوں نے آئی ٹی اور ٹیلی کام کے شعبے کو متاثر کرنے والے معاشی بحران کے خلاف حکومت کی مبینہ بے عملی پر اپنے تحفظات کا اظہار ٹوئٹر پر کیا۔

جاز کے سی ای او عامر ابراہیم نے ٹوئٹ کیا کہ روپے کی قدر میں کمی نے ٹیلی کام کمپنیوں کے لیے کاروباری صورتحال کو خطرے میں ڈال دیا ہے کیونکہ ٹیلی کام لائسنس کی فیس اور قسطوں پر سود امریکی ڈالر میں لگایا گیا تھا۔

انہوں نے ٹوئٹ میں کہا کہ گزشتہ سال لائسنس کی تجدید کی 50 فیصد فیس پر 44 ارب 50 کروڑ روپے لاگت آئی اور اس سال صرف 10 فیصد قسط کی لاگت 13 ارب روپے سے زائد ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ کرنسی کی قدر میں جاری کمی کی وجہ سے ہم اس رقم کا تعین نہیں کر پا رہے جو ہمیں آئندہ برس قسط میں ادا کرنی ہے اور اس سے غیر یقینی صورتحال میں اضافہ ہوتا ہے جسے کوئی کاروباری منصوبہ برداشت نہیں کر سکتا۔

ان کا کہنا تھا کہ افسوس کی بات ہے کہ ٹیلی کام لائسنس کی قیمت کو ڈالر میں مقرر کرنے کی غلط پالیسی ہمیں ڈیجیٹل ایمرجنسی سے ڈیجیٹل تباہی کی جانب دھکیل رہی ہے۔

بعد ازاں یوفون کے مالک پی ٹی سی ایل گروپ کے چیف ایگزیکٹیو افسر حاتم باطف نے ٹوئٹ کیا کہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں مسلسل کمی کے باعث پاکستان میں کاروبار کرنے کی لاگت میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ٹیلی کام کمپنیوں سے روپے میں کماتے ہوئے انفراسٹرکچر کو جدید بنانے میں بھاری سرمایہ کاری کرنے کی توقع ڈیجیٹل پاکستان کے خواب کے لیے نقصان دہ ثابت ہو رہی ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ہمیں ابھی عمل کرنا چاہیے اور ملک کی ڈیجیٹل ترقی کو سست ہونے سے بچانے کے لیے ریگولیٹری ریلیف کے لیے حکمت عملی وضع کرنا چاہیے۔

ادھر ٹیلی نار پاکستان کے سی ای او بھی حکومتی پالیسیوں کے خلاف کھل کر سامنے آئے۔

اپنے ٹوئٹ میں عرفان وہاب نے کہا کہ ’جب کہ ٹیلی کام انڈسٹری کی آمدنی روپے میں ہوتی ہے، اسپیکٹرم کی نیلامی، تجدید اور قسطوں کی قیمت ڈالر میں ہوتی ہے، جس سے ٹیلی کام کمپنیوں کو کرنسی کی قدر میں بڑے پیمانے پر کمی کا خطرہ لاحق ہوتا ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’اس گڑ بڑ کو دور کرنے کی ضرورت ہے اس سے پہلے کہ ٹیلی کام کمپنیوں کی ڈیجیٹل ٹرانسفارمیشن کو مزید طاقت دینے کی صلاحیت ناقابل واپسی طور پر ختم ہوجائے۔