ٹیلی کام سیکٹر کی اہم شخصیات نے حکومت کو امریکی ڈالر میں ٹیلی کام لائسنس کی تجدید کرنے پر تنقید کا نشانہ بناتے اور اسے انفارمیشن اینڈ کمیونیکیشن ٹیکنالوجی کی صنعت کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دیتے ہوئے مطالبہ کیا کہ اگر حکومت ڈیجیٹل پاکستان کا ادراک کرنا چاہتی ہے تو اس پالیسی پر نظر ثانی کرے۔
رپورٹ کے مطابق اپنے خدشات کو متعلقہ سرکاری حلقوں تک پہنچانے کے علاوہ ملک میں کام کرنے والی 4 میں سے 3 موبائل ٹیلی کام کمپنیوں نے سرکاری پالیسی کے خلاف کھل کر ٹوئٹس بھی کیے۔
جاز، ٹیلی نار پاکستان اور یوفون کے سربراہوں نے آئی ٹی اور ٹیلی کام کے شعبے کو متاثر کرنے والے معاشی بحران کے خلاف حکومت کی مبینہ بے عملی پر اپنے تحفظات کا اظہار ٹوئٹر پر کیا۔
جاز کے سی ای او عامر ابراہیم نے ٹوئٹ کیا کہ روپے کی قدر میں کمی نے ٹیلی کام کمپنیوں کے لیے کاروباری صورتحال کو خطرے میں ڈال دیا ہے کیونکہ ٹیلی کام لائسنس کی فیس اور قسطوں پر سود امریکی ڈالر میں لگایا گیا تھا۔
PKR devaluation has jeopardized the business case for telecom companies, as our license fees & interest on instalments are pegged to the US dollar. Last year 50% license renewal fee cost us PKR 44.5 billion, and this year, just 10% instalment alone costs over PKR 13 billion
— Aamir Hafeez Ibrahim (@aamir_ibrahim01) February 2, 2023
انہوں نے ٹوئٹ میں کہا کہ گزشتہ سال لائسنس کی تجدید کی 50 فیصد فیس پر 44 ارب 50 کروڑ روپے لاگت آئی اور اس سال صرف 10 فیصد قسط کی لاگت 13 ارب روپے سے زائد ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ کرنسی کی قدر میں جاری کمی کی وجہ سے ہم اس رقم کا تعین نہیں کر پا رہے جو ہمیں آئندہ برس قسط میں ادا کرنی ہے اور اس سے غیر یقینی صورتحال میں اضافہ ہوتا ہے جسے کوئی کاروباری منصوبہ برداشت نہیں کر سکتا۔
ان کا کہنا تھا کہ افسوس کی بات ہے کہ ٹیلی کام لائسنس کی قیمت کو ڈالر میں مقرر کرنے کی غلط پالیسی ہمیں ڈیجیٹل ایمرجنسی سے ڈیجیٹل تباہی کی جانب دھکیل رہی ہے۔
بعد ازاں یوفون کے مالک پی ٹی سی ایل گروپ کے چیف ایگزیکٹیو افسر حاتم باطف نے ٹوئٹ کیا کہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں مسلسل کمی کے باعث پاکستان میں کاروبار کرنے کی لاگت میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔
While telecom industry generates its revenue in PKR, spectrum auctions, renewal & instalments are priced in US$ exposing telcos to massive currency devaluation risk. Need to fix this mismatch before telcos capacity to further power digital transformation gets irrevocably depleted
— Irfan Wahab Khan (@irfanwahabkhan) February 2, 2023
انہوں نے کہا کہ ٹیلی کام کمپنیوں سے روپے میں کماتے ہوئے انفراسٹرکچر کو جدید بنانے میں بھاری سرمایہ کاری کرنے کی توقع ڈیجیٹل پاکستان کے خواب کے لیے نقصان دہ ثابت ہو رہی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ہمیں ابھی عمل کرنا چاہیے اور ملک کی ڈیجیٹل ترقی کو سست ہونے سے بچانے کے لیے ریگولیٹری ریلیف کے لیے حکمت عملی وضع کرنا چاہیے۔
ادھر ٹیلی نار پاکستان کے سی ای او بھی حکومتی پالیسیوں کے خلاف کھل کر سامنے آئے۔
اپنے ٹوئٹ میں عرفان وہاب نے کہا کہ ’جب کہ ٹیلی کام انڈسٹری کی آمدنی روپے میں ہوتی ہے، اسپیکٹرم کی نیلامی، تجدید اور قسطوں کی قیمت ڈالر میں ہوتی ہے، جس سے ٹیلی کام کمپنیوں کو کرنسی کی قدر میں بڑے پیمانے پر کمی کا خطرہ لاحق ہوتا ہے۔‘
While telecom industry generates its revenue in PKR, spectrum auctions, renewal & instalments are priced in US$ exposing telcos to massive currency devaluation risk. Need to fix this mismatch before telcos capacity to further power digital transformation gets irrevocably depleted
— Irfan Wahab Khan (@irfanwahabkhan) February 2, 2023
انہوں نے مزید کہا کہ ’اس گڑ بڑ کو دور کرنے کی ضرورت ہے اس سے پہلے کہ ٹیلی کام کمپنیوں کی ڈیجیٹل ٹرانسفارمیشن کو مزید طاقت دینے کی صلاحیت ناقابل واپسی طور پر ختم ہوجائے۔