منتخب تحریریں

بھیڑ اس قدر تھی چوک میں تانگہ الٹ گیا!

Share

کل ایک لاجواب شعر سنا ہے، آپ بھی سنیے

اگر تانگے پہ آنا تھا تو پیچھے بیٹھ جانا تھا

تیرے پہلو میں بیٹھا کوچوان اچھا نہیں لگتا

اس شعر سے اندازہ ہوتا ہے کہ شاعر کس درجہ پوزیسوہے اور تانگے ہی سے یاد آیا کہ حمید اختر مرحوم تانگے میں کہیں جا رہے تھے کہ ایک دوسرے تانگے والے نے ریس لگانا شروع کر دی جب یہ ریس خطرناک حدوں کو چھونے لگی تو حمید اختر نے تانگے والے سے کہا بھائی وہ تو پاگل ہے تم تو معقول آدمی لگے ہو ضد نہ کرو اسے آگے جانے دو، اس پر کوچوان نے رفتار کم کر دی جس کے نتیجے میں دوسرا تانگے والا اپنا چھانٹا ہوا میں لہراتا ہوا فتح کے نشے میں سر بلند آگے نکل گیا۔اس پر حمید اختر کے کوچوان نے حمید اختر کی طرف اشارہ کرکے میدان مارنے والے کوچوان سے باآواز بلند کہا اگر میرے ساتھ یہ چول سواری نہ بیٹھی ہوتی تو میں دیکھتا تو کیسے آگے نکلتا ہے، واضح رہے اس نے چول نہیں کہا تھا ایسا بیہودہ لفظ بولا تھا جو یہاں درج نہیں کیا جا سکتا۔

تانگے سے یاد آیا کہ میں اور حسن رضوی مرحوم لکھنؤ گئے تو اسٹیشن تک جانے کے لئے ایک کوچوان کو اشارہ کیا ،تانگے میں بیٹھتےہوئے میں نے حسن سے کہا یار میں تو لکھنؤ آکر بہت مایوس ہوا ہوں لکھنو ی تہذیب کی کتنی کہانیاں سنی ہوئی تھیں، ان کے ادب و آداب کے کتنے قصے سنے ہوئے تھے مگر یہاں تو کوئی انگرکھا پہنے نظر نہیں آیا ،آپ جناب کوئی نہیں کہتا سب ہماری طرح تو تڑاک ہی سے کام لیتے ہیں ۔دریں اثنا ہم نے محسوس کیا کہ گھوڑے کی رفتار بہت کم ہے، ہمیں اندیشہ پیدا ہوا کہ کہیں ہماری ٹرین نہ چھوٹ جائے چنانچہ میں نے کوچوان سے کہا بھائی صاحب آپ تانگہ بہت آہستہ چلا رہے ہیں ذرا تیز چلائیں، اس پر کوچوان نے گھوڑے کی طرف اشارہ کیا اور کہا دراصل ’’انہوں‘‘ نے صبح سے کچھ نہیں کھایا ۔جب اس نے گھوڑے کے لئے ’’انہوں‘‘ کا لفظ استعمال کیا تو یقین آ گیا کہ ابھی لکھنؤ میں تھوڑا بہت لکھنؤزندہ ہے !

بات کوچوان اور اس کے حوالے سے ایک شعر سے شروع ہوئی تھی جس نے مجھےپھڑکاکر رکھ دیا تھا ،اب اس حوالے سے ایک اور شعر یاد آ رہا ہے وہ بھی سن لیجئے۔

وہ کہتے ہیں آئو میری انجمن میں

مگر میں نہیں اب وہاں جانے والا

کہ اکثر بلایا، بلا کر بٹھایا

بٹھا کر اٹھایا اٹھا کر نکالا

ظفر اقبال جو دور حاضر کے سب سے بڑے شاعر ہیں ایک دور میں اپنے طرز کی ’’پوئیٹری‘‘ بھی کیا کرتے تھے ،مثلاً

ہم بھی گئے تھے گرمئ بازار دیکھنے

بھیڑ اس قدر تھی چوک میں تانگہ الٹ گیا

عشق جھوٹا ہے لوگ سچے ہیں

ایک بیوی ہے چار بچے ہیں

اور ایک لاجواب شعر

جھوٹ بولاہے تو قائم بھی رہو اس پہ ظفرؔ

آدمی کو صاحب کردار ہونا چاہئے

اور اب آخر میں جبارواصف کی ایک طنزیہ نظم ،ان شاعروں کے حو الے سے جو شاعر نہیں ہیں اورکسی شاعر کی خدمات حاصل کرکےشاعر بن جاتے ہیں۔نظم کا عنوان ہے ….’’ناسور‘‘

ناسُور

صاحبِ ثروت اگر شاعر نہیں تو غم نہیں

شاعروں میں اُس کو لکھ کر دینے والے کم نہیں

نوٹ کر کے خرچ کچھ دیوان اِک لکھوا ئیے

اور نامی پبلشر سے اِس کو پھر چھپوائیے

شعر پڑھئے یوں کہ ہر اِک شعر پر اترائیے

نیلی پیلی ڈائری ہر بزم میں لہرائیے

آپ کو زَر کے عوَض مدح سرا مِل جائیں گے

آپ کا وہ جشن ہو گا اہل ِ فَن ہِل جائیں گے

اِک بڑے صاحب صدارت کیلئے ہیں دستیاب

کیونکہ ”پی ٹی وی“ میں اب جاری نہیں ہے اُنکی جاب

اچھے دیباچہ فروشوں کی نہیں کوئی کمی

آپ کو دے گی نَمُو اُن سب کے لفظوں کی نمی

مہنگے ہوٹل میں قلَمکاروں کو دعوت دیجئے

ناقدوں سے خاص درجے کی محبت کیجئے

رونمائی کیجئے ایسی کہ دنیا دنگ ہو

لازمی یہ ہے بکائو میڈیا بھی سنگ ہو

آپ کی غزلوں میں عمدہ شاعروں کا رنگ ہو

آپ کے سرقہ شدہ اشعار پر بھی جنگ ہو

مستقل شعری جرائد کی خریداری کریں

تاکہ وہ بھی خاص نمبر آپ کا جاری کریں

اپنے خرچے پر منائیں شام اپنے نام کی

آپ کی دولت وگرنہ آپ کے کس کام کی

چھپ گئے دو چار مجموعے اگر اِک سال میں

مان لیں گے آپ کو شاعر سبھی ہر حال میں

تذکرہ واصف نے لکھا ہے کسی ” ناسُور “ کا

اِس کو مت قصہ سمجھئے شاعر ِ مشہور کا