محظوظ جو ہوا کبھی میرے کلام سے
الجھن میں آج کیوں پڑا ہے میرے نام سے
امید کو نگل گئے آ کر قریب وہ
اجگر ہیں یار لوگ بھی فطری نظام سے
مذہب کا ہے جنون کہ خنجر ہے ہاتھ میں
آنے لگا ہے خوف مجھے رام رام سے
ملتا نہیں قرار بھٹکتا ہوں دشت میں
عاشق کو چین کیسے ملے گا قیام سے
موسم بدل گیا ہے مگر پیار میں فہیم
میں ٹس سے مس ہوا نہیں اپنے مقام سے