قائمہ کمیٹی دفاع نے مسلح افواج سے متعلق ترامیمی بلز منظور کرلیے
اسلام آباد: قومی اسمبلی اور سینیٹ کی مشترکہ قائمہ کمیٹی برائے دفاع نے آرمی ایکٹ، نیوی ایکٹ اور ایئرفورس ایکٹ میں ترامیم سے متعلق تینوں ترامیمی بل منظور کرلیے۔
واضح رہے کہ ایوانِ زیریں میں پاک آرمی ایکٹ 1952، پاک فضائیہ ایکٹ 1953 اور پاک بحریہ ایکٹ 1961 میں ترامیم کے لیے علیحدہ علیحدہ بل وزیر دفاع پرویز خٹک نے پیش کیے تھے۔
یہ تینوں بل پاکستان آرمی (ترمیمی) ایکٹ 2020، پاکستان ایئرفورس (ترمیمی) ایکٹ اور پاکستان بحریہ (ترمیمی) ایکٹ 2020 کے نام سے اسمبلی میں پیش کیے گئے۔
ترامیمی بلز کو پیش کرنے کا مقصد سپریم کورٹ کی جانب سے 28 نومبر کو دیے گئے فیصلے کی روشنی میں آرمی ایکٹ کے احکامات میں ترامیم کرنا ہے تاکہ صدر مملکت کو بااختیار بنایا جائے کہ وہ وزیراعظم کے مشورے پر تینوں مسلح افواج کے سربراہان اور چیئرمین جوائنٹ چیف آف اسٹاف کمیٹی کی مدت ملازمت اور اس حوالے سے قیود و شرائط کی صراحت کرسکے۔
آرمی، نیوی اور ایئرفورس ایکٹ کے ترمیمی بلز پیش کرنے کے قومی اسمبلی کا اہم اجلاس اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کی سربراہی میں انتہائی مختصر وقت کے لیے ہوا۔
اجلاس میں وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان نے تحریک پیش کی کہ آج کے رولز معطل کردیے گئے جسے منظور کرلیا گیا، اس کے علاوہ وقفہ سوالات بھی آئندہ ہفتے تک موخر کردیئے گئے۔
اجلاس میں مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ آصف نے مطالبہ کیا کہ سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی، خواجہ سعد رفیق اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے رہنما سید خورشید شاہ کے پروڈکشن آرڈرز جاری کیے جائیں۔
بعد ازاں ان تینوں ترامیمی بلز کو غور کے لیے قائمہ کمیٹیوں میں بھجوایا گیا جہاں قومی اسمبلی اور سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع کا مشترکہ اجلاس ہوا۔
پارلیمانی کمیٹی سے بلز کی منظوری
جس میں قومی اسمبلی اور سینیٹ کی مشترکہ قائمہ کمیٹی برائے دفاع نے آرمی ایکٹ، نیوی ایکٹ اور ایئرفورس ایکٹ میں ترامیم سے متعلق تینوں ترامیمی بل منظور کرلیے۔
اس حوالے سے وفاقی وزیر اعظم سواتی نے کہا کہ سینیٹ کی دفاعی کمیٹی کو خصوصی پر اجلاس میں دعوت دی گئی تھی،
ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ دفاعی کمیٹی نے مسلح افواج کے سربراہان کے تقرر و توسیع سے تمعلق تینوں بلز کو متفقہ طور پر منظور کیا اور کسی جماعت نے بلز کی مخالفت نہیں کی جبکہ اس میں کوئی ترامیم بھی پیش نہیں دی گئیِں۔
اعظم سواتی کے مطابق کل تینوں بلز کی منظوری کے لیے قومی اسمبلی میں پیش ہوں گے،
ادھر سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع کے چیئرمین سینیٹر ولید اقبال نے کہا کہ دفاعی کمیٹی نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق ترامیم کی منظوری دے دی۔
انہوں نے بتایا کہ کوئی ترمیم نہیں آئی، بس کچھ اراکین نے وضاحت مانگی تھی جس پر وزیر قانون اور وزیر دفاع نے بریف کیا۔
علاوہ ازیں وزیر قانون و انصاف فروغ نسیم نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ بل متفقہ طور پر منظور کرلیا گیا ہے اور ہم نے کوئی جلد بازی نہیں کی۔
انہوں نے کہا کہ بلز پر پیپلز پارٹی،مسلم لیگ (ن)، اتحادی جماعتوں اور اپوزیشن جماعتوں کی حمایت پر ان کا مشکور ہوں، مذکورہ بلز پر کسی جماعت نے کوئی ترمیم پیش نہیں کی اور تمام جماعتوں نے بل کو درست قرار دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد نے اختلاف کرتے ہوئے توسیع نہ دینے کا مطالبہ کیا، تاہم سینیٹر مشتاق رکن نہیں بلکہ خصوصی طور پر مدعو کیے گیے تھے۔
ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ جے یو آئی کے رکن سینیٹر طلحہ محمود نے کچھ سوالات اٹھائے جنہیں مطمئن کردیا گیا۔
علاوہ ازیں مذکورہ بلز کو شام میں سینیٹ کے اجلاس میں بھی پیش کیا جائے گا جبکہ قومی اسمبلی میں اس پر کل (ہفتے کے روز) بحث ہوگی۔
واضح رہے کہ یکم جنوری کو ایک نکاتی ایجنڈے پر کابینہ کے ہنگامی اجلاس میں آرمی ایکٹ میں ترمیم کی منظوری دی گئی تھی۔
اس ضمن میں کابینہ کے ایک رکن نے کہا تھا کہ ’ترمیم کے مطابق، آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کی صورت میں ان کی ریٹائرمنٹ کی زیادہ سے زیادہ عمر 64 برس ہوجائے گی جبکہ عمومی عمر 60 سال ہی رہے گی‘ اور وزیراعظم کا استحقاق ہے کہ مستقبل میں آرمی چیف کو توسیع دے دیں۔
واضح رہے کہ حکومت نے مذکورہ ترامیم کو پارلیمان سے منظور کروانے کے لیے اپوزیشن سے رابطہ کیا تھا جس کے جواب میں گزشتہ روز مسلم لیگ (ن) نے آرمی ایکٹ میں ترامیم کی غیر مشروط جبکہ پی پی پی نے مشروط حمایت کی۔
آرمی ایکٹ میں ترامیم کیا ہیں؟
پاکستان آرمی (ترمیمی) ایکٹ 2020 کے عنوان سے کی جانے والی قانون سازی کے نتیجے میں تینوں مسلح افواج کے سربراہان اور چیئرمین آف جوائنٹ چیف آف اسٹاف کمیٹی کی ریٹائرمنٹ کی زیادہ سے زیادہ عمر کی حد 64 برس ہوجائے گی۔
اس کے ساتھ مستقبل میں 60 برس کی عمر تک کی ملازمت کے بعد ان کے عہدے کی مدت میں توسیع کا استحقاق وزیراعظم کو حاصل ہوگا جس کی حتمی منظوری صدر مملکت دیں گے۔
پیش کردہ بل کے مطابق آرمی ایکٹ میں دفعہ 8 اے، بی، سی، ڈی، ای، ایف شامل کیے جائیں گے جبکہ آرمی چیف کی مدت ملازمت اور عمر کے حوالے سے دفعہ 8 سی کہتی ہے کہ: اس ایکٹ کے قواعد و ضوابط کے مطابق کسی جنرل کی مقررہ ریٹائرمنٹ کی عمر اور مدت ملازمت کی کم از کم عمر کا اطلاق چیف آف آرمی اسٹاف کی تعیناتی کی مدت، دوبارہ تعیناتی اور توسیع کے دوران نہیں ہوگا اور اس کی زیادہ سے زیادہ عمر 64 سال ہوگی۔
اس عرصے کے دوران چیف آف آرمی اسٹاف، پاک فوج میں جنرل کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہیں گے۔
دفعہ 8 اے (بی) کے مطابق چیف آف آرمی اسٹاف کے لیے شرائط و ضوابط کا تعین صدر مملکت وزیراعظم کے مشورے پر کریں گے۔
اس حوالے عہدیدار کا کہنا تھا کہ آرمی ایکٹ میں کی گئی ترامیم کو کسی قانونی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکے گا۔
دفعہ 8 بی (ٹو) کے مطابق اس ایکٹ یا کسی اور قانون میں موجود مواد، کسی حکم یا کسی عدالت کے فیصلے، تعیناتی، دوبارہ تعیناتی، چیئرمین کی توسیع، جوائنٹ چیف آف اسٹاف کمیٹی، یا اس سلسلے میں کسی کو تعینات کرنے کی صوابدیدی کو کسی عدالت میں کسی بھی بنیاد پر چیلنج نہیں کیا جاسکتا‘۔
آرمی ایکٹ میں ترمیم کا پس منظر
واضح رہے کہ 2 روز کابینہ کے ہنگامی اجلاس میں آئین کی دفعہ 172 اور آرمی ایکٹ 1952 میں ترمیم کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا کیونکہ اس اجلاس کا واحد ایجنڈا آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع تھا۔
آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے قواعد میں ابہام دور کرنے کے سپریم کورٹ کے دیے گئے حکم کی روشنی میں حکومت نے آئین اور آرمی ایکٹ میں ترمیم کے لیے بل پارلیمان میں پیش کرنے سے قبل اس معاملے پر اتفاق رائے کے لیے اپوزیشن کے ساتھ مذاکرات کرنے کا فیصلہ بھی کیا تھا۔
کابینہ کے ایک رکن نے بتایا تھا کہ ’ترمیم کے مطابق، آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کی صورت میں ان کی ریٹائرمنٹ کی زیادہ سے زیدہ عمر 64 برس ہوجائے گی جبکہ عمومی عمر 60 سال ہی رہے گی‘ اور وزیراعظم کا استحقاق ہے کہ مستقبل میں آرمی چیف کو توسیع دے دیں۔
خیال رہے کہ 28 نومبر کو سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اگلے 6 ماہ تک پاک فوج کے سربراہ ہوں گے اور اس دوران حکومت پارلیمنٹ کے ذریعے سے آرمی چیف کی توسیع اور تعیناتی پر قانون سازی کرے۔
سپریم کورٹ نے 26 نومبر کو درخواست کی پہلی سماعت میں وفاقی حکومت کی جانب سے آرمی چیف کی مدت کے حوالے سےاگست میں جاری کیے گئے نوٹی فکیشن کو معطل کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس حوالے سے قانون موجود نہیں ہے۔
بعد ازاں اپنے تفصیلی فیصلے میں عدالت عظمیٰ نے کہا تھا کہ آرمی سے متعلق قوانین کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ جنرل اور آرمی چیف کی مدت اور ریٹائرمنٹ کی عمر کے ساتھ ساتھ مدت میں توسیع یا ازسر نو تعیناتی کے حوالے سے کوئی شق موجود نہیں ہے۔
فیصلے میں کہا گیا تھا کہ وزارت دفاع کی جانب سے آرمی چیف کی دوبارہ تعیناتی، توسیع اور از سرنو تعیناتی کے لیے جاری کی گئی سمری جس کی منظوری صدر، وزیراعظم اور کابینہ نے دی، بے معنیٰ ہے اور قانونی خلا پر کوئی اثر نہیں پڑا۔
عدالت عظمیٰ نے کہا تھا کہ اٹارنی جنرل نے عدالت کو یقین دہانی کروائی ہے کہ وفاقی حکومت حاضر سروس جنرل اور آرمی چیف کی سروس کے حوالے سے 6 ماہ کے اندر ایک ایکٹ کی شکل میں پارلیمنٹ کے ذریعے قانون سازی کرے گی۔
بعد ازاں دسمبر کے اواخر میں وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف نظر ثانی درخواست دائر کی تھی اور فیصلے کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کی تھی۔
علاوہ ازیں 2 جنوری کو فاقی حکومت نے آرمی چیف کی مدت ملازمت سے متعلق دیے گئے 28 نومبر 2019 کے فیصلے پر حکم امتناع مانگتے ہوئے ایک متفرق درخواست دائر کی تھی۔