اس سے پہلے کہ پاکستانی حکومت 30 جنوری کے پشاور خود کش دھماکے کے ڈانڈے کابل سے ملاتی، افغان وزیرِ خارجہ امیر خان متقی نے پشتو کا ایک محاورہ داغ دیا ’پاکستان اپنی چھت پر پڑی برف خود صاف کرے ہماری چھت پر نہ پھینکے۔‘
اس بیان کے بعد پاکستانی دفترِ خارجہ نے بھی اپنا لب و لہجہ مصالحانہ و ملتجیانہ سا کر لیا۔ وزیرِ اعظم کے ایک خصوصی معاون فیصل کریم کنڈی کا کہنا ہے کہ ایک وفد قندھار جا کے سپریم طالب ملا ہیبت اللہ اخوندزادہ سے درخواست کرے گا کہ وہ ٹی ٹی پی کو لگام دینے کے لیے اپنا اثر و رسوخ استعمال کریں اور ایک وفد ایران بھی بھیجا جائے گا۔
گذشتہ اور گذشتہ سے پیوستہ برس میں بھی کچھ ایسی ہی مشقیں ہوئی تھیں جب پاکستان کی دیوالیہ افغان پالیسی کے ایک سرکردہ معمار نے کابل کے پاکستانی سفارت خانے میں میڈیائی کیمروں کے سامنے چائے کی چسکی لیتے ہوئے کمال اعتماد سے کہا تھا ’ڈونٹ وری، ایوری تھنگ ول بی اوکے۔‘ سوال ان سے یہ ہوا تھا کہ آنے والے دنوں میں وہ دو طرفہ تعلقات کو کیسے دیکھ رہے ہیں۔
اس ’ڈونٹ وری‘ کے بعد کچھ علما اور مشران بھی کابل بھجوائے گئے تھے جہاں میزبانوں نے کمال ذہانت سے کام لیتے ہوئے اسلام آباد سے آئے مہمانوں کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا کہ ہم سے نہیں آپ ٹی ٹی پی سے بات چیت کرو۔
بالکل ایسی ہی ’ڈونٹ وریانہ‘ یقین دہانی سینے پر ہاتھ رکھ کے پاکستانی پارلیمنٹ اور عمرانی حکومت کو بھی کروائی گئی کہ فکر کائے کو کرنے کا، تیرے بھائی نے پہلے بھی سنبھالا اب بھی سنبھال لے گا۔
پھر یہ بھائی صاحب اور ان کے بڑے بھائی صاحب تو باعزت ریٹائر ہو گئے اور جنھوں نے ان بھائی لوگوں کی یقین دہانیوں پر اعتبار کیا، وہ بھی سڑک پر آ گئے۔ مگر دہشت گردی کی اوجھڑی آج بھی گلے میں ویسے ہی پڑی ہوئی ہے، نہ سنبھل رہی ہے نہ گردن سے اتر رہی ہے۔
ہماری علاقائی و خارجہ پالیسی کے اصل معماروں کو دنیا یونہی تو خطروں کے کھلاڑی نہیں کہتی۔ دور کہیں آسمان میں ایک تیر بھی اڑ رہا ہو تو گھیر گھار کے اس کا رخ اپنی جانب کرنے میں ہم جیسا ماہر کوئی اور کہاں۔
کوئی ناگن کسی ویران پگڈنڈی پر بھی جا رہی ہو تو ہم خود اس کا راستہ روک کے بین لہرانے لگتے ہیں کہ جانِ من کہاں جا رہی ہو مجھے ڈسے بغیر۔
اگرچہ ہم خدائے واحد کی ذات پر مکمل بھروسہ رکھتے ہیں مگر ہم جیسا سنگ تراش بھی کوئی دوجا نہیں۔ پہلے اپنی خواہشات کی چھینی سے پتھر چھیل کے مجسمہ بناتے ہیں اور پھر اسی بت سے مراد پوری کرنے کی فرمائش کرتے ہیں۔ جب ایسا نہیں ہوتا تو پھر دوسرا پتھر چھیلنے پر لگ جاتے ہیں۔
ہر بار خود کو روکتے ہیں کہ اب کسی پرائے پھڈے میں نہیں پڑیں گے۔ مگر ہر بار کوئی نہ کوئی کمینہ ہمیں نوٹ دکھا کے دیہاڑی داری پر مجبور کر دیتا ہے۔ وہ تو اپنا کام نکال کے پیمنٹ کر کے راہ لیتا ہے اور ہم اپنے راستے میں پھیلا گند صاف کر کے پھر کسی موٹی تازی پارٹی کے انتظار میں چھینی لے کے بیٹھ جاتے ہیں۔ ہماری اپنی مجبوری ہے، محنت مزدوری کے سوا اور کوئی ہنر بھی تو پلے نہیں۔
ہمیں یہ پٹی پڑھائی جاتی رہی کہ مظلوموں کی مدد ثوابِ جاریہ ہے۔ ہم نے اپنی پسند کے مظلوم چنے اور ان کی مدد شروع کر دی۔ اب جب مظلوموں کو ان کا حق دلوا دیا تو پھر اُنھوں نے اپنی پسند کے مظلوم چن لیے۔
اس کے علاوہ اور کیا کہانی ہے سوویت یونین کے خلاف مجاہدین کی مدد کی اور مجاہدین کے خلاف طالبان کی مدد کی۔ اب جب یہی افغان طالبان آپ ہی کی روایت پر عمل پیرا ہو کر اپنے ہی پاکستانی طالبان بھائیوں کی نظریاتی و پناہ گاہی مدد کر رہے ہیں تو آپ کو اچھا نہیں لگ رہا اور آپ کا اچھا نہ لگنا افغان طالبان کی سمجھ میں نہیں آ رہا۔
اسے کہتے ہیں ببول کاشت کر کے آڑو کی فصل کی توقع۔ اگر یہی مثالی خارجہ و علاقائی پالیسی ہے تو ایسی نادر پالیسی کو 21 کے بجائے 21 سو توپوں کی سلامی۔
اور اس سب کا حاصل کیا ہے؟ پاکستانی سماج اندر سے بٹ گیا۔ جن چار ہمسائیوں سے سرحد ملتی ہے نہ وہ آپ سے راضی نہ آپ ان سے راضی۔ جو دوست بظاہر آپ کی مدد کر رہے ہیں وہ اس ڈر سے کر رہے ہیں کہ اگر یہ بوتل ٹوٹتی ہے تو پھر تیزاب ان کے صحن تک بھی پہنچ سکتا ہے، لہٰذا کچھ اس طرح مدد کی جائے کہ آپ پوری طرح کھڑے بھی نہ ہو پائیں اور مکمل مفلوج بھی نہ ہو جائیں اور جو جوہری ہتھیار آپ نے بنا رکھے ہیں کم ازکم ان کی رکھوالی کے قابل ہی رہیں۔
جس ملک کو ضیا، مشرف، فیض، باجوہ، عمران، شہباز، اسحاق ڈار، ثاقب نثار اور ملک ریاض جیسے ہیرے میسر ہوں یا میسر رہے ہوں تو باقی دنیا کو اس ملک کی ٹینشن اپنے سر لینے کی کیا ضرورت؟ کیا ہم اپنے لیے کافی نہیں؟