جب بھی کوئی طاقتور شخص فوت ہوتا ہے تو میں سوچتا ہوں کہ یہ بندہ فوت کیسے ہوگیا، یہ تو نہایت دبنگ آدمی تھا، اِس کے آگے تو کسی کو دم مارنے کی مجال نہ تھی ،اپنےعروج کے وقت اِس شخص کی زبان سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ مقدس سمجھا جاتا تھا ، اِس کے ہر حکم کی تعمیل کی جاتی تھی ،اِس کا اختیار تھا جس کو چاہے زندان میں ڈال دے اور جسے چاہے پلاٹ اور خلعت فاخرہ دے کر سرفراز کردے ۔بھلا ایسے شخص کو موت کیسے آگئی ؟
مگر پھر قران کی آیت یاد آجاتی ہے’’ کل نفس ذائقۃ الموت‘‘ کچھ لوگ کہتےہیں کہ مرےہوئے شخص کی تنقیص نہیں کرنی چاہیے ،مرنے والے کا معاملہ اللہ کے سپرد ہوتا ہے ، وہ جیسا بھی ہو اُس کی مغفرت کی دعا کرنی چاہیےاور اُس کے پسماندگان سے اظہار افسوس کرنا چاہیے ۔عام حالات میں ایسا ہی ہوتا ہے مگر جب معاملہ کسی حکمران کا ہوتواُس کی مغفرت کی دعاسوچ سمجھ کر کرنی چاہئے ۔
جنرل (ر) پرویز مشرف فوت ہوچکے ہیں ،اُن کی وفات پر جس قسم کا رد عمل سامنے آیا اُسے دیکھ کر لگتاہے کہ اُن کے چاہنے والوں میں دو قسم کے لوگ شامل تھے ، بھارتی سیاست دان اور پاکستان کے مراعات یافتہ طبقے سے تعلق رکھنے والے کاٹھے انگریز۔چلیں ہم اِس بحث میں نہیں جاتے کہ پرویز مشرف کیسے حکمران تھے ، ہم صرف اُن حقائق کو دیکھ لیتے ہیں جن کی تردید ممکن نہیں ۔ پرویز مشرف نے 12 اکتوبر1999 کو ملک میں مارشل لا لگایا، ظاہر ہے کہ مارشل لا کی آئین میں کوئی گنجائش نہیں ،یہ ماورائے آئین اقدام تھا ، لیکن ہمارے کاٹھے انگریزوں کو اِس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، اُن کے نزدیک آئین توڑنا یا غصے میںوہسکی کا گلاس توڑنا برابر ہے ، بلکہ شاید وہسکی بھرا گلاس توڑنا زیادہ بیہودگی ہے ۔اِس اقدام کا جواز وہی دیا جاتا ہے جو تمام ڈکٹیٹرز دیتے ہیں کہ مارشل لا کو عدالت عظمیٰ نے جائز قرار دیا تھا۔یہ عذر پیش کرنے والے بھول جاتے ہیں کہ عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس کو اُس وقت بزور بندوق برطرف کیاگیا اور پھر اپنی مرضی کی عدالت تشکیل دے کر جج صاحبان سے پی سی او کے تحت حلف اٹھوایا گیا ، اُس عدالت کے سربراہ جسٹس ارشاد مقرر ہوئے جنہوں نے ماورائے آئین اقدام کو جواز بخشا اور تاریخ میں امر ہوگئے ۔گویا مارشل لا کے تحت پی سی او آیا، پی سی او کے تحت عدالت بنی اور اُس عدالت نے مارشل کے غیر آئینی اقدام کو آئینی قرار دے دیا۔ بولے تو’The illegitimate validated its own illegitimacy through illegitimate means۔‘کاٹھے انگریزوں کی یاد داشت چوں کہ کمزور ہوتی ہے اِسلئے بتا دوں کہ آئین میں کی گئی اٹھارہویں ترمیم اِن تمام ماورائے آئین اقدامات کو اٹھا کر ردی کی ٹوکری میں پھینک چکی ہے ،سمیت جسٹس ارشاد احمد خان کے فیصلے کے۔یہی نہیں بلکہ پرویز مشرف کے نافذ کردہ 37 ایگزیکٹو آرڈرز جن کے ذریعے موصوف نے بہ یک جنبش قلم آئینی ترامیم کیں ، وہ سب بھی تاریخ کے کوڑے دان کا حصہ بن چکی ہیں ۔
اِس کے بعد آنجناب کو صدر بننے کا شوق چرایا،20 جون 2001کو موصوف نے آئینی صدر رفیق تارڑ کو سیلوٹ مار کے گاڑی میں بٹھایااور پی ٹی وی پر خبر چلوا دی کہ صدر اپنے عہدے سے سبکدوش ہوگئے ہیں اور پھر اپنے ہی پی سی او کے تحت صدر کا حلف اٹھا لیا۔قوم کو شاید یاد نہ ہو مگر ایک ریفرنڈم بھی کروایا گیا تھا جس میں موصوف کو صدام حسین کی طرح غالباً 98 فیصد ووٹ حاصل ہوئے تھے مگر ظاہر ہے کہ ریفرنڈم صدر کے انتخاب کا متبادل نہیں ہوسکتا تھا چنانچہ ایک مرتبہ پھر آئین کا ریپ کیا گیا اورصوبائی اسمبلیوں پر مشتمل الیکٹورل کالج کا ڈھانچہ تباہ کرکے’شو آف ہینڈز‘ کے ذریعے آنجناب کو صدر ’منتخب ‘ کرلیا گیا۔کہانی یہاں ختم نہیں ہوئی۔تیسری مرتبہ جب عالی مرتبت کے صدر ’منتخب‘ ہونے کا مرحلہ درپیش ہوا تو عدالت نے حد سے زیادہ قابل اور پڑھے لکھے شریف الدین پیرزادہ سے استفسار کیا کہ آئین میںتیسری مرتبہ صدر بننے کی کہاں گنجائش ہے، اِس پر پیرزادہ صاحب کوچکر آگئے ، انہوں نے عدالت سے ایک دن کا وقت مانگ لیا ۔پھر جو ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے، 3 نومبر 2007کو ہمارے اِس خیر اندیش آمر اور پڑھے لکھوں کے محبوب لیڈر نے دوسری مرتبہ مارشل لا لگانے کا منفرد اعزاز اپنے نام کیا اور یہ مارشل لا بھی اپنی نوکری بچانے کیلئےلگایا گیا۔ اٹھارہویں ترمیم نے اِس مارشل لا اور اِس کے نتیجے میں کیے جانے والے تمام اقدامات کو بھی بعد ازاں منسوخ کردیا۔ 3 نومبر کے ماورائے آئین اقدام کی پاداش میں پرویز مشرف پر خصوصی عدالت میں غداری کا مقدمہ چلایا گیاجس میں انہیں پھانسی کی سزا ہوئی ۔اب ایک لطیفہ بھی سن لیں ۔ خصوصی عدالت کی سزا کو لاہور ہائی کورٹ میں ’چیلنج‘ کیا گیا جس نے یہ فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔لطیفہ یہ ہے کہ خصوصی عدالت ،سپریم کورٹ آف پاکستان کے حکم پر تشکیل دی گئی تھی جوتین مختلف ہائی کورٹس کے جج صاحبان پر مشتمل تھی، اِس خصوصی عدالت کے فیصلے کو کالعدم کرنے کا اختیار کسی ہائی کورٹ کے پاس نہیں تھا ،ویسے بھی آئین کی شق 199 کے تحت کوئی ہائی کورٹ کسی جج کے خلاف حکم دینے کا اختیار نہیں رکھتی کیونکہ جج کے خلاف کوئی رٹ دائر نہیں کی جا سکتی۔
پرویز مشرف کے کارناموں کی یہ محض ایک جھلک ہے۔ پرویز مشرف، بے شک ایک غیر آئینی حکمران تھے، مگر اُنکے پاس ملک کی تقدیر بدلنے کا سنہری موقع تھا، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں حصہ لینے کے عوض ملک میں ڈالر برس رہے تھےمگر مشرف اِس کا فائدہ نہ اٹھا سکے، انہوں نے عوام کو پراپرٹی ڈیلر بنا دیا،نہ معیشت کی سمت درست ہوئی اور نہ ایکسپورٹ میں اضافہ ہوا۔پرویز مشرف کا صرف ایک فیصلہ ایسا تھا جس کا کسی حد تک دفاع کیا جا سکتا ہے اور وہ ’’وار آن ٹیرر‘‘ میں شامل ہونے کا فیصلہ تھا،کوئی اور لیڈر ہوتا تو وہ بھی یہی کرتا مگر جس انداز میں پرویز مشرف نے امریکہ کو ’’ہاں‘ ‘ کی وہ بہت ہتک آمیز تھا،یہی نہیں بلکہ بعد میں ملک میں دہشت گردی کی جو لہر آئی اُس نے ہماری کمر توڑ کر رکھ دی اور ہم آج تک سنبھل نہیں پائے، یہ ذمہ داری بھی پرویز مشرف پر ہی عائد ہوتی ہے۔1999کو گزرے ہوئے 24برس ہوگئے ہیں، اگر 12 اکتوبر کو پرویز مشرف ملک میں مارشل لا نہ لگاتے تو آج ہماری تقدیر مختلف ہوتی، کیسے مختلف ہوتی، یہ فیصلہ میں کاٹھے انگریزوں پر چھوڑتا ہوں!