دنیابھرسے

سعودی عملے کی واپسی سے کابل میں دیگر سفارتی مشنز کی بندش کے خدشات

Share

سیکیورٹی خدشات کے دوران سعودی سفارت کاروں کی کابل سے روانگی سے یہ خدشہ پیدا ہوگیا ہے کہ دیگر کم از کم تین ممالک بھی افغانستان میں اپنے سفارت خانے بند کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں، حالانکہ طالبان اور دیگر حکام نے ایسی خبروں کو مسترد کردیا ہے۔

 رپورٹ کے مطابق افغان طالبان کے ایک عہدیدار نے تصدیق کی کہ سعودی عرب نے اپنا عملہ واپس بلا لیا ہے لیکن کہا کہ سعودیوں نے ’ہمیں بتایا ہے کہ انہوں نے سفارت خانے کے عملے کو ایک ہفتے کی تربیت کے لیے واپس بلایا ہے‘۔

سعودی عرب کی جانب سے عملے کی ’عارضی واپسی‘ کے بعد کابل میں متحدہ عرب امارات، قطر اور روسی مشن کی بندش کے حوالے سے اطلاعات منظر عام پر آئیں۔

تاہم افغان عہدیدار نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر یو اے ای کے مشن کی بندش کے بارے میں افواہوں کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ متحدہ عرب امارات کا یہاں کوئی سفیر نہیں ہے تاہم اب بھی کئی سفارت کار ایمبیسی چلا رہے ہیں۔

دریں اثنا قطر کے وزیر خارجہ کے خصوصی ایلچی ڈاکٹر مطلق بن ماجد القحطانی نے طالبان وزرا سے ملاقات کی جس میں ’افغانستان میں ہونے والی اہم پیش رفتوں، خاص طور پر سیاست، معیشت، ترقی اور تعلیم‘ پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

دوسری جانب ایک سینئر روسی عہدیدار نے بھی اس بات کا اعادہ کیا کہ ان کے ملک کا کابل میں اپنے سفارتی مشن کو بند کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔

وزارت خارجہ کے دوسرے ایشیائی محکمے کے ڈائریکٹر ضمیر کابلوف نے تاس نیوز ایجنسی کو بتایا کہ ’ایسی سوچ بھی نہیں آئی ہے۔‘

اس کے علاوہ رائٹرز کی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ سعودی سفارت کار گزشتہ ہفتے کے آخر میں بذریعہ ہوائی جہاز پاکستان چلے گئے تھے لیکن کابل یا اسلام آباد میں دفترخارجہ کی جانب سے اس پر کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔

اگرچہ امریکا اور یورپی ممالک نے ابھی تک کابل میں اپنے سفارت خانے دوبارہ نہیں کھولے لیکن پاکستان، روس، چین، ترکی اور ایران سمیت ان چند ممالک میں شامل تھا جنہوں نے وہاں سفارتی موجودگی برقرار رکھی۔

کابل میں پاکستانی سفارت خانے کے ذرائع نے بھی سفارت کاروں کے انخلا کی افواہوں کو مسترد کر دیا لیکن افغانستان میں ملک کے ناظم الامور عبید الرحمٰن نظامانی، جو 2 دسمبر کو ہونے والے قاتلانہ حملے میں بچ گئے تھے، ابھی تک اپنے عہدے پر واپس نہیں آئے۔

سرکاری ذرائع کا اصرار ہے کہ اسلام آباد انہیں واپس بھیجنے سے پہلے افغان حکومت کی جانب سے سیکیورٹی کی یقین دہانیوں کا انتظار کر رہا ہے۔

عسکریت پسند گروپ داعش خراسان نے عبید الرحمٰن نظامانی پر حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی، اسی روز مسلح افراد نے حزب اسلامی افغانستان کے مرکزی دفتر پر اس وقت دھاوا بول دیا تھا جب اس کے سربراہ گلبدین حکمت یار جمعہ کا خطبہ دے رہے تھے، تاہم وہاں کے محافظوں نے دو حملہ آوروں کو ہلاک کر دیا، جن کے بارے میں کہا گیا کہ وہ داعش خراسان کے آدمی تھے۔

رپورٹس بتاتی ہیں کہ داعش خراسان کی بحالی نے ملک میں غیر ملکی مشنز کو بے چین کر دیا ہے، اس گروپ نے پاکستانی، روسی سفارت خانوں اور ایک ہوٹل پر حملوں کا دعویٰ کیا تھا جس میں چینی شہری اکثر آتے تھے۔

اگرچہ طالبان حکام ہمیشہ کسی بھی خطرے کو کم ظاہر کرتے ہیں لیکن بین الاقوامی برادری ان کے دعووں پر یقین نہیں رکھتی۔

کابل سے امریکی انخلا کے فوراً بعد گروپ نے کابل کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی جس میں کم از کم 183 افراد ہلاک ہوئے۔

اس کے علاوہ اس نے جنوبی قندھار اور شمالی قندوز صوبوں میں بھی مہلک حملے کیے ہیں۔

کابل میں پاکستان کے سابق ایلچی منصور خان نے ڈان کو بتایا کہ شدت پسند داعش افغانستان میں کئی برسوں سے ایک سنگین خطرہ ہے اور اگست 2021 میں طالبان کے قبضے کے بعد کئی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے اپنے جائزوں میں کہا تھا کہ ملک کے مختلف حصوں میں داعش سے منسلک جنگجوؤں میں اضافہ ہو رہا ہے۔

ان کے خیال میں افغان عبوری حکومت کو داعش خراسان اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) جیسے دیگر دہشت گرد گروہوں کا مقابلہ کرنے کے لیے انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں میں مدد کے لیے اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعاون کو فروغ دینا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ اگر اس تعاون میں تاخیر ہوتی ہے تو داعش اور علاقائی دہشت گرد گروپوں کے درمیان روابط افغانستان اور خطے میں امن و استحکام کے لیے نقصان دہ ہو سکتے ہیں۔