یہ خوش گمانیوں کا موسم تھا جو رخصت ہوا۔ شاید ہمیشہ کے لیے۔
نواز شریف اور عمران خان سے دو رومان وابستہ ہوئے۔ ایک عوام کی حاکمیت کا، دوسرا روایتی سیاست سے نجات کا۔ دونوں کو حقیقت پسندی کی سنگلاخ زمین پر ننگے پاؤں چلنا تھا۔ معلوم ہوتا ہے کہ دونوں آبلہ پائی کا شکار ہو گئے۔ نئے سال کا آغاز ہوا تو دونوں نے حقیقت پسندی کے سامنے ہتھیار رکھ دیے۔ آرمی ایکٹ میں تبدیلی کا مجوزہ قانون اس کے سوا کچھ نہیں کہ دونوں کا زمینی حقائق کے روبرو اعترافِ عجز ہے۔ خان صاحب کے بارے میں تو کوئی ابہام نہیں تھا کہ وہ ‘سٹیٹس کو‘ ہی کی نمائندگی کر رہے تھے۔ خوش گمانی نواز شریف صاحب کے بارے میں تھی۔
نواز شریف نے اقتدار کی سیاست سے اقدار کی سیاست کی طرف پیش قدمی کی ہے۔ 1999ء کے بعد، ہم اس کے آثار دیکھ سکتے ہیں۔ کبھی سست روی سے، کبھی شتابی کے ساتھ۔ کبھی ایک قدم آگے اور دو قدم پیچھے۔ کبھی دو قدم آگے اور ایک قدم پیچھے، ان کا سفر جاری رہا۔ بحیثیت مجموعی انہوں نے خیر کی طرف قدم بڑھایا۔
مثال کے طور پر ان سے کرپشن کی جو داستانیں منسوب ہیں، ان کا تعلق 1980-90ء کی دہائیوں سے ہے۔ اس کے بعد تو داستان نگار بھی خاموش ہو گئے۔ تب ہی ان کو نااہل قرار دینے کے لیے ‘اقامہ‘ کا سہارا لینا پڑا۔ ان کے معاملے میں ریاست کے تمام اداروں نے مل کر، جس طرح زمین آسمان کو کھنگال مارا، لازم تھا کہ کوئی ایک آدھ، سچی جھوٹی کہانی ہی گھڑ لی جاتی مگر یہ بھی ممکن نہ ہو سکا۔
شعوری سطح پر بھی ہم دیکھتے ہیں کہ وہ روایتی مذہب پسندی سے نکلے اور روشن خیالی کی طرف آئے۔ انہوں نے پاکستان کی نظری ساکھ میں موجود تضادات کو سمجھا اور یہ کوشش کی کہ اسے جدید قومی ریاست کے تصور سے ہم آہنگ بنائیں۔ یہ بھی امرِ واقعہ ہے کہ انہوں نے معاشی طور پر پاکستان کو توانا بنانے کے لیے ایک قابلِ عمل پالیسی ترتیب دی جس کے شواہد جابجا بکھرے ہوئے ہیں۔ یہ ان کی خوش قسمتی تھی کہ انہیں شہباز شریف صاحب کا تعاون میسر رہا جن کی انتظامی صلاحیتوںکا سارا ملک معترف ہے، الا یہ کہ کوئی سامنے رکھی چیزوں کے وجود کا انکارکر دے۔
نواز شریف صاحب کا سب سے بڑا کارنامہ عوام کی سیاسی توقیر کے لیے آواز بندکرنا ہے۔ انہیں معلوم تھا کہ یہ آسان کام نہیں۔ اس میں جان بھی جا سکتی ہے۔ اس کے باوجود انہوں نے دو سال ایک معرکہ لڑا۔ عوامی حاکمیت کا علم سب سے پہلے پیپلز پارٹی نے اٹھایا تھا۔ اب لازم تھا کہ پنجاب سے اٹھنے والا کوئی راہنما بھی یہ ہمت کرتا اور یوں یہ ایک قومی بیانیہ بنتا۔ نواز شریف نے ہمت کی اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اسے ایک قومی بیانیہ بنا دیا۔ جب یہ قومی بیانیہ بن گیا تو نواز شریف صاحب سے بیماری اور ن لیگ سے سیاسی حقیقت پسندی لپٹ گئی۔
عمران خان کے بارے میں میری رائے ہے کہ انہوں نے اقدار کی سیاست سے اقتدار کی سیاست کی طرف پیش قدمی کی ہے۔ یوں یہ خیر سے دوری کا سفر تھا۔ وہ روایتی سیاست کے خلاف کھڑے ہوئے۔ انہوں نے ایک نئے سیاسی کلچر کی بات کی۔ انہوں نے بطور کھلاڑی اپنی مقبولیت کو پہلے سماجی اور پھر سیاسی تبدیلی کے لیے استعمال کرنا چاہا۔ اس ملک کا وہ خام ذہن جو سیاست سے ہمیشہ لاتعلق رہا، ان سے وابستہ ہوتا گیا اور یوں وہ تبدیلی کی علامت بنتے گئے۔
جب انہوں نے مقبولیت کی ایک خاص بلندی کو چھو لیا تومقتدر حلقوں نے انہیں گود لے لیا۔ پھر ایک مسئلہ افتادِ طبع کا بھی تھا۔ پے در پے سیاسی ناکامیوں سے انہوں نے سیکھا کہ اقتدار تک پہنچنے کا ایک ہی راستہ ہے۔ وہی جس پر سب چلتے رہے ہیں۔ 2013ء کی انتخابی ناکامی کے بعد، وہ اس کے پوری طرح قائل ہو گئے۔ مزید یہ کہ نواز شریف نے جس طرح ایک قومی مفاہمت کی فضا پیدا کرتے ہوئے یہ چاہا کہ اپنی تمام توانائیاں معاشی تعمیر پر صرف کر دی جائیں، عمران خان صاحب کو اپنا مستقبل مزید مخدوش دکھائی دیا۔ انہیں لگا کہ نواز شریف کو ووٹ سے شکست دینا فی الحال ممکن نہیں۔ ان کی عمر ایسی نہیں تھی کہ لمبا عرصہ انتظار کرتے۔
اس موڑ پر خان صاحب اور مقتدرحلقوں میں ایک فیصلہ کن حکمتِ عملی پر اتفاقِ رائے ہو گیا۔ ‘لندن پلان‘ کے تحت، چوہدری شجاعت اور طاہرالقادری کو بھی شریک کر لیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ 2014ء کا دھرنا، اسی حکمتِ عملی کا حصہ تھا۔یہ وہ سال ہے جب عمران خان رومانویت سے نکل کر اقتدار کے روایتی کھلاڑی بن گئے۔اقتدار میں آنے کے بعد بھی،وہ کوئی ایک ایسا قدم نہ اٹھا سکے جس کا تعلق تبدیلی یا رومان سے تھا۔لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ بعد از انتخابات، احتساب کا سارا عمل دراصل اس پلان کا حصہ تھا جس کاآغاز2014 ء کے دھرنے سے ہوا۔
نیا سال،اس سیاست کے باضابطہ خاتمے کا آغاز ہے۔عمران خان نے مان لیا کہ سیاست میںدوسروں کے وجود کو تسلیم کرناپڑتا ہے۔نیب آرڈیننس میں تبدیلی ،زبانِ حال سے اسی کا اعلان تھا۔ اب تو انہوں نے زبانِ قال سے بھی اعتراف کر لیا۔ 2014 ء کا سال، خان صاحب سے وابستہ توقعات کے خاتمے کا سال تھا لیکن خوش گمانیاں جاتے جاتے جاتی ہیں۔2020ء تک پہنچتے پہنچتے،کوئی ذی شعور شاید ہی باقی ہوجوکسی خوش گمانی میں مبتلا ہو۔سیاسی نابالغوں کی بات البتہ دوسری ہے۔
نوازشریف صاحب کواندازہ ہو چلاہے کہ آرمی ایکٹ ترمیمی بل پر نون لیگ کے موقف نے، ان توقعات کو شدید نقصان پہنچا یا جوعوامی حاکمیت کے علم برداروں نے ان سے وابستہ کر لی تھی۔بالخصوص وہ لوگ جن کا تعلق چھوٹے صوبوں سے ہے اور وہ ان کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ انہوں نے آخری وقت پرمداخلت کی اور پارلیمنٹ کے وقار کوکم ازکم علامتی طور پر بچاناچاہا۔یوں یہ قانون جو ایک ہی دن میںقومی اسمبلی اور سینیٹ سے منظور ہونا تھا،اب ایک باضابطہ کارروائی کے بعد منظور ہو سکے گا۔
معاملہ جو بھی ہو،عام آدمی اب اسی نتیجے تک پہنچا ہے کہ ”تیری سرکارمیں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے‘‘ تحریکِ انصاف کے بارے میں تو کوئی ابہام نہیں تھا، اب نون لیگ کے بارے میں بھی یہی رائے مستحکم ہو رہی ہے۔یہاں بھی نوازشریف کے بیانیے پر شہبازشریف صاحب کا بیانیہ غالب آچکا۔آج سب ایک ہی دربار کی خوشنودی کے طلب گار ہیں۔
تو کیا پاکستان میں تبدیلی اور عوامی حاکمیت کے خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتے؟میراجواب تواثبات میں ہے۔مجھے کسی جوہری تبدیلی کے آثار دکھائی نہیں دیتے ، الا یہ کہ سماجی تبدیلی کی کوئی بڑی تحریک اٹھے۔اس تحریک کے نتیجے میں سیاسی جماعتوں کی تشکیل ِنو ہو اورریاستی اداروں کی قیادت ان ہاتھوں کو منتقل ہو جائے جوسماج اور اجتماعیت کا عصری شعور رکھتے ہوں۔
یہ ایک طرح سے خوش گمانیوں کی رخصتی کا موسم ہے۔انسانی تاریخ میںسیاست ہمیشہ زمینی حقائق کے تابع رہی ہے۔سیاست کو بدلنے کے لیے زمینی حقائق کو بدلنا ضروری ہے۔نوازشریف نے عوامی حاکمیت کے تصور کو زندہ کیا اور عمران خان نے تبدیلی کے۔آج دونوں سیاسی ضروریات کے سامنے سرافگندہ ہوگئے۔
خدشات تو بہت ہیں مگر نون لیگ کی حقیقت پسندی سے چھوٹے صوبوں،بالخصوص بلوچستان میں جو مایوسی پیدا ہوگی،وہ کسی طرح وفاق کے لیے نیک شگون نہیں ہے۔ المیہ یہ ہے کہ یہ بات ان لوگوں کو نہیںسمجھائی نہیں جا سکتی جن کے ہاتھ میں اقتدار کی باگ ہے اور جو اس خام خیالی میں مبتلاہیں کہ یہ عوام نہیں،ریاستی ادارے ہیں جو وفاق کو متحد رکھتے ہیں۔رومان کی سیاست ختم ہو ئی لیکن رومان کو زندہ رہناچاہیے۔رومان کو حقیقت بنایا جا سکتا ہے مگر اسی وقت جب کچھ لوگ اپنے عہد کے بجائے تاریخ میں زندہ رہنے کا ارادہ کرلیں۔یہ ایک صبر آزما کام ہے۔یہ ان کے بس کی بات نہیں جن کا ہدف ہی وزیراعظم بنناہو۔
اگرآج میرے پاس انتخاب کاحق ہو تاتو میں اقتدار کی سیاست کوکئی سال موضوع نہ بناتا۔مگر کیا کیجیے کہ کالم نگار کو بھی ،حقیقت پسند ہو نا پڑتا ہے کہ صحافت سیاست سے جدا ہو کر زندہ نہیں رہ سکتی۔