منتخب تحریریں

ذرا چھوٹے پاگل خانے تک؟

Share

مجھے علم ہے کہ دنیا کے اس بڑے پاگل خانے سے مجھے لاہور کی جیل روڈ پر واقع چھوٹے پاگل خانے میں ایک دن جمع کرایا جانا ہے لہٰذا میں نے سوچا کہ کیوں نہ پہلے سے اپنے اس گھر کا وزٹ کر لیا جائے، دیکھا جائے فضا کیسی ہے میرے ہمسائے کیسے ہوں گے کھانے پینے اور رہائش کے انتظامات کیسے ہیں؟ چنانچہ میں نے گزشتہ روز اپنے مستقبل کے اس گھر کا ایک چکر لگایا پہلے ایک وضاحت کہ ذہنی مریضوں کو جہاں رکھا جاتا اور ان کا علاج کیا جاتا ہے اسے عرف عام میں پاگل خانہ کہا جاتا ہے، تاہم اس لفظ کا استعمال مناسب نہیں سمجھا جاتا لیکن مجھے چونکہ متعدد بار یہ لفظ استعمال کرنا پڑے گا اور ہر بار ’’ذہنی مریضوں کی علاج گاہ ‘‘لکھنا ممکن نہیں ہوگا لہٰذا میں پیشگی معذرت خواہ ہو ں کہ مجھے مجبوراً پاگل خانہ لکھنا پڑے گا البتہ پاگل کو پاگل نہیں مریض لکھوں گا کہ دونوں لفظ ایک جتنی جگہ گھیرتے ہیں۔سو میں نے ڈاکٹر نعمان صاحب کو فون کیا کہ آنا چاہتا ہوں تو انہوں نے کہا مریض یہاں خود داخل نہیں ہو سکتا ،اس کے اہلخانہ اسے اپنے ساتھ لاتے ہیں، میں نے عرض کی ڈاکٹر صاحب مجھے ابھی داخل نہیں ہونا صرف مستقبل کی رہائش کا جائزہ لینا ہے، تب انہوں نے کہا تو پھر آ جائیے مگر وعدہ کریں کہ کچھ دیر بعد واپس بھی چلے جائیں گے، اس یقین دہانی کے بعد میں پاگل خانے پہنچا جہاں باریش نوجوان، دماغی امراض کے ماہر ڈاکٹر نعمان نے میرا استقبال کیا اور ان کے ساتھ گھوم پھر کر حالات کا جائزہ لیا ۔

وسیع وعریض جگہ پر قائم پاگل خانے کی اس قدیم عمارت کے ساتھ نئے بلاک بھی تعمیر کئے جا رہے تھے جس میں بہتر سہولتیں ہوں گی، اللہ جانے یہاں کی انتظامیہ کو کس نے میرے ارادے کی اطلاع کر دی اور انہوں نے ابھی سے تکلف سے کام لینا شروع کر دیا اور نئے بلاک کی تعمیر شروع کر دی حالانکہ میں تو درویش صفت انسان ہوں مجھے پروٹوکول اچھا نہیں لگتا ،میں نے دیکھا یہاں مختلف طرح کے مریضوں کے لئے ان کے ’’مزاج‘‘ کے مطابق بلاک بنائے گئے تھے مثلاً جو مریض جلالی مزاج کے مالک ہیں انہیں الگ رکھا گیا ہے، اس کے بعد ایک تفریق اور کی گئی ہے کہ جو زیادہ جارحیت پسند ہیں انہیں اوپر کے فلور پر رکھا گیا ہے اور ہر کمرے کو باہر سے لوہے کی چادروں سے بند کر دیا گیا ہے اور جو مریض قدرے کم ’’جلالی ‘‘ ہیں ان کے لئے نچلا فلور ہے ؟میں نے اس فلور کی طرف جانا مناسب نہ سمجھا اور ڈاکٹر نعمان کے ساتھ صرف ’’جمالی ‘‘ نوعیت کے مریضوں کے علاقے میں گھومتا پھرتا رہا۔

اس دوران ایک مریض ہماری طرف آیا اور اس نے انگریزی کو ذریعہ اظہار بتاتے ہوئے کہا ’’میں آپ سے کچھ بات کرنا چاہتا ہوں ‘‘ میں نے بھی انگریزی میں جواب دیا ’’فرمائیے‘‘ بولا ’’آپ تو جانتے ہیں کہ مہنگائی بہت زیادہ ہو گئی ہے اور مڈل کلاس کے لوگوں کے لئے بھی زندگی اجیرن ہو کر رہ گئی ہے ‘‘ میں نے کہا ’’اس میں کیا شبہ ہے ‘‘ کہنے لگا تو پھر کچھ مدد کیجئے‘‘ اس پر ڈاکٹر نعمان نے مداخلت کرتے ہوئے کہا ’’آپ سے بعد میں بات کرتے ہیں ‘‘یہ سن کر اس نے ڈاکٹر صاحب کی طرف انگلی کا اشارہ کرتے ہوئے کہا YOU PLEASE KEEP QUITE, I AM NOT ADRESSING YOU

(آپ خاموش رہیں میں آپ سے مخاطب نہیں ہوں)اس پر ہم دونوں نے قدم آگے بڑھا دئیے ،آگے ایک بہت بڑے گرائونڈ میں میز کرسی کےگرد ڈاکٹر اور نرس بیٹھے تھے اور بہت سے مریض زمین پر بیٹھے پائے گئے، وہ باری باری میز کرسی کے گرد جاتے پتہ چلا کہ اس قیمتی دھوپ سے فائدہ اٹھاتےہوئے گرائونڈ ہی میں مریضوں کا چیک اپ کیا جا رہا ہے، ان کے مطمئن چہروں کو دیکھ کر کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ انہیں کوئی ذہنی مسئلہ ہے ،ایسے مطمئن لوگ ہمیں اپنے ارد گرد دفتروں میں اعلیٰ سرکار ی افسروں کی صورت میں بھی ملتے ہیں۔اس دوران ایک ادھیڑ عمر مریض ہماری طرف آیا ،صاف ستھرے کپڑے اور چہرے پر متانت اس نے بھی ہمیں انگریزی میں مخاطب کیا اور اس کی انگریزی پہلے ملنے والے مریض سے بہت بہتر تھی بلکہ اس کی انگریزی میں بہت روانی بھی تھی ،اس نے گفتگو کا آغاز پشتو میں کیا میں نے پوچھا تم پٹھان ہو بولا نہیں میں نے پشتو پڑھی ہے پھر اس نے پشتو کی تین چار کتابوں کے نام لئے اس کے بعد اس نے انگریزی میں کائنات، سیاروں، سورج، چاند اور دوسرےمظاہرِقدرت کی سائنسی تشریح شروع کر دی بلکہ اس نے یہ بھی بتایا کہ وہ ایٹمی سائنس دان ہے ہم جب اس کی عالمانہ گفتگو درمیان میں چھوڑ کر آگے بڑھے تو لگا اسے ہماری جہالت اور علم کی ناقدری کا دکھ ہوا ہے ۔

میں نے یہاں کھانا تقسیم ہوتے بھی دیکھا بہت معقول تھا ،مریضوں کے کپڑے بھی صاف تھے خواتین کے وارڈ الگ تھے مجموعی طور پر مجھے یہ فضا بہتر لگی چنانچہ بڑے پاگل خانے سے اس چھوٹے پاگل خانے میں رہائش کا آئیڈیا برا نہیں ہے، اللہ جانے مریض یہاں رہنا کیوں نہیں چاہتے چنانچہ ان میں سے اکثر کہتے ہیں انہیں یہاں جمع کرایا گیا ہے وہ یہ نہیں کہتے کہ داخل کرایا گیا ہے ۔میں جب ڈاکٹر نعمان سے اجازت لے کر اپنی گاڑی میں واپس جا رہا تھا تو ایک مریض نے ہاتھ کے اشارے سے رکنے کے لئے کہا ڈرائیور نے بریک لگا دی وہ میری سائڈ کی کھڑکی کی طرف آیا اور بڑے مہذب انداز میں کہا ’’میں ٹھیک ہو گیا ہوں اور اب واپس گھر جانا چاہتا ہوں آپ پلیز مجھے باہر اتار دیں‘‘مگر وہ ٹھیک نہیں ہوا تھا اور نہ اسے ڈسچارج کیا گیا تھا وہ یہاں سے بھاگ کر اپنے بہن بھائیوں کے پاس جانا چاہتا تھا جو اسے یہاں ’’جمع‘‘ کرا کے بھول چکے تھے، یہ مظلوم لوگ ہیں اور معاشرے کے بے ہنگم اور نا ہموار نظام کا شکار ہیں، میں نے اپنے آنسو چھپاکررکھ لئے ہیں انہیں بہت جلد اپنے کالم میںبہائوں گا ۔