وفاقی وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے کہا ہے کہ عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے ساتھ 170 ارب روپے کے نئے ٹیکس لگانے کا اتفاق ہوا ہے۔
اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان نے اپنے دور حکومت میں آئی ایم ایف کے ساتھ جو معاہدہ کیا تھا پی ڈی ایم کی حکومت اس کو پورا کر رہی ہے، ریاست کی جانب سے کیے گئے معاہدے کا اطلاق کر رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ ایک پرانا معاہدہ ہے جو معطل بھی ہوا، اس میں تاخیر بھی ہوئی، اس پس منظر کو آپ ذہن میں رکھیں کہ کس نے یہ معاہدہ کیا تھا اور کب یہ معاہدہ ہوا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہماری حکومت اس معاہدے کا اطلاق کرنے کی کوشش کر رہی ہے، ہم اس پر عمل درآمد کی پوری تگ و دو کر رہے ہیں۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ ہمارے آئی ایم ایف مشن کے ساتھ 10 روز تک مذاکرات جاری رہے جس کے دوران پاور سیکٹر، مالیاتی شعبے سمیت دیگر اہم شعبوں پر تبادلہ خیال اور بات چیت کی گئی۔
اسحٰق ڈار نے کہا کہ گزشتہ روز دوپہر تک ہم نے آئی ایم ایف کے ساتھ تمام اہم معاملات پر مذاکرات مکمل کرلیے تھے، بعد ازاں وزیر اعظم کے ساتھ آئی ایم ایف وفد کی زوم میٹنگ کا بھی انتظام کیا گیا، میٹنگ کے دوران طے شدہ معاملات پر گفتگو کی گئی اور وزیر اعظم نے کہا کہ ہم اپنی کمٹمنٹ پوری کریں گے۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ آئی ایم ایف کی جانب سے ہمیں اقتصادی اور مالیاتی پالیسیوں کی یادداشت (ایم ای ایف پی) کا ڈرافٹ آج صبح 9 بجے فراہم کردیا گیا ہے جس کا ہم جائزہ لیں گے اور پھر ان کے ساتھ ہماری پیر کے روز ورچوئل میٹنگ ہوگی، ہم اس کو آگے لیکر چلیں گے، اس عمل میں مزید چند روز لگیں گے۔
انہوں نے کہا کہ کچھ ایسے سیکٹرز ہیں جن کی اصلاح کرنا پاکستان کے اپنے مفاد میں ہے، ہم یہ برداشت نہیں کرسکتے کہ ملک کے کئی شعبے اسی طرح خسارے میں چلتے رہیں، معیشت اسی طرح غلط پالیسیوں کے تحت چلتی رہے، گزشتہ 5 برسوں کے دوران ہم نے 24 ویں بڑی معشیت سے اس کو 47 ویں نمبر پر آگئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ملک کے قرضے 70 فیصد بڑھ گئے، ناکام پالیسیوں کی وجہ سے مہنگائی کا طوفان آگیا، شرح سود آسمان پر لے گئے، ڈیٹ سروسنگ 5 ہزار ارب کے قریب پہنچا دیا، اس کے ذمے دار وہ لوگ ہیں جنہوں نے اس کو غلط طریقے سے چلایا۔
ان کا کہنا تھاکہ اب ہمیں اس صورتحال کو ٹھیک کرنا ضروری ہے، بجلی سیکڑ کی لاگت 3 ہزار ارب روپے ہے جبکہ ریکوری صرف 18 سو ارب ہے، اس کی وجہ سے گردشی قرض میں اضافہ ہوتا ہے، اس لیے ہمیں اصلاحات کرنی ہوں گی، یہ اقدامات ہمارے لیے تکلیف دہ ہوں گے لیکن ہمیں ان کو کرنا ہوگا۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ 2013 میں بھی ہم نے اصلاحات کی تھیں، ہم اب بھی اصلاحات کرنے کے لیے تیار ہیں، آئی ایم ایف وفد کے ساتھ مذاکرات نتیجہ خیز رہے، تمام معاملات کلیئر اور واضح ہیں، کسی قسم کا کوئی ابہام نہیں ہے، کوشش کریں گے کہ پاکستان تاریخ میں دوسری مرتبہ آئی ایم ایف پروگرام مکمل کرے۔
وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ 170 ارب روپے کے نئے ٹیکس لگانے کا اتفاق ہوا ہے، کوشش کریں گے کہ کوئی ایسا ٹیکس نہ لگائیں جس سے غریب طبقہ اور عام آدمی براہ راست متاثر ہو۔
انہوں نے کہا کہ توانائی سیکٹر میں طے شدہ اصلاحات کو نافذ کریں گے، گیس سیکٹر اور توانائی سیکٹر میں بڑھتے خسارے کو روکیں، ان ٹارگٹڈ سبسڈی کو کم سے کم کریں، پیٹرولیم سیکٹر میں بھی سرکلر ڈیٹ کو کم کرنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پیٹرولیم ڈیولپمنٹ لیوی کا ٹارگٹ حاصل کیا جا چکا ہے جب کہ ڈیزل پر پیٹرولیم ڈیولپمنٹ لیوی اس وقت 40 روپے فی لیٹر ہے جسے بڑھا کر 50 روپے کیا جائے گا، اس کو یکم مارچ اور یکم اپریل کو 5، 5 روپے بڑھا کر پورا کیا جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نے آئی ایم ایف کو معاہدے پر عمل درآمد کی یقین دہانی کرائی ہے، پاکستان آئی ایم ایف پروگرام پورا کرے گا۔
وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کا بجٹ 360 ارب روپے سے بڑھا کر 400 ارب روپے کیا جائے گا تاکہ ملک کے غریب طبقے کو ریلیف فراہم کیا جاسکے۔
اسحٰق ڈار کا کہنا تھا کہ نئے ٹیکس لگانے کے لیے منی فنانس آرڈیننس لانا پڑے گا۔