پاکستان میں زلزلے کی افواہیں: کیا زلزلوں کی پیشگوئی کرنا ممکن ہے؟
ترکی اور شام میں پیر کے روز آنے والے زلزلے کے بعد پاکستانی سوشل میڈیا پر یہ افواہیں بھی گردش کرتی رہیں کہ ترکی میں زلزلے کے بعد جلد ہی پاکستان میں بھی اسی شدت کا زلزلہ آ سکتا ہے۔
واضح رہے کہ اس زلزلے میں اب تک 16 ہزار کے قریب افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور حکام کی جانب سے مزید ہلاکتوں کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔
امریکی جیولوجیکل سروے کے مطابق یہ زلزلہ 7.8 شدت کا تھا اور اس کی گہرائی 17.9 کلومیٹر تھی۔
زلزلوں کے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ترکی میں آنے والے سب سے بڑے زلزلوں میں سے ایک تھا اور بچ جانے والے افراد کا کہنا ہے کہ زمین دو منٹ تک ہلتی رہی۔
اسی دوران نیدرلینڈز سے تعلق رکھنے والے ایک محقق فرینک ہوگربیٹس کی جانب سے کی گئی ایک ٹویٹ بھی سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہے جس میں اُنھوں نے تین فروری کو کہا تھا کہ جلد یا بدیر 7.5 شدت کا ایک زلزلہ اس خطے (جنوبی و وسطی ترکی، اردن، شام، اور لبنان) میں تباہی مچائے گا۔
چنانچہ اس ٹویٹ کے صرف تین دن بعد ہی تقریباً اتنی ہی شدت کے زلزلے کے اس خطے میں آنے کے بعد لوگ یہ سوال کر رہے ہیں کہ کیا زلزلوں کی پیش گوئی کی جا سکتی ہے؟
اس کے علاوہ ان کے ادارے کی جانب سے 30 جنوری کو ایک اور ٹویٹ کی گئی تھی جس میں اُنھوں نے بنگلہ دیش اور چین کے علاوہ پاکستان و افغانستان کے متعدد علاقوں میں ارضیاتی سرگرمی میں اضافے کا امکان ظاہر کیا تھا۔
یہ کہا گیا تھا کہ ان جامنی پٹیوں والے علاقوں یا ان کے قریب اگلے ایک سے چھ دن تک شدید ارضیاتی سرگرمی کا امکان موجود ہے اور ساتھ ہی یہ بھی کہا تھا کہ ان پٹیوں سے باہر موجود علاقے اس امکان سے خارج نہیں ہیں۔
چنانچہ اس کے فوراً بعد ہی پاکستانی سوشل میڈیا پر یہ افواہیں گردش کرنے لگیں کہ زلزلے کا اگلا نشانہ پاکستان بن سکتا ہے اور اس ادارے سمیت فرینک کی ٹوئٹر ٹائم لائن پر کئی لوگ یہ پوچھتے نظر آئے کہ وہ پاکستان کے بارے میں خصوصی طور پر زلزلے کے امکان کے بارے میں بات کریں۔
تاہم بدھ کو رات گئے پاکستان کے محکمہ موسمیات نے ان افواہوں کو مسترد کیا اور کہا کہ پاکستان میں زلزلوں کا امکان ہمیشہ رہتا ہے مگر ان کی پیشگوئی نہیں کی جا سکتی۔
محکمہ موسمیات نے کہا کہ پاکستان اور ترکی میں موجود فالٹ لائنز کے درمیان کوئی براہِ راست تعلق نہیں ہے جو پاکستان، ایران اور افغانستان میں بھی زلزلوں کی وجہ بن سکے۔
محکمے کے مطابق پاکستان اور اس کے پڑوسی ممالک میں کسی بڑے زلزلے کا امکان ہمیشہ موجود رہتا ہے مگر یہ کب اور کہاں آئیں گے، یہ بتانا موجودہ ٹیکنالوجی کے بس سے باہر ہے۔
کیا سیاروں کی گردش زلزلوں کا پتا دے سکتی ہے؟
فرینک ہوگربیٹس کا دعویٰ ہے کہ آسمان میں سیاروں کا محلِ وقوع زلزلوں کی وجہ بن سکتا ہے۔
تاہم سائنسی برادری میں اس حوالے سے اتفاق موجود ہے کہ زلزلوں کی پیش گوئی کرنے کا کوئی طریقہ فی الوقت سائنس کے پاس موجود نہیں اور نہ ہی ان کے مطابق ایسا کوئی طریقہ مستقبل میں تیار ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے۔
امریکی جیولوجیکل سروے دنیا میں زلزلوں پر نظر رکھنے اور تحقیق کرنے والے صفِ اول کے اداروں میں سے ایک ہے اور اس ادارے کا کہنا ہے کہ اس نے اور نہ دیگر سائنسدانوں نے کبھی کسی بڑے زلزلے کی پیش گوئی کی ہے۔
ادارے کے مطابق ہم ابھی بھی نہیں جانتے کہ پیشگوئی کیسے کی جائے بلکہ اس کے صرف امکان کا حساب لگایا جا سکتا ہے کہ فلاں علاقے میں اتنے برس میں ایک بڑا زلزلہ آنے کا کتنا امکان ہے۔
جیولوجیکل سروے کے مطابق زلزلے کی پیشگوئی میں تین چیزوں کا ہونا ضروری ہے، یعنی وقت اور تاریخ، مقام، اور شدت۔ اگر کوئی ’پیشگوئی‘ ان میں سے تینوں چیزیں فراہم نہیں کرتی تو اسے ایک غلط پیشگوئی تصور کیا جائے گا۔
فرینک ہوگربیٹس جس ادارے سولر سسٹم جیومیٹری سروے کے ساتھ وابستہ ہیں وہ باقاعدگی سے سیاروں کی پوزیشنز کا جائزہ لے کر کچھ امکانات ظاہر کرتا ہے کہ کس علاقے میں ارضیاتی سرگرمی دیکھنے میں آ سکتی ہے۔
واضح رہے کہ ترکی میں آنے والے اس زلزلے سے قبل جب اس ادارے نے اپنی ایک ویڈیو جاری کی تھی تو انھوں نے مغربی چین، پاکستان، افغانستان، انڈیا اور مشرقی چین کے درمیان کے علاقے میں ارضیاتی سرگرمی میں اضافے کا کہا تھا مگر ترکی میں زلزلے کے امکان کے حوالے سے کوئی تاریخ نہیں دی گئی تھی، چنانچہ اسے امریکی جیولوجیکل سروے کے مطابق ’پیشگوئی‘ نہیں کہا جا سکتا اور سائنسدان زلزلے کے ’امکان‘ اور ’پیشگوئی‘ میں فرق کرنے کے قائل ہیں۔
امریکی جیولیوجیکل سروے کے مطابق حالیہ کئی تحقیقی مطالعوں میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ چاند کی وجہ سے زمین کی سطح اور سمندر کی لہروں کے بلند ہونے اور کچھ طرح کے زلزلوں کے درمیان ایک تعلق موجود ہے مگر اس کے نتیجے میں جو امکان بڑھتا ہے، وہ تب بھی بے حد کم ہی رہتا ہے۔
اسی طرح امریکہ کی برکلے یونیورسٹی کے مطابق اِجرامِ فلکی کے محلِ وقوع کی وجہ سے زلزلوں کی شرح اور ٹیکٹونک پلیٹس کی حرکت پر کوئی خاص اثر نہیں پڑتا۔
زلزلوں کی پیشگوئی کرنے کے لیے مختلف طریقوں پر کام جاری ہے جن میں زلزلے سے پہلے جانوروں کے رویے کا جائزہ لینا اور اس کی بنیاد پر زلزلے کی پیشگوئی کرنا شامل ہے۔ کچھ مطالعوں میں ان کے درمیان تعلق تو پایا گیا ہے مگر اب بھی اس حوالے سے سائنسی برادری کسی حتمی اور ٹھوس نتیجے پر نہیں پہنچی ہے، چنانچہ جانوروں کا پہلے ہی محفوظ ٹھکانے کی جانب چلے جانا اب بھی سائنسی طور پر ثابت شدہ نہیں ہے۔
کیا کوئی پیشگی اقدامات کیے جا سکتے ہیں؟
ایک صحافی الیا ٹوپر نے فرینک ہوگربیٹس کے جواب میں کہا کہ زلزلے سے نقصان روکنے کا واحد طریقہ محفوظ عمارتیں بنانا ہے، یہ نہیں کہ حکام روزانہ لوگوں کو مہینوں اور برسوں تک گھروں سے رات باہر گزارنے کا کہتے رہیں۔
واضح رہے کہ سنہ 2009 میں اٹلی کے شہر لا اقوئیلا میں آنے والے ایک خوفناک زلزلے میں 300 سے زائد افراد ہلاک ہو گئے تھے جس کے بعد چھ سائنسدانوں اور ایک سرکاری عہدیدار پر مقدمہ چلایا گیا تھا کہ اُنھوں نے زلزلے کا خطرہ ہونے کے باوجود اسے گھٹا کر پیش کیا جس کی وجہ سے کئی لوگ ہلاک ہو گئے۔
یہ ٹرائل سات برس تک جاری رہا جس کے بعد ان تمام افراد کو رہا کر دیا گیا مگر اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ زلزلوں کی پیشگوئی کرنا کتنا مشکل کام ہے، یا تو ایسی پیشگوئیاں افراتفری پھیلا سکتی ہیں یا پھر اگر ان میں کوئی غلطی ہو جائے تو لوگوں میں تحفظ کا ایک بے بنیاد احساس پیدا ہو سکتا ہے۔
اور اگر واقعی کوئی پیشگوئی درست ثابت ہو بھی جائے، تب بھی انخلا کے منصوبوں اور زلزلے سے محفوظ عمارتوں کی ضرورت بہرحال رہے گی۔
امریکی جیولوجیکل سروے کی سائنسدان سوزن ہو کہتی ہیں کہ ’اگر آپ زلزلے کے خلاف مزاحمت اور تحفظ پیدا کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو خطرے اور زلزلے سے ہونے والی حرکت کا اندازہ لگا کر اس حساب سے عمارتیں تعمیر کرنی چاہییں، پیسے کا بہتر استعمال یہی ہو گا۔‘