رام چرت مانس: قدیم ہندو نظم جس نے انڈیا میں سیاسی طوفان برپا کر رکھا ہے
مقبول ہندو دیوتا رام کی زندگی پر مبنی 16 ویں صدی کی طویل نظم انڈیا میں ایک بہت بڑی سیاسی کشیدگی کی وجہ بن گئی ہے۔
رام چرت مانس کو بہت سے سکالرز نے دنیا کی عظیم ترین ادبی تخلیقات میں شمار کیا ہے۔ مشہور مصنف پون ورما اسے ’ایک گہرا فلسفیانہ کام‘ کہتے ہیں جو ’بہت سے ہندوؤں کے لیے بائبل کے مترادف ہے‘۔
تلسی داس کی رام چرت مانس میں رامائن کی کہانیوں کو نظم کی شکل دی گئی ہے۔ رامائن، رام اور سیتا کی دیو مالائی کہانیوں پر مبنی ہے جسے ہندو مذہب میں انتہائی مقدس مقام حاصل ہے۔ سنسکرت زبان میں لکھی گئی رامائن کو ہندو بابا والمیکی نے 2500 سال پہلے لکھا تھا۔ بڑے پیمانے پر مانا جاتا ہے کہ تلسی داس کی نظم نے، جو ہندی سے ملتی جلتی بولی اودھی میں لکھی گئی ہے، رام کی کہانی کو عوام کے لیے قابل رسائی بنایا اور یہی اس نظم کی مقبولیت کی وجہ بنی۔
ایودھیا کے ولی عہد کی شیطان بادشاہ راون پر فتح کی کہانی ہر سال انڈیا بھر میں دسہرہ کے تہوار کے دوران میلوں میں پیش کی جاتی ہے۔ وہ ایک ایسے دیوتا ہیں جن کے انصاف اور ایمانداری کے لیے لاکھوں ہندو انھیں پوجھتے ہیں۔
لیکن گذشتہ چند ہفتوں میں، سیاسی مخالفین اس بات پر بحث کر رہے ہیں کہ آیا اس نظم کا متن خواتین کے ساتھ ساتھ انڈیا کے انتہائی امتیازی ذات پات کے نظام میں سب سے کم درجہ رکھنے والی دلت ذات کے لیے بھی توہین آمیز ہے۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے جب تلسی داس کی 600 سال پہلے لکھی گئی نظم کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہو، لیکن اس بار جو چیز مختلف ہے وہ اس کے حامیوں اور ناقدین دونوں کے احتجاج کا پیمانہ ہے۔
انڈیا میں عام انتخابات ایک سال میں ہونے والے ہیں اور دونوں اطراف کے سیاست دان ایک دوسرے پر کتاب کے تنازع کو ذات پات کی بنیاد پر ووٹروں کو پولرائز کرنے کے لیے استعمال کرنے کا الزام لگاتے ہیں۔
جنوری میں شروع ہونے والے مظاہروں میں مظاہرین نے مبینہ طور پر کتاب کے اقتباسات پر مشتمل صفحات کو جلایا اور جوابی مظاہروں میں ناقدین کو گرفتار کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔
مقدس اوراق کی بے حرمتی کے الزام میں کم از کم پانچ افراد کو گرفتار کیا گیا ہے اور پولیس نے گرفتار کیے گئے دو افراد کے خلاف نیشنل سکیورٹی ایکٹ کے تحت کارروائی کی جو کہ ایک سخت قانون ہے جس میں ضمانت نہیں ہوتی۔
مسئلہ جنوری میں اس وقت شروع ہوا جب شمالی ریاست بہار کے ایک وزیر نے کہا کہ کتاب ’معاشرے میں نفرت پھیلا رہی ہے‘۔ یونیورسٹی کے طلبا کے ایک اجتماع میں وزیر تعلیم چندر شیکھر نے اپنی بات کو ثابت کرنے کے لیے رام چرت مانس کی چند سطریں سنائیں۔
’اس میں کہا گیا ہے کہ اگر نچلی ذات کے لوگ تعلیم حاصل کرلیں تو وہ زہریلے ہو جاتے ہیں جیسے دودھ پینے کے بعد سانپ زہریلے ہو جاتا ہے۔‘
کچھ دنوں بعد، سوامی پرساد موریہ، سماجی طور پر پسماندہ طبقے کے ایک سرکردہ رہنما، جسے دیگر پسماندہ طبقات (او بی سی) کہا جاتا ہے اور ریاست اتر پردیش میں علاقائی سماج وادی پارٹی کے رکن، انھوں نے بھی اسی طرح کے جذبات کا اظہار کیا۔
اس بات پر اصرار کرتے ہوئے کہ رام چریت مانس کی کچھ سطریں ’ناگوار‘ ہیں، انھوں نے مطالبہ کیا کہ انھیں کتاب سے ہٹا دیا جائے۔
انڈین ایکسپریس نے ان کے حوالے سے کہا ’مذہب کے نام پر گالی کیوں دی ہے؟ میں تمام مذاہب کا احترام کرتا ہوں، لیکن اگر مذہب کے نام پر کسی کمیونٹی یا ذات کی تذلیل کی جاتی ہے تو یہ قابل اعتراض ہے‘۔
بدھ کو انھوں نے ایک خط ٹویٹ کیا جو انھوں نے وزیر اعظم اور انڈیا کے صدر کو لکھا ہے، جس میں ان سے کہا گیا ہے کہ ’ان قابل اعتراض تبصروں کو ہٹا دیں، جو خواتین، قبائلیوں، دلتوں اور پسماندہ لوگوں کے لیے ہتک اور توہین آمیز ہیں۔‘
بہار میں حکومت کرنے والی راشٹریہ جنتا دل پارٹی کے رہنما چندر شیکھر اور موریا کے تبصرے نے ہندو قوم پرست گروپوں کے ساتھ ساتھ سیاستدانوں کو آگ بگولہ کر دیا۔ انڈیا کی حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ارکان بھی ان پر تنقید کر رہے ہیں۔
بی جے پی سیاست دان نند کشور گرجر نے کہا کہ انھوں نے سپریم کورٹ کو خط لکھ کر سوامی پرساد موریہ کو سزائے موت دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ ایودھیا کے ایک ممتاز ہندو پیروکار نے بہار کے وزیر سے معافی مانگنے اور انھیں برطرف کرنے کا مطالبہ کیا۔
اتر پردیش میں، مظاہرین نے پرساد موریہ کے پتلے جلائے اور ان کی گرفتاری کا مطالبہ کرتے ہوئے پولیس میں شکایت درج کرائی۔
جلد ہی موریہ کی حمایت کرنے والے گروپ بھی اس میں شامل ہو گئے۔ لکھنؤ شہر میں ان کی حمایت میں اکھل بھارتیہ او بی سی مہاسبھا کے ممبران کے ایک احتجاج میں، رام چریت مانس کے اقتباسات پر مشتمل کچھ صفحات کو جلا دیا گیا۔
تنازع نے رام چرت مانس کے ارد گرد ایک بحث کو بھی نئی شکل دی ہے کہ کیا اس ملک میں تنقید کی کوئی گنجائش ہے جہاں کا آئین تمام انڈینز کو برابر قرار دیتا ہے۔
حقوق نسواں کے ماہرین نے برسوں سے اس کی مذمت کی ہے، خاص طور پر وہ لائنیں جو کہتی ہیں کہ ’ایک ڈھول، ایک ان پڑھ آدمی، ایک دلت اور ایک عورت، سب کو پیٹنے یا سرزنش کرنے کی ضرورت ہے۔‘
دہلی کی جامعہ یونیورسٹی کی پروفیسر ہیملتا مہیشور نے بی بی سی ہندی کو بتایا کہ رام چرت مانس میں یہ صرف ایک یا دو لائنیں نہیں ہیں بلکہ کئی جملے ہیں ’جو خواتین اور دلتوں کے لیے توہین آمیز ہیں۔‘
ان کے بقول ’ایک شعر ہے جو کہتا ہے کہ برہمن کی پوجا کی جائے چاہے وہ برائیوں سے بھرا ہو۔ جب کہ ایک دلت خواہ وہ ویدک عالم کیوں نہ ہو، اس کی عزت نہیں کی جا سکتی۔ تو ہم ایسی کتاب کو کیسے قبول کر سکتے ہیں جو اس قدر متعصب ہو؟‘
تاہم، بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ تلسی داس ایک اصلاح پسند نہیں تھے اور اس کے تعصبات تھے، لیکن متنازع سطریں ان کے کردار بولتے ہیں اور اسے مصنف کی رائے کا عکاس نہیں سمجھا جا سکتا۔
رام چرت مانس کے ماہر اکھلیش شانڈیلیا نے بی بی سی ہندی کو بتایا کہ یہ سطریں دلتوں کے لیے تضحیک آمیز اور خواتین مخالف تب ہی لگتی ہیں جب سیاق و سباق سے ہٹ کر پڑھی جاتی ہیں۔
لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ رام چرت مانس کو موجودہ دور کے تناظر میں دیکھا جانا چاہیے اور اس کی جانچ پڑتال اور باس پر حث ہونی چاہیے، خاص طور پر چونکہ یہ ایک ایسی کتاب ہے جو انڈینز کے تخیل پر اس طرح کی گرفت رکھتی ہے۔