سیاستدان اور بلھے شاہ مرا نہیں کرتے
یاد کی باز آفرینی کا موسم آن پہنچا ہے۔ گزری صدی کی کسی غیرمتعین رات میں ایک نادانستہ حادثے سے جنم لینے والے سفر کا بڑا حصہ کٹ چکا۔ زندگی کا احسان ہے کہ اس نے بن مانگے اپنا آپا دکھایا۔ خوشی کے رنگ دیکھے۔ موسموں کے بھید پائے، سبز پتوں سے لدی تہ در تہ شاخوں سے گزرتی ہوائو?ں کی سمپورن سرگم سے سرشار ہوئے۔ تیز رفتار آبی دھاروں کے بیچوں بیچ دوستی کے استوار پتھروں پر پائو?ں دھرتے محفوظ کناروں تک پہنچے۔ محبت کی سرگوشی سے آشنائی ہوئی۔ لمس کی سرخوشی سے ہم کنار ہوئے۔ ان دیکھی راہ کے اس سفر میں بہت کچھ ناخوشگوار بھی درپیش ہوا۔ کثافت کو لطافت میں مبدل کرنے کی سعی ہی عطائے نفس کی خوش ادائی ٹھہری۔ اس میں کامیابی اور ناکامی حتمی میزانیے میں کچھ فرق نہیں رکھتی۔ قطرہ نیساں کا ایک پل کی پلک پر رکنا اور پھر وقت کے بے کراں سمندر میں گم ہو جانا۔ ساعت بھر کی یہ لرزاں نمود اور پھر لامتناہی فنا۔ ہر لمحے میں ان گنت قطرے نشان چھوڑے بغیر موج میں جذب ہوتے، ریت ساگر کے ذرے بنتے مٹتے ٹیلوں میں گم ہوتے اور کائنات میں چاروں اور پھیلی تاریکی میں ٹوٹتے گرتے اربوں ستارے۔ وہی غالب کا قطرے میں دجلہ دیکھنے اور دکھانے کا کھیل ہے۔ سمٹے تو دل عاشق، پھیلے تو زمانا ہے۔ دل عاشق کا ایک دعویٰ تو اٹھارہویں صدی میں بلھے شاہ نے کیا تھا۔ بلھے شاہ اسیں مرنا ناہیں، گور پیا کوئی ہور۔ بلھے شاہ کو اپنے زمانے کے خود ساختہ بڑوں نے قصور کی آبادی میں تدفین کی اجازت نہیں دی تھی۔ آج قصور شہر چل کر بلھے شاہ کے مدفن کو ہالہ کیے ہوئے ہے۔ زہد و ورع کے خود ساختہ پتلوں کا کہیں نشان نہیں۔ ایسا ہی ایک دعویٰ ہمارے زمانے کے دو بڑوں نے بھی کیا تھا۔ 11ستمبر 1973کو امریکی سی آئی اے کی فراہم کردہ بندوقوں اور ڈالروں سے مونہا منہ بھرے بھاڑے کے جنرل چلی کے دارالحکومت سان ڈیاگو میں صدارتی محل تک آ پہنچے تو 65 سالہ منتخب صدر سیلوا ڈور الاندے (Salvador Allende) ایک مشین گن اٹھائے سڑک پر نکل آیا۔ اپنے لوگوں سے اس کے آخری خطاب کا ایک جملہ بامعنی زندگی اور غیرمرتب اقتدار میں لکیر بیان کرتا ہے۔ Social processes can be arrested neither by crime nor force.History is ours and people make history۔ (سماجی ارتقا کو جرم یا سازش کے ذریعے روکا نہیں جا سکتا۔ تاریخ پر ہمارا استحقاق ہے اور تاریخ عوام بناتے ہیں۔ ) الاندے تاریخ میں زندہ ہے۔ 40000 سیاسی مخالفوں کی اجتماعی قبروں میں تدفین کو کفایت شعاری سے تعبیر کرنے والے پنوشے کو 10 دسمبر 2006 کو موت کے بعد نامعلوم مقام پر نذر آتش کیا گیا تاکہ اس کی قبر کو مشتعل عوام سے محفوظ رکھا جا سکے۔ چلی میں بغاوت کے ٹھیک پانچ برس بعد پاکستان کی زمین نے بھی ایک سیاستدان اور عوام دشمن باوردی جنتا میں کشمکش کا میدان سجایا تھا۔ سیاستدان نے جیل کی کوٹھری میں لکھا تھا کہ I would rather die at the hands of the military than die in history (میں تاریخ میں مرنے کی بجائے جرنیلوں کے ہاتھوں مرنا پسند کروں گا)۔ بھٹو کی خواہش پوری ہوئی۔ بھٹو کی سیاسی جماعت نصف صدی بعد بھی پاکستان کی سیاست میں کلیدی دھارے کی حیثیت رکھتی ہے۔ بھٹو اور الاندے دونوں نے تاریخ سے سند مانگی تھی جو انہیں مل گئی۔ آج کے چلی میں پنوشے کی سیاسی وراثت ماضی کی گرد میں دفن ہو چکی ہے۔ پاکستان میں بھی آج کوئی نہیں جو اسکندر مرزا کی ریپبلکن پارٹی کا نام لیوا ہو، جو ایوب خان کی کنونشن لیگ کے نام پر الیکشن لڑنا چاہے۔ کوئی نہیں جو نوابزادہ شیر علی خان پٹودی کے افکار کا شارح ہو، جسے پی این اے کی نظام مصطفیٰ تحریک کے احیا کی توفیق ہو، آج کے پاکستان میں کسی کو ’’ضیا کے مشن‘‘ کی تکمیل کا یارا نہیں، کوئی نہیں جسے آئی جے آئی سے وابستگی کا دعویٰ ہو، ایم کیو ایم اور قاف لیگ کی ٹھیکریاں کوچہ و بازار میں بکھری ہیں۔ گزشتہ دہائی میں کاشت کیا گیا بونسائی سیاسی پودا ممکنہ حد تک ملک کو سیاسی بے یقینی اور معاشی بحران کے سپرد کر کے بحیرہ عرب میں ڈوب جائے گا۔
گزشتہ دنوں جنرل (ر) پرویز مشرف انتقال کر گئے۔ ایم ایم اے اور پیٹریاٹ بنانے والے جنرل صاحب نے جون 2010 میں آل پاکستان مسلم لیگ کے نام سے اپنی سیاسی جماعت بھی بنائی تھی۔ 24 مارچ 2013 کو پرویز مشرف اپنی آنکھوں میں بے نظیر بھٹو کے اپریل 1986 اور اکتوبر 2007 جیسے تاریخی استقبال کا خواب لئے کراچی ائرپورٹ پر اترے تو چند سو افراد بھی ائرپورٹ پر نہیں تھے۔ 5 فروری 2023 کو پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کو سیاست سے باہر کرنے کا بار بار اعلان کرنے والے پرویز مشرف نے دبئی کے ایک اسپتال میں جان جان آفریں کے سپرد کی تو کراچی ائرپورٹ پر ان کا جسد خاکی وصول کرنے والوں میں ان کی سیاسی جماعت آل پاکستان مسلم لیگ کا ایک بھی عہدیدار نظر نہیں آیا۔ کٹی پھٹی پارلیمنٹ کے ارکان نے بھی ان کے لئے دعائے مغفرت سے انکار کر دیا۔ جماعت اسلامی کے قدامت پسند سینیٹر مشتاق احمد تک نے اس رسمی دعا میں شرکت سے معذرت کر لی۔ البتہ ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی کے چند ارکان پرویز مشرف کے حق میں نعرے بازی کرتے رہے۔ ایک گروہ لسانی عصبیت کا اظہار کر رہا تھا اور دوسرے کو اپنے حقیقی ’’غیر سیاسی‘‘ حلقہ انتخاب کی خوشنودی کی تلاش تھی۔ اقبال کے لفظوں میں یہ منظر سلطانی جمہور کے ارتقا کا نشان تھا۔ حقیقی سیاست دان کی حتمی وابستگی اپنی زمین اور اس زمین کے خاک نشینوں سے ہوتی ہے۔ سیاست دان ریٹائر نہیں ہوتا اور اس کی سیاسی وراثت ’محروم الارث‘ نہیں ہوتی۔ سیاست کسی قوم کے تمدنی تسلسل کی ضمانت ہے۔ سازش، بغاوت اور جرم طاقت کے بل پر قومی ارتقا میں تعطل کا نام ہے۔ اس کے پس پشت عوامی تائید نہیں ہوتی، محض چند حادثاتی ’’رفقائے کار‘‘ کا مفاد باہمی کارفرما ہوتا ہے جو کندھوں پر سجے ستارے ڈوبتے ہی اوجھل ہو جاتا ہے۔