صحافت میرا مشغلہ نہیں 1975سے رزق کمانے کا واحد ذریعہ ہے۔ عمر کے آخری حصے میں داخل ہونے کے بعد فکر مگر اب یہ لاحق ہوچکی ہے کہ زندگی کے جو سال بچے ہیں ان کے دوران محض صحافت پر اکتفا کئے ہوئے اپنا معیار زندگی برقرار رکھ پائوں گا یا نہیں۔ ’’معیار زندگی‘‘ کو برائے مہربانی خوش حالی کا مترادف تصور نہ کیا جائے۔سفید پوشی کی وہ سطح برقرار رکھنے کی بات ہورہی ہے جو آسودہ متوسط طبقے سے تعلق رکھنے کا بھرم تراشتی ہے۔ میری پریشانی سمجھنے کے لئے یاد یہ بھی رکھنا ہوگاکہ صحافی ’’ریٹائر‘‘ نہیں ہوتے۔ اس شعبے میں ’’پنشن‘‘ کا تصور بھی موجود نہیں۔اسی باعث آپ اکثر یہ خبر سنتے ہیں کہ ماضی کا بہت مشہور رہا کوئی صحافی جان لیوا مرض میں مبتلا ہونے کے بعد اپنے علاج کے لئے مدد کا منتظر ہے۔
میری نسل کے صحافیوں کے لئے اخبارات رزق کا واحد وسیلہ تھے۔ اس صدی کے آغاز کے ساتھ مگر انٹرنیٹ متعارف ہوگیا۔ بعدازاں ہمارے ہاں 24/7چلنے والے ’’نیوز چینل‘‘ بھی نمودار ہوگئے۔ پاکستان ہی نہیں دنیا بھر میں ان دونوں ذرائع کے پھیلائو کی وجہ سے آندرے میر جیسے محققین نے ٹھوس اعدادوشمار کا تجزیہ کرتے ہوئے ’’اخبار کی موت‘‘ کا اعلان کردیا۔
’’اخبار‘‘ مگر ابھی مرے نہیں۔زندہ رہنے کی جاں گسل جدوجہد کررہے ہیں۔ حال ہی میں امریکہ میں ایک سروے ہوا ہے۔اس کے نتائج بتارہے ہیں کہ ابھی تک اس ملک کے 16فی صد لوگ ’’خبر‘‘ کے حصول کے لئے اخبارات سے رجوع کررہے ہیں۔ آج سے بیس سال قبل یہ تعداد 35فی صد تھی۔ گزشتہ دہائی میں 25فی صد تک گرگئی۔
’’اخبار‘‘ سے لاتعلقی کی بڑھتی ہوئی تعداد آپ کو یہ فرض کرنے کو اُکساتی ہے کہ لوگوں نے ’’خبر‘‘ کے حصول کے لئے ٹی وی چینلوں کا رخ کرلیا ہوگا۔ جس سروے کا میں ذکرکررہا ہوں وہ مگر یہ حیران کن اطلاع بھی دیتا ہے کہ امریکہ کے فقط 11فی صد افراد ٹی وی چینلوں کا اعتبار کرتے ہیں۔ 53فی صد کی بھاری بھر کم تعداد ان سے ملی خبروں یا تجزیے پر اعتبار کو تیار نہیں۔اس سروے نے امریکی صحافیوں کو پریشان کردیا ہے۔ انہیں ’’اعتبار‘‘ کھودینے کا غم لگ گیا ہے۔ بحث اب یہ ہورہی ہے کہ ’’اعتبار‘‘ کا احیاء کیسے ممکن بنایا جائے۔
امریکی سروے کے نتائج سے حواس باختہ ہوا ہفتے کی رات بستر پر کروٹیں لے رہا تھا کہ میرے ٹویٹر اکائونٹ پر ایک اور سروے کے نتائج بھی نمودار ہوئے۔ وہ دعویٰ کررہے تھے کہ ’’نیوز اور کرنٹ افیئرز‘‘ کے لئے مختص کئے ٹی وی چینلز اب محض 19فیصد پاکستانی دیکھتے ہیں۔40فی صد کا رخ ان چینلوں کی جانب ہوچکا ہے جو ’’انٹرٹینمنٹ‘‘پر انحصارکرتے ہیں۔مذکورہ سروے کو بنیاد بناتے ہوئے سوشل میڈیا پر موجود ’’دانشور‘‘ رعونت اور حقارت سے ان اینکر خواتین وحضرات کا تمسخراڑانا شروع ہوگئے جو ان کی دانست میں محض 19فی صد میں سے چند ہزار پاکستانیوں تک رسائی کے باوجود خود کو ’’عقل کل‘‘ تصور کرتے ہیں۔ عوام کی ’’ذہن سازی‘‘ کے خمار میں اِتراتے پھررہے ہیں۔
صحافت کے ’’بے وقعت‘‘ہوجانے کا تمسخراڑاتے ہوئے یہ حقیقت فراموش کردی گئی کہ پاکستان میں عوام کو ’’صحافت‘‘ سے ’’محفوظ‘‘رکھنے کے لئے ہماری ریاست کے طاقت ور ترین ادارے نے کلیدی کردار ادا کیا۔عوام کو سوشل میڈیا کے ذریعے متحرک کرنے والی تحریک انصاف نے اس مہم کا آغاز کیا۔’’پیغام عمران‘‘ پر دیانت دارانہ سوال اٹھانے والے صحافیوں کو ’’چور اور لٹیرے‘‘ سیاستدانوں کے ’’لفافے‘‘ ٹھہرایا گیا۔ وہ بدنام ہوگئے تو ’’پانچویں پشت کی ابلاغی جنگ‘‘کے عنوان سے اخبارات اور ٹی وی سکرینوں کو ’’مفسد‘‘اور ’’وطن دشمن‘‘ خیالات سے پاک کرنے کی کاوشیں شروع ہوگئیں۔ جن اخبارات یا ٹی وی چینلوں نے ’’سیدھی راہ‘‘ پر چلنے میں اڑی دکھائی ان کی رسائی ان رہائشی علاقوں تک ناممکن بنادی گئی جو تعمیر تو’’دفاع‘‘ والوں کے لئے ہوئے لیکن وہاں کے رہائشیوں کی اکثریت خوش حال متوسط طبقات پر مشتمل ہے۔
صحافت کو ’’فسادیوں اور غداروں‘‘سے بچالینے کے بعد ہمارے شعبے پر تقریباََ دس برسوں سے چند صحافیوں کو عوام میں ’’بے پناہ مقبول‘‘ بنانے کے لئے بھی ریاستی سرپرستی میں ہر نوعیت کے حربے استعمال ہوئے۔ ان کی بدولت ’’محب وطن‘‘ بیانیے کا فروغ ہوا۔ مذکورہ بیانیہ لوگوں کے دل ودماغ میں رچ بس گیا تو اپریل 2022ہوگیا۔عوام کی خاطر خواہ تعداد اسے ’’امریکی سازش‘‘ تصور کرنے کو آمادہ ہوئی۔ ’’رجیم چینج‘‘ کی اصطلاح زبان زد عام ہوگئی۔ لوگ سوال اٹھانے لگے کہ عمران خان صاحب جیسے ’’دیانت دار‘‘ وزیر اعظم کو ہٹاکر ان ’’چور اور لٹیروں‘‘ کو اقتدار میں واپس لانے میں مبینہ طورپر ریاست کے دائمی ادارے کیوں رضا مند ہوئے جنہیں 2011سے اخبارات اور ٹی وی سکرینوں کے ذریعے ’’اقتدارمیں باریاں لینے والے بدعنوان اور نااہل‘‘ بناکر رگیدا جارہا تھا۔
جو ’’بیانیہ‘‘ ہماری ریاست نے نہایت سوچ بچار کے بعد اپنی قوت کو بھرپور انداز میں بروئے کار لاتے ہوئے عوام کے ذہنوں میں راسخ کیا تھا اس کا مؤثر توڑ اب دریافت نہیں ہورہا۔بوتل سے نکالا’’جن‘‘ بے قابو ہوا نظر آرہا ہے۔ ایسے حالات میں اخبارات اور ٹی وی صحافت خود کو ’’عوامی جذبات اور خواہشات‘‘ کے ترجمان ثابت کرنے میں ناکام ہورہے ہیں۔’’اعتبار‘‘کھوبیٹھے ہیں۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ریاست کی جانب سے فروغ دئے بیانیے کی بدولت ہمارے ہاں ’’صحافت‘‘ بالآخر اپنی توقیر اور وقعت کھوبیٹھی ہے۔دریں اثناء یوٹیوب چینل نمودار ہوچکے ہیں۔ان پر چھائے ’’ذہن ساز‘‘اشتہارات کے محتاج نہیں۔ مستقل صارفین اور زیادہ سے زیادہ ناظرین کے حصول کی تگ ودو میں مصروف رہتے ہیں۔کمپیوٹر ان کے صارفین اور ناظرین کا ٹھوس انداز میں ’’حساب‘‘ فراہم کردیتا ہے۔اس کے حوالے سے گھر بیٹھے ڈالروں میں رقم وصول ہوجاتی ہے۔کسی بھی نوجوان صحافی کے لئے روایتی اخبارات اور ٹی وی چینلوں کے مقابلے میں ’’یوٹیوب چینل‘‘لہٰذا نہایت پرکشش متبادل ہے۔کسی ادارے سے تنخواہ یا باقاعدہ معاوضے پر کامل انحصار کے بجائے آمدنی کے لئے یوٹیوب کا استعمال تاہم ’’صحافی‘‘ کو مجبور کرتا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ ناظرین تک پہنچنے کے لئے سنسنی خیز مواد تیار کرے۔’’حقائق‘‘ مطلوبہ مواد کی تیاری ممکن نہیں بناتے۔بے پرکی اڑاتے ہوئے لوگوں کے دلوں میں پہلے سے موجود تعصبات کو مزید بھڑکاناپڑتاہے۔ یہ عمل لوگوں کے لئے آپ کو ’’بے باک‘‘ دکھانے کی تسکین بھی پہنچاتا ہے۔ ایسا منہ پھٹ صحافی جو طاقت ور اداروں اور افراد کو کسی خاطر میں نہیں لاتا۔ ’’کھل کے بات‘‘ کرتا ہے۔ ’’کھل کے بات‘‘کرنے والی یوٹیوب صحافت مگر پاکستان جیسے ممالک میں برقرار رکھی نہیں جاسکتی۔ اس حوالے سے میرے خدشات سمجھنا ہوں تو چین،روس،مصر اور برما جیسے ممالک میں ’’سوشل میڈیا‘‘ کی محدودات جاننے کی کوشش کریں۔