پاکستان میں ان دنوں دو قطاریں توجہ حاصل کر رہی ہیں۔ ایک طرف صوبہ پنجاب کے شہر لاہور میں گذشتہ ہفتے کھُلنے والی کینیڈین کافی شاپ ٹِم ہارٹنز کے باہر لگی لائن جس میں لوگ بڑے حوصلے سے پیسے تھامے اپنی باری کے منتظر ہیں۔
اس کے بارے میں سمجھا یہ جاتا ہے کہ یہاں سے خریداری ایک عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہے یا پھر اس کو شاید ان کے نام سے بھی آگاہی نہیں ہو گی۔
دوسری طرف وہ قطاریں جہاں مایوس چہروں کے ساتھ لوگ آٹا اور بنیادی راشن کا سامان لینے کے لیے سستے راشن ڈپو اور سٹورز کے باہر کھڑے ہیں۔ یہ قطاریں کئی کئی جگہ پر دیکھی جا سکتی ہیں اور مقامی ذرائع ابلاغ میں کئی روز سے ان کی تصاویر سامنے آ رہی ہیں۔
پہلی قسم کی قطار کو دیکھ کر خاص طور پر سوشل میڈیا پر بحث کرنے والے چند صارفین کا خیال ہے کہ ’دیکھیں، کون کہتا ہے کہ پاکستان کے لوگ غریب ہیں یا ان کے پاس پیسہ نہیں ہے۔‘
ادھر وہ صارفین ہیں جو دوسری تصویر دکھا کر جواب دیتے ہیں کہ ’پھر یہ کیا ہے؟‘
بعض لوگوں کے خیال میں یہ دونوں تصاویر پاکستان میں معاشی اعتبار سے دو انتہائی طبقوں یعنی ’انتہائی امیر‘ اور ’انتہائی غریب‘ کی نمائندگی کر رہی ہیں۔
تو سوال یہ ہے کہ ان کے درمیان کا طبقہ یعنی ’مڈل کلاس‘ کیوں دکھائی نہیں دے رہا۔
معاشی ماہرین کے مطابق کسی بھی ملک کی مڈل کلاس یا درمیانی طبقے کو معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی تصور کیا جاتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جن کی قوتِ خرید کی وجہ سے پیسہ گردش میں رہتا ہے۔ یہ لوگ صنعت کے پہیے کو بھی چلاتے ہیں۔
اگر مڈل کلاس کا حجم بڑا ہو گا تو یہ ظاہر کرے گا کہ خطِ غربت سے نیچے رہنے والے لوگوں کی تعداد کم ہو رہی ہے یعنی وہ لوگ ’مڈل کلاس‘ میں داخل ہو رہے ہیں۔
پاکستان میں راشن کی دکانوں کے باہر حالیہ مناظر کو دیکھنے والے بعض افراد یہ سوال بھی پوچھ رہے ہیں کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ پاکستان میں ’مڈل کلاس‘ سکڑ رہی ہے یعنی ایسے لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے جو غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں۔
ماہرینِ اقتصادیات کے خیال میں ایسا سوچنا غلط نہیں ہو گا خاص طور پر اس وقت جب پاکستان میں مہنگائی مسلسل بڑھ رہی ہے اور زر مبادلہ کے ذخائر مسلسل کم ہو رہے ہیں۔
’دو کروڑ لوگ خطِ غربت سے گِر جائیں گے‘
پاکستان کے نمایاں ماہر اقتصادیات اور سابق وزیرِ خزانہ ڈاکٹر حفیظ پاشا نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’اس بات کا خدشہ ہے کہ آئندہ کچھ ہی عرصہ میں لگ بھگ دو کروڑ کے قریب لوگ پاکستان میں غربت کی لکیر سے نیچے چلے جائیں گے۔‘
ان کے خیال میں یہ وہ لوگ ہیں جن کی ماہانہ آمدن 30 سے 40 ہزار روپے کے درمیان ہے۔
ماہرِ اقتصادیات اور سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ انسٹیٹیوٹ اسلام آباد یعنی ایس ڈی پی آئی سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر ساجد امین کہتے ہیں کہ بین الاقوامی طور پر ورلڈ بینک کے مطابق مڈل کلاس میں اس شخص کو سمجھا جاتا ہے جو ایک دن کے دس ڈالر کماتا ہے یعنی ایک مہینے کے تین سو ڈالر اس کی آمدن ہے۔ جو کہ موجودہ ایکسچینج ریٹ کے مطابق لگ بھگ 80 ہزار پاکستانی روپے بنتے ہیں۔
ڈاکٹر ساجد امین کہتے ہیں کہ گذشتہ دو دہائیوں سے پاکستان میں مڈل کلاس بڑھتی آ رہی تھی تاہم یہ سلسلہ سنہ 2018 میں تھم گیا۔ ’اس میں کمی کا رجحان جو 2018 کے بعد شروع ہوا وہ اگلے ہی سال اس حد تک پہنچ گیا کہ یہ مڈل کلاس لگ بھگ آدھی رہ گئی۔‘ ان کے خیال میں یہ رجحان ابھی بھی جاری ہے۔
مڈل کلاس کے سکڑنے کی وجہ کیا ہے؟
ماہرِ اقتصادیات ڈاکٹر حیفظ پاشا کہتے ہیں کہ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں حالیہ سیلابوں نے ملک کی معیشت کو نقصان پہنچایا لیکن ساتھ ہی پاکستان میں ذرِمبادلہ کے ذخائر کم ہوتے ہوئے تین ارب ڈالر سے بھی کم رہ چکے ہیں جبکہ صنعت اور برآمدات کا پہیہ رُک چکا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’حکومت نے حالات پر قابو پانے کے لیے درآمدات پر پابندیاں لگائیں اس کی وجہ سے ملک میں صنعت کاری رُک گئی اور دوسری طرف زر مبادلہ کے ذخائر مسلسل کم ہو رہے ہیں۔ اس لیے پاکستان میں معاشی نمو (اقتصادی ترقی) کی شرح انتہائی کم رہی ہے اور مزید کم ہو گی۔‘
وہ سمجھتے ہیں کہ اس سال کے آخر تک پاکستان میں شرح نمو منفی میں جانے کا خدشہ ہے۔ ڈاکٹر حفیظ پاشا کے مطابق پاکستان کے پاس اس وقت معاشی طور پر زیادہ گنجائش نہیں کہ وہ ان زرِمبادلہ کے ذخائر کو جلدی بڑھا سکے۔
ایس ڈی پی آئی کے ماہرِ اقتصادیات ڈاکٹر ساجد امین کے خیال میں سنہ 2018 کے بعد پاکستان میں مڈل کلاس کے مسلسل سکڑنے کی بنیادی طور پر تین وجوہات ہیں۔
ان کے خیال میں سنہ 2019 اور اس کے بعد حکومت نے مالی پالیسی کو سخت کیا۔ یہ ایسی پالیسی ہوتی ہے جس میں حکومتیں اپنے خرچ کو کم کرتی ہیں اور ٹیکس بڑھا دیتی ہیں۔ یوں کاروباروں اور صارفین کے لیے خرچ کرنے کے لیے پیسے کم بچتے ہیں اور ایسے میں لوگوں کی قوت خرید مسلسل کم ہوتی رہتی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ شرح نمو کم ہونے سے ’بیروزگاری میں مزید اضافہ ہو گا اور معیشت کی نشو و نما مزید کم ہو گی۔‘
ڈاکٹر ساجد امین کہتے ہیں کہ پاکستان میں سنہ 2018 تک ڈالر کی قیمت کو مصنوعی طور پر ایک خاص حد تک رکھا گیا لیکن 2019 کے بعد روپے کی قدر نے ڈالر کے مقابلے گرنا شروع کیا اور اب تو بہت زیادہ گرت چکا ہے۔
‘اس طرح جو شخص پہلے 105 روپے کما رہا تھا وہ ایک ڈالر کما رہا تھا۔ ڈالر مہنگا ہونے کی وجہ سے وہ بے شک 105 روپے ہی کما رہا ہے لیکن وہ ایک ڈالر سے بہت کم ہے۔ اس لیے وہ ورلڈ بینک کی مڈل کلاس کی تعریف پر پورا نہیں اترتا۔‘
ڈاکٹر ساجد امین کہتے ہیں کہ ساتھ ہی پاکستان میں مہنگائی اس وقت تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے اور بڑھتی ہوئی مہنگائی بھی مڈل کلاس کے سکڑنے کی ایک وجہ ہے۔
مڈل کلاس سکڑنے کا نقصان اور اسے کیسے روکا جا سکتا ہے؟
ڈاکڑ حفیظ پاشا کہتے ہیں کہ مڈل کلاس کے سکڑنے کی وجہ سے شرح نمو مزید سست ہو گی کیونکہ معیشت کے پہیے کو چلانے کے لیے جو مانگ پیدا ہوتی ہے وہ مڈل کلاس ہی سے پیدا ہو تی ہے۔
’اگلے کچھ برسوں میں پاکستان کی شرحِ نمو منفی میں رہنے کا رجحان ہے جو کہ بہت خطرناک بات ہے اور یہ اس لیے بھی زیادہ خطرناک ہے کہ ملک میں مہنگائی کی شرح 25 فیصد سے بھی تجاوز کر سکتی ہے۔‘
ڈاکٹر ساجد امین کہتے ہیں کہ کسی بھی ملک کی معیشت میں ہر قسم کی مانگ یعنی ڈیمانڈ اور سپلائی دونوں طرف کی مانگ مڈل کلاس ہی سے آتی ہے۔
’اگر مڈل کلاس سکڑے گی تو یہ ڈیمانڈ بھی کم ہو جائے گی یعنی خرچ کرنے والے کم ہوں گے تو کاروبار کے مواقع بھی کم ہوں گے، روزگار کے مواقع کم ہوں گےاور نتیجتاً خرچ کرنے کے لیے پیسہ کم بنے گا۔‘
ان کے خیال میں اس کا ایک نقصان یہ بھی ہو گا کہ پیسے بچانے والے افراد کی تعداد کم ہو جائے گی۔ عام طور پر اپر کلاس سرمایہ کاری پیدا کرتی ہے جبکہ بینکوں کے اندر پیسے جمع کر کے بچت مڈل کلاس ہی سے آتی ہے، وہ بھی ختم ہو جائے گی۔‘
ڈاکٹر ساجد امین سمجھتے ہیں کہ اگر پاکستان میں مڈل کلاس کے سکڑنے کا رجحان جاری رہا اور پاکستان کی معیشت بہتر نہ ہوئی تو وہ وقت زیادہ دور نہیں جب پاکستان میں مڈل کلاس ختم ہو جائے گی۔
’اس وقت پاکستان میں مڈل کلاس کو خاتمے کا سامنا ہے۔ دنیا کی معیشت بھی زیادہ اچھی نہیں، یوکرین میں خانہ جنگی بھی جاری ہے اور پاکستان کے آئی ایم ایف کے پاس جانے کے اثرات بھی رہیں گے کیونکہ پاکستان نے آئی ایم ایف کے پاس تو رہنا ہی ہے کیونکہ اس کے بغیر گزارا نہیں۔‘
ڈاکٹر ساجد امین سمجھتے ہیں کہ ان مشکل مالی حالات میں مڈل کلاس کے سکڑتے ہوئے رجحان کو دیکھا جائے تو رواں سال سب سے مشکل ہو گا۔ ’سنہ 2023 وہ سال ہو گا جس میں مڈل کلاس مکمل طور پر معدوم ہو سکتی ہے۔‘
ڈاکڑ حفیظ پاشا سمجھتے ہیں کہ جب تک پاکستان کے زرِ مبادلہ کے ذخائر ڈبل ڈجٹ میں نہیں جاتے یعنی دس یا اس سے زیادہ بلین ڈالر کی سطح تک نہیں جاتے تو بہتری کے امکانات بہت کم ہیں۔
پاکستان کی مشکلات میں مزید اضافہ اس وقت ہو سکتا ہے جب دنیا میں تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہو۔ ’اگر دس ڈالر فی بیرل قیمت میں اضافہ ہو تو پاکستان پر اس کا اثر لگ بھگ تین بلین ڈالر کے قریب پڑتا ہے۔‘
اور ان کے خیال میں چین میں اقتصادی سرگرمی بڑھنے سے تیل کی قیمت بڑھنے کے امکانات نظر آ رہے ہیں۔
کیا حکومت مڈل کلاس کی مدد کر سکتی ہے؟
ماہرِ اقتصادیات ڈاکٹر حفیظ پاشا کے خیال میں حکومت نے عوام کو ریلیف دینے کی جو سکیمیں شروع کی تھیں وہ بھی واپس لے لی گئیں جیسا کہ کسانوں کے لیے سبسڈی پروگرام وغیرہ۔
ان کا کہنا ہے کہ حکومت کو بجٹ کے خسارے کا سامنا ہے اور قرضہ جات اتنے زیادہ ہیں کہ حکومت کے پاس اتنی گنجائش نہیں کہ وہ ریلیف کی سکیمیں شروع کر سکے۔
’اگر اندازہ لگانا ہو تو یہاں سے لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان کو جو سود قرضوں پر ادا کرنا ہے ہر سال وہ پانچ ہزار ارب روپے ہے۔ اس کے مقابلے میں جو حکومت کی سب سے بڑی ریلیف سکیم یعنی بینظیر انکم سپورٹ پروگرام ہے اس کا کل حجم 360 ارب روپے بنتا ہے۔‘
ماہرِ اقتصادیات ڈاکٹر ساجد امین کہتے ہیں کہ ان حالات میں حکومت کو چاہیے کہ وہ مقامی طور پر ایسی ترقیاتی سرگرمیوں کی نشاندہی کرے جن کا انحصار درآمد کی گئی اشیا پر نہ ہو یعنی وہ شعبے جن میں لیبر (مزدور) کا کام زیادہ ہے۔
’ورنہ پاکستان پر درآمدات کا دباو بہت زیادہ ہو جائے گا۔ اس لیے حکومت کو چاہیے کہ زراعت، فوڈ سکیورٹی یا فوڈ چین کے شعبے اور چھوٹے اور درمیانے درجے کی صنعتوں کے اندر ان شعبوں کی نشاندہی کر لے جن میں لیبر کا کام زیادہ ہے۔ اس طرح معاشی سرگرمی شروع کی جا سکتی ہے۔’
دوسری صورت میں پاکستان کے قرضے بڑھیں گے اور زرِ مبادلہ کے ذخائر مزید کم ہوں گے۔