نیا سال شروع ہوئے ڈیڑھ ماہ ہوگیا ہے اور میں اب تک اپنے بنائے ہوئے نیو ائیر ریزولوشن ، بولے تو نئے سال کے حلف نامے، کی پہلی شق پر بھی عمل درآمد نہیں کرسکا۔عمل درآمد تو دور کی بات میں مسلسل اپنے حلف نامے کی خلاف ورزیاں کر رہا ہوں حالانکہ میں نے عہد کیا تھا کہ نئے سال کے شروع ہوتے ہی میں ایک اچھا بچہ بن جاؤں گا اور کام کروں گا بڑے بڑے ۔ مثلاً میں نے عہد کیا تھا کہ شاکاہاری ہوجاؤں گا، گوشت کھانا چھوڑ دوں گا، صرف سبزیوں اور پھلوں پر گزارا کروں گا لیکن ابھی ابھی میں نے نئے سال کے عہد نامے کی پہلی خلاف ورزی کی ہے اور کریلے گوشت کے ساتھ دو عدد تندوری روٹیاں کھا کر یہ کالم لکھنے بیٹھا ہوں۔ گھر میں چائنیز رائس بھی بنے ہوئے تھے ، نہ چاہتے ہوئے وہ بھی چکھ لیے ، واللہ صرف چکھے ،کھائے نہیں، شام کو مجھے گاجر کا حلوہ نصیب نہ ہو اگر میں جھوٹ بولوں۔یہاں بریکنگ بیڈ کا ایک مکالمہ یاد آ گیا ، والٹر وائٹ اپنی ’’میتھ ‘(منشیات کی ایک قسم) فروخت کرتے ہوئے کاروباری حریف کو کہتاہے کہ جو تم بنا رہے وہ گھٹیا قسم کی چیز ہے جب کہ میں کوکا کولا جیسی برینڈڈ پراڈکٹ بناتا ہوں، اُس کا حریف جواب دیتا ہے کہ میں تمہیں اگر یہیں قتل کر دوں تونہ تم رہو گے اور نہ تمہاری کوک، اِس پر والٹر وائٹ کہتا ہے، ’’کیا واقعی تم ایسی دنیا میں رہنا پسند کرو گے جس میں کوک نہ ہو؟‘‘ میں والٹر وائٹ سے متفق ہوں ، آخر ایسی زندگی کا کیا فائدہ جس میں بندہ کریلے گوشت ہی نہ کھا سکے!یہاں ایک وضاحت ضروری ہے کہ کریلے گوشت پکانا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ،اِس کے لیے ضروری ہے کہ گوشت مناسب انداز میں گلایا جائے، ’پٹھ‘ کا گوشت ڈالنا افضل ہے اور تندوری روٹیوں اور دہی کے بغیر کھانا مکروہ سمجھا جاتا ہے ۔خدا میرے گناہ معاف کرے۔
ہمارے ایک دوست گوجرانوالہ میں رہتے ہیں ، پکے کشمیری ہیں ، مٹن کے بے حد شوقین ہیں ، مگر اب کچھ عرصے سے بلند فشار خون کی وجہ سے ڈاکٹر وںکی ہدایت کے مطابق ’’پرہیز ‘‘ فرما رہے ہیں ۔ایک دن ملے تو بے بسی سے کہنے لگے’’ میں پرہیز کرنا چاہتاہوں مگر کیا کروں تین دن سے مٹن ہی میری جان نہیں چھوڑ رہا ،اب دیکھیں نا کل ایک شادی تھی وہاں مٹن کی مچھلی کی بوٹیاں کھانی پڑ گئیں ، اُس سے ایک دن پہلے چھوٹے گوشت کا توا قیمہ خالص دیسی گھی میں بھنا ہوا گھر میں پکا تھا، اب بندہ کیاکرے ،چار و ناچار کھانا پڑا ‘‘۔یہ الم ناک داستان سُن کر میں نے کہا بھائی جان یہ تو واقعی بہت افسوس ناک بات ہے ، بکرے کو بھی چاہیے کچھ خیال کرے ، خواہ مخواہ ذبح ہو کر اپنا گوشت بنواتا ہے او ر پھر کسی ڈش میں سالن کے ساتھ پیش ہو کر گن پوائنٹ پر آپ کو مجبور کرتا ہے کہ میری بوٹیاں کھاؤ ،کسی شریف آدمی کا اتنا بھی امتحان نہیں لینا چاہیے!میری بات سُن کر انہوں نے مجھے گلے سے لگا لیا اور گلو گیر آواز میں بولے،’’صرف تم میرا غم سمجھے ہو، آؤ غنی کے پائے کھانے چلتے ہیں ، کب سے بیچارہ ہماری راہ تک رہا ہے، اپنے ڈاکٹر صاحب کہا کرتے تھے کہ چھوٹے بکرے کے پائے مقوی قلب ہوتے ہیں ۔‘‘واضح رہے کہ جن ڈاکٹر صاحب کا حوالہ دیا جا رہا ہے اُن کا گوجرانوالہ میں اسپتال تھا جس کے آپریشن تھیٹر میں آنجناب سری پائے کا ناشتہ کرتے تھے ، آج کل آپ گوجرانوالہ کے مرکزی قبرستان میں دفن ہیں ، خدا ان کی لحد پر شبنم افشانی وغیرہ کرے۔
نئے سال کے عہد نامے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ جب جی چاہاتوڑ دیا کیوں کہ کوئی پوچھنے والا ہی نہیں ہوتا ،دنیا بھر میں متوالے نیو ائیرریزولوشن پر ’’میمز‘‘ بناتے ہیں اور مذاق گھڑتے ہیں(کوئی قاری اگر میم کا ترجمہ کردے تو لطف آ جائے ، ویسے چٹکلہ میم کے قریب تر ہے) ۔اپنے ہاں بھی ایسا ہوتا ہے ،فرق صرف اتنا ہے کہ یار لوگ صرف نیو ائیر ریزولوشن کو ہی نہیں بلکہ ہر قسم کے وعدے اور حلف کو مذاق ہی سمجھتے ہیں ۔یہاں ڈاکٹروں کو اپنا حلف نامہ یاد ہے نہ وکیلوں کو آئین سے کیا گیا پیمان ۔سب سے مزے کی بات تو یہ ہے کہ اِس ملک میںحلف توڑنے کو بہت سے لوگ سرے سے کوئی جرم ہی نہیں سمجھتے کیونکہ اِن لوگوں کے نزدیک حلف اٹھانا محض ایک رسمی کارروائی ہے ، ان کا خیال ہے کہ حلف کی اہمیت کاغذ پر لکھے الفاظ سے زیادہ نہیں اور ایسے کاغذ کو ’’ملکی مفاد ‘‘میںکبھی اور کسی بھی وقت پھاڑ کر پھینکا جا سکتا ہے ۔اور ملکی مفاد میں کب ایسا کرنا ضروری ہوتا ہے ،اِس بات کا فیصلہ میری طرح کریلے گوشت کھا کر نہیں کیا جاتا بلکہ بہت سوچ بچار کے بعد اُس وقت کیا جاتا ہے جب اِس ملک کے شہری اپنی اوقات سے باہر ہونے کی کوشش کرتے ہیں ۔
میں معذرت چاہتا ہوں کہ لکھتے لکھتے بہک گیا، خدا جانتا ہے کہ آج میرا ارادہ پندو نصیحت کرنے کا نہیں تھا بلکہ اِس بات کااعتراف کرنے کا تھا کہ ہم لکھاری بھی انسان ہوتے ہیں ، بے شک دوسروں کو زندگی گزارنے کے گُر سکھائیں اور ملکی مسائل حل کرنے کے لیے طرح طرح کے مشورے دیں مگر جب بات اپنی ذات کی آتی ہے تو ہم کریلے گوشت کے آگے بھی نہیں ٹھہر سکتے۔ ہمارے کچھ دوست تو ایسے ہیں جو نئے سال کے آغاز اور اختتام پر بتاتے ہیں کہ انہوں نے پورے برس میں کتنی کتابیں پڑھیں اور کس حد تک اپنے حلف نامے پر عمل کیا، یقین کریں جب میں ایسے لوگوں کو دیکھتا ہوں تو رشک سے میری آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں اور میں سوچتا ہوں کہ کاش میں بھی اسی نظم و ضبط کے ساتھ زندگی گزار سکتا۔لیکن یہ ’کاش‘ میں نے یونہی لکھ دیا ہے ،سچی بات یہ ہے کہ ضرورت سے زیادہ نظم و ضبط کے ساتھ زندگی گزارنا کسی معقول بندے کا کام نہیں ،بس یہی سوچ کر میں نے آج سے اپنے حلف نامے سے رُوگردانی کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے ،ویسے بھی یہ واحد خلاف ورزی ہے جس کی ہمارے ہاں کوئی سزا نہیں !