مہنگائی کے عذاب سے چھٹکارا ناممکن ہو چکا
گیس کی قیمت میں کمر توڑ اضافے کا اعلان ہوگیا ہے۔اس کے بعد آئی ایم ایف کو رام کرنے کے لئے مزید اقدامات بھی لینا پڑیں گے۔ان کے نتیجے میں مہنگائی کا جو طوفان اٹھے گا وہ رواں برس کے اختتام تک سینکڑوں نہیں لاکھوں گھرانوں کو خط غربت کی جانب دھکیل دے گا۔اس سے بچت کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی۔ کامل اداسی اور مایوسی کے اس موسم میں لیکن کلیدی سوالات اٹھانے کے بجائے روایتی اور سوشل میڈیا پر چھائے ”ذہن ساز“ عمران خان اور جنرل باجوہ کے مابین جاری تکرار پر توجہ مرکوز رکھتے ہوئے ہمارا جی بہلانے کی کوشش کررہے ہیں۔
کئی سابق وزرائے اعظم کی طرح تحریک انصاف کے قائد بھی اب معصوم صورت بنائے اعتراف کررہے ہیں کہ ہمارے تحریری آئین میں ”چیف ایگزیکٹو“ ٹھہرایا شخص ریاستی اور حکومتی فیصلہ سازی کے عمل میں کتنا ”بے بس“ ہوتا ہے۔اس ضمن میں حتمی اختیار”سپرکنگ“ تک محدود رہتا ہے جو دکھاوے کو ”گریڈ 22“ کا محض ایک افسر ہے۔
عمران خان صاحب بتدریج جو ”انکشافات “ کررہے ہیں وہ ہمارے عوام کی اکثریت کے لئے حیران کن نہیں۔بنیادی سوال اگرچہ یہ اٹھتا ہے کہ اگست 2018ءسے وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز ہوجانے کے بعد وہ ”سپرکنگ“ کی مسلسل تابعداری میں وقت کیوں ضائع کرتے رہے۔بروقت عوام کو یہ بتانے کی جرا¿ت کیوں نہیں دکھاپائے کہ انہیں ”قومی مفاد“ میں پیش قدمی لینے نہیں دی جارہی۔”سپر کنگ“ کے ہاتھوں بقول ان کے نالاں رہنے کے باوجود وہ ”گریڈ 22کے ملازم“ کی معیاد ملازمت میں تین سال کی توسیع دینے کو کیوں آمادہ ہوئے۔
اس تناظر میں بات چلی تو آغاز کم از کم اپریل 2016ءسے کرنا ہوگا۔اس مہینے میں پانامہ دستاویزات منکشف ہوئی تھیں۔نواز شریف کا نام لے کر ذکر نہیں تھا۔ان کے خاندان کی جانب سے ”آف شور کمپنیوں“کے ذریعے لندن میں قیمتی جائیداد خریدنے کا تذکرہ ہوا۔اس کے علاوہ تین سو کے قریب مزید پاکستانیوں کا ذکربھی تھا جو ٹیکس ادا کرنے سے گریز کی بدولت ”آف شور کمپنیاں“بناتے ہوئے بیرون ملک سرمایہ کاری میں مصروف رہے۔ ان سے پوچھ گچھ کا آغاز نہیں ہوا۔ فقط شریف خاندان سے ”رسیدوں“ کی طلبی ہوئی۔بالآخر پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت نے ازخود نوٹس کے ذریعے تفتیشی عمل کی براہ راست نگرانی کا فیصلہ کیا۔ ”آزاد عدلیہ“ نے کئی مہینوں تک ہیجان بھڑکانے کے بعد اگرچہ پانامہ نہیں بلکہ ”اقامہ“ کو بنیاد بناتے ہوئے نوازشریف کو وزارت عظمیٰ سے فارغ کردیا۔اس کے علاوہ تاحیات نااہلی کی سزا بھی سنائی۔بعدازاں احتساب عدالت میں مقدمات بھی شروع ہوگئے۔ ”سپرکنگ“ نے مذکورہ عمل میں جو کردار ادا کیا عمران خان اس کی بابت کامل خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔
عمران خان سے زیادہ کون جانتا ہے کہ پانامہ دستاویزات کے بہانے ”سپرکنگ“ متحرک نہ ہوئے ہوتے تو وہ وزارت عظمیٰ کے منصب پر بھی نہ پہنچ پاتے۔ ”سپرکنگ“ گویا ان دنوں خان صاحب کے ”سرپرست اور سہولت کار“ تھے۔ میٹھا میٹھا ہپ ہپ کڑوا کڑوا تھوتھووالا”ادھورا سچ“ بولتے ہوئے خان صاحب مجھ جھکی کو لہٰذا سوالات ہی اٹھانے کو اکساتے ہیں۔ان سوالات کے مناسب جوابات مل بھی جائیں تو ہم پر نازل ہوئے مہنگائی کے عذاب سے چھٹکارا نصیب نہیں ہوگا۔
بزرگوں سے سنا تھا کہ پہلی جنگ عظیم کا آغاز ہوتے ہی ہمار ے خطے میں کساد بازاری اور بے روزگاری کی شدید لہر آئی تھی۔ مہنگائی کے عفریت کا احساس ذاتی طورپر البتہ مجھے 1972ءسے ہوناشروع ہوا تھا۔مشرقی پاکستان کھودینے کے بعد ہمارے معاشی حالات انتہائی دگرگوں تھے۔ متوسط طبقے کے لئے اپنا معیار زندگی برقرار رکھنا ناممکن نظر آرہا تھا۔ایک برس بعد لیکن عرب اسرائیل جنگ ہوگئی۔اس کی وجہ سے تیل پیدا کرنے والے ممالک نے پیٹرول کو بطور ”ہتھیار“ استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔ ”پیٹروڈالر“ ہمارے چند برادر ممالک میں خوش حالی کا سبب ہوئے تو لاکھوں پاکستانی محنت مزدوری کے ذریعے وہاں پہنچ کر ”بہتی گنگا“ میں نہانا شروع ہوگئے۔چند ہی برسوں بعد غیر ملکوں میں مشقت کرتے پاکستانیوں کی بدولت ہمارے ہاں ”ہاﺅسنگ سوسائٹیز“ کا کاروبار چمکنا شروع ہوا۔ ہماری ”ریاست“ اگرچہ غریب تر ہوتی نظر آئی۔”پیٹرو ڈالر“ کی فراوانی کی بدولت نمودار ہوا متوسط طبقہ ذوالفقار علی بھٹو کے ”سوشلزم“ سے خوش نہیں تھا۔ اس کی خفگی جنرل ضیاءکے مارشل لاءکا باعث ہوئی۔معاشی ابتری ایک بار پھر سراٹھانے لگی۔آغا حسن عابدی کے بنائے بینک سے قرضہ لے کر ریاستی اخراجات پورے کرنے کی کوشش ہوئی۔
دستمبر1979میں لیکن کمیونسٹ روس کی افواج افغانستان میں داخل ہوگئیں۔ ان کی آمد نے ہمارے ہاں ”جہاد“ کا سیزن لگادیا۔ بجٹ دستاویزت میں دکھائی ”آمدن“ سے کہیں بڑھ کر ہمارے حکمرانوں کو ڈالروں سے بھرے سوٹ کیس ملتے رہے۔افغانستان ہی کے حوالے سے جنرل ضیاءکے بعد جنرل مشرف نے بھی ”افغان سیزن“ لگایا۔میری اصل پریشانی یہ ہے کہ اب ویسا کوئی ”سیزن “ لگنے کی امید دور دور تک نظر نہیں آرہی۔امریکہ اور یورپ کی توجہ یوکرین کو روس سے ” آزاد“ رکھنے پر مرتکز ہوچکی ہے۔ہماری ”جغرافیائی اہمیت“ اب کسی کو یاد نہیں رہی۔ ماضی میں کئی بار اپنی دفاعی ترجیحات کی وجہ سے ہماری نازبرداری اٹھانے والے امریکہ اور اس کے اتحادی اب پاکستان سے بے اعتنائی اختیار کرچکے ہیں۔اصرار کررہے ہیں کہ ہمارا ریاستی بندوبست اپنا وجود برقرار رکھنے کے لئے ڈالر کی قدربازار کو طے کرنے دے۔ ہمارے گھروں میں جو بجلی اور گیس آتی ہے اس کے عوض اتنی رقم تو ہر صورت وصول کی جائے جو انہیں پیدا کرنے اور گھروں تک پہنچانے کے لئے خرچ ہوتی ہے۔آئی ایم ایف کے ساتھ 2019ءکے آغاز میں ہوئے معاہدے پر ہوبہو عمل کرنا ہوگا۔
عمران خان صاحب نے اس ضمن میں ”چالاکی“ برتی تو فا رغ ہوگئے۔ ان کی جگہ آئی حکومت نے ”بندے کے پتر“ بننے کا فیصلہ کیا۔مفتاح اسماعیل کا چہرہ ”جی حضوری“ کے لئے استعمال ہوا۔ظلم مگر یہ بھی ہوا کہ عوام کے روبرو پورا سچ نہیں رکھا گیا۔ مفتاح کو استعمال کرنے کے بعد قربانی کا بکرا بنادیا گیا۔ان کی جگہ اسحاق ڈار جلاوطنی سے واپس لوٹ آئے۔ اس حقیقت کا مگر اعتراف نہیں کیا کہ چالاکی اور جادوگری کی گنجائش اب موجود نہیں رہی۔جن ”برادر“ ممالک کی مدد سے ڈار صاحب نے پاکستان کے ایٹمی دھماکوں کے بعد ہماری معیشت کو بچایا تھا وہ بھی اب ”سیدھے“ ہوچکے ہیں۔تقاضہ کررہے ہیں کہ ان سے سرمایہ کاری یا قرض یقینی بنانا ہے تو آئی ایم ایف کو مطمئن کیا جائے۔
ریاست کو ”دیوالیہ“ سے بچانے کے لئے تاہم جو اقدامات لئے جارہے ہیں اس کی وجہ سے ”قربانی“ فقط میرے اور آپ جیسے محدود آمدنی والے اور تنخواہ دار ہی دے رہے ہیں ۔اپنی موٹرسائیکل میں پیٹرول ڈلوانے کے لئے ہم فی لیٹر کی وہی قیمت ادا کررہے ہیں جو اپنے گھروں میں قیمتی گاڑیوں کی قطار لگائے افراد ادا کرتے ہیں۔ہماری اشرافیہ ٹھوس اور جامع ”قربانیاں“ دیتی نظر نہیں آرہی۔ اس پہلو پر توجہ دینے کے بجائے ہمارے اذہان عمران خان اور جنرل باجوہ کے مابین جاری تکرار کی چسکہ فروش کوریج سے بہکائے جارہے ہیں۔