عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی شرائط کے تحت ریونیو بڑھانے کے لیے حکومت نے مختلف اشیا اور خدمات پر لاگو سیلز ٹیکس کی شرح 17 فیصد سے بڑھا کر 18 فیصد کردی۔
وزارت خزانہ کے جاری کردہ نوٹیفکیشن کے مطابق سیلز ایکٹ 1990 کے تحت حکومت نے قابل ٹیکس اشیا پر ٹیکس کی شرح کو 17 فیصد سے بڑھا کر 18 فیصد کردیا۔
اس اقدام کے تحت خدمات کے علاوہ کھانے پینے کی اشیا سے لے کر میک اپ کا سامان، گھریلو ضروریات کی چیزیں مثلاً صابن شیمپو وغیرہ مزید مہنگی ہوجائیں گی۔
خیال رہے کہ پاکستان نے 31 جنوری سے 9 فروری تک اسلام آباد میں آئی ایم ایف کے وفد کے ساتھ 10 روز کی تفصیلی بات چیت کی تھی لیکن وہ معاہدے تک نہیں پہنچ سکے تھے۔
البتہ پالیسی سطح پر بات چیت کے اختتام پر دونوں فریقین نے ٹیکس اور نان ٹیکس اقدامات سے آئندہ ساڑھے 4 ماہ کے عرصے میں ایک کھرب 70 ارب روپے کی وصولی پر اتفاق کیا تھا۔
سفارتی مبصرین کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف چاہتا ہے کہ پاکستان مجوزہ اقدامات پر عملدرآمد شروع کردے اور آئی ایم ایف اٹل ہے کہ عمل درآمد کے بغیر کوئی معاہدہ نہیں ہوگا۔
دوسری جانب یہ پوچھنے پر کہ کیا پاکستان قرض دہندہ ادارے کے ساتھ معاہدہ کرنے کے قریب ہے؟ ایک سینیئر پاکستانی عہدیدار نے ڈان کو بتایا تھا کہ اس مرتبہ وہ اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ ہم اپنے وعدوں سے پیچھے نہ ہٹیں۔
چنانچہ آئی ایم ایف کی شرائط کو پورا کرنے کے لیے حکومت نے آرڈیننس کے ذریعے ٹیکس اقدامات نافذ کرنے کی کوشش کی تاہم صدر مملکت عارف علوی نے اس معاملے پر پٌارلیمان کو اعتماد میں لینے کا ’مشورہ‘ دیا۔
لہٰذاوفاقی کابینہ سے منظور کرانے کے بعد حکومت آج ٹیکس ترمیمی بل، فنانس بل 2023 کو دونوں ایوانوں میں پیش کرے گی۔
علاوہ ازیں رات گئے ہونے والی پیش رفت میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے مقامی سطح پر تیار ہونے والی سگریٹس پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی بڑھانے کا ایس آر او 178 جاری کیا تھا جس سے تمباکو کی مصنوعات پر عائد ٹیکس سے 60 ارب روپے اکٹھے ہوں گے۔
مزید برآں حکومت جنرل سیلز ٹیکس کو 17 فیصد سے بڑھا کر 18 فیصد کرنے سے مزید 55 ارب روپے حاصل کرے گی۔
اس کے علاوہ بقیہ 55 ارب روپے ہوائی جہاز کے ٹکٹس، چینی کے مشروبات پر ایکسائز ڈیوٹی بڑھا کر اور ودہولڈنگ ٹیکس کی شرح میں اضافہ کر کے اکٹھے کیے جائیں گے۔