مردوں کی مانعِ حمل دوا جو سپرم کو کئی گھنٹوں تک بے حس و حرکت رکھ سکتی ہے
سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اُنھوں نے انسانی جسم میں ایک ایسا ’سوئچ‘ تلاش کر لیا ہے جو سپرم کو تیرنے سے روک سکتا ہے، چنانچہ ان کے مطابق مردوں کی مانعِ حمل ادویات ایک حقیقت بن سکتی ہیں۔
چوہوں پر کیے گئے ایک تجربے میں پایا گیا کہ یہ سپرم کو کچھ گھنٹوں تک بے حس و حرکت کر دیتی ہے جس کی وجہ سے یہ انڈے تک نہیں پہنچ پاتے مگر حتمی نتیجے تک پہنچنے کے لیے کئی مزید ٹیسٹس کی ضرورت ہے۔
چوہوں کے بعد یہ تجربہ خرگوشوں پر کیا جائے گا جس کے بعد انسانوں پر اس دوا کی آزمائش کی جائے گی۔
سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ یہ دوا سیکس سے ایک گھنٹہ پہلے کھائی جا سکتی ہے اور پھر صارف کو بس گھڑی پر نظر رکھنی ہو گی کہ دوا کے اثر کے خاتمے میں کتنی دیر باقی ہے۔
یہ کیسے کام کرتی ہے؟
خواتین کی مانعِ حمل ادویات کے برعکس یہ دوا ہارمونز کی سطح پر کام نہیں کرتی۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اس نئے طریقے کی خاص بات یہی ہے کہ وہ وہ ٹیسٹوسٹیرون یا کسی دیگر مردانہ ہارمون کو روک کر ان کی کمی کی وجہ نہیں بنے گی۔
اس کے بجائے وہ جس ’سوئچ‘ پر کام کر رہے ہیں وہ خلیوں کے درمیان سگنل بھیجنے والا ایک پروٹین ہے جس کا نام سولیوبل ایڈینائلائل سائیکلیز یا ایس اے سی ہے۔ یہ تجرباتی مردانہ گولی ایس اے سی کو روک دیتی ہے۔
چوہوں پر کیے گئے ابتدائی تحقیقی مطالعے کی فنڈنگ امریکہ کے نیشنل انسٹیٹیوٹس آف ہیلتھ نے کی تھی اور یہ ’نیچر کمیونیکیشنز‘ نامی جریدے میں شائع ہوئی ہے۔
ٹی ڈی آئی 11861 نامی اس دوا کی ایک خوراک نے سیکس سے قبل، دوران اور بعد میں سپرم کو بے حس و حرکت کیے رکھا۔ یہ اثر تین گھنٹوں تک جاری رہا اور بظاہر 24 گھنٹوں کے اندر یہ مکمل طور پر ختم ہو گیا تھا۔
نیویارک کی کارنیل یونیورسٹی کے شعبے وائل کارنیل میڈیسن سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر میلانی بلباک بھی اس تحقیق میں شامل تھیں۔ وہ کہتی ہیں کہ اس تحقیق سے ایک قابلِ واپسی اور استعمال میں آسان مانعِ حمل طریقہ ملا ہے۔
اگر یہ انسانوں میں کارگر رہا تو مرد اسے جب دل چاہے لے سکیں گے اور اپنی زرخیزی سے متعلق روز بروز فیصلہ کر سکیں گے۔
پر ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ دوا اُنھیں جنسی طور پر منتقل ہونے والے امراض سے نہیں بچائے گی بلکہ اس کے لیے کنڈومز کا استعمال کرنا ہو گا۔
یونیورسٹی آف شیفیلڈ میں مردوں کی تولیدی صلاحیت کے ماہر پروفیسر ایلن پیسی کہتے ہیں کہ ’مردوں کے لیے ایک مؤثر، قابلِ واپسی اور منھ کے ذریعے لی جانے والی مانعِ حمل دوا کی سخت ضرورت ہے۔ حالانکہ گذشتہ چند برسوں میں کئی مختلف طریقے آزمائے گئے مگر کوئی بھی اب تک مارکیٹ نہیں پہنچا۔
وہ کہتے ہیں کہ ’یہاں جو طریقہ کار بتایا گیا ہے اس میں سپرم کی نقل و حرکت کے لیے ضروری ایک اہم انزائم کو روک دیا جاتا ہے اور یہ ایک اچھوتا تصور ہے۔ یہ بہت زبردست بات ہے کہ یہ کام بھی کرتی ہے اور اس کا اثر زائل بھی ہو جاتا ہے۔‘
اُنھوں نے مزید کہا کہ ’اگر چوہوں پر کی گئی آزمائش انسانوں میں بھی اتنی ہی مؤثر رہتی ہے تو یہ ممکنہ طور پر وہ پہلی مردانہ مانعِ حمل دوا ہو گی جس کی ہم سب کو تلاش ہے۔‘
اسی دوران کچھ دیگر محققین سپرم کو تیرنے سے روکنے کے لیے کچھ مختلف طریقہ کار پر کام کر رہے ہیں جس میں سپرم کی سطح پر موجود ایک پروٹین کو بلاک کر دیا جاتا ہے۔