اشرف شاہین اور یارِ دیرینہ امجد اسلام امجد کی رفاقت 57 برس پر محیط ہے۔ اس عرصے میں ایک دورانیہ رنجش کا بھی ہے۔ مگریہ رنجش کسی ذاتی وجہ سے نہیں تھی بلکہ مختلف معاملات میں میری اور امجد کی رائے بہت مختلف تھی اور یہ رائے زندگی گزارنے کے طور طریقے کے حوالے سے تھی، تاہم ایسا نہیں ہوا کہ ہم باہمی بول چال سے بھی گئے، ملتے جلتے تھے، حسب معمول جملے بازی بھی کرتے تھے، مگر باہمی میل جول کا دورانیہ بہت کم رہ گیا تھا، ایسا صرف امجد کے حوالے سے نہیں ہوا بلکہ ہم ایسے بہت سے سفید پوش گھرانوں کے دوست وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پرانی بستیوں سے نئی بستیوں میں شفٹ ہوگئے، سائیکل سے موٹر سائیکل پر آگئے، موٹر سائیکل سے کار میں شفٹ ہوگئے، کرائے کے گھروں سے ذاتی گھروں میں آگئے، پانچ مرلے کے مکانوں سے کنال ڈیڑھ کنال کی کوٹھیوں میں آباد ہوگئے۔دوسری طرف احمد ندیم قاسمی کی محفل ان کی وفات کے بعد اجڑ گئی، جس میں شہربھر کے سینئر ادیب اور امجد اسلام امجد، خالد احمد، نجیب احمد، آغا شاہد، اعجاز رضوی اور دوسرے بہت سے نوجوان ادیب شریک ہوتے تھے، وہاں سے اٹھ کر ٹی ہائوس جاتے تھے جہاں انتظار حسین، احمد مشتاق، اعجاز حسین بٹالوی، یونس جاوید، سجاد باقر رضوی ایک ٹیبل پر اور دوسری ٹیبل پر اسرار زیدی اپنے مداحوں کے ساتھ بیٹھے نظر آتے تھے۔ پھر یہاں سے اٹھتے تھے تو فضل ہوٹل کے باہر بچھی کرسیوں پر بیٹھ کر گپ شپ کرتے تھے اور اس کے بعد آدھی رات تک شہر کی سڑکیں ماپتے تھے۔
مگر یہ اس و قت کی بات ہے جب ہم سب ’’فقرے‘‘ ہوتے تھے، جب امجد اسلام امجد شہر کے ایک کونے، خالد احمد اور نجیب احمد شہر کے دوسرے کونے اور میں تیسرے کونے میں قیام پذیر ہوئے، تو یہ محفلیں بھی اجڑ گئیں۔ اب زیادہ تر ملاقاتیں اندرون ملک اور بیرون ملک مشاعروں اور ادبی کانفرنسوں میں ہوتی تھیں اور ہم سب ایک دوسرے سے اس طرح ملتے تھے جیسے یک جان دو قالب ہوں۔ مجھے امجد کا فلیمنگ روڈکا گھر بھی یاد ہے، اور اس کے بعد حبیب اللہ روڈ والا گھر بھی اور آخر میں ڈی ایچ اے کی کوٹھی۔ میں نعمان منظور کو بھی نہیں بھول سکتا، یہ شخص امجد، خالد اور نجیب کی محبتوں کی نشانی ہمارے درمیان موجود ہے۔
جب کوئی ادیب اس دنیا سے رخصت ہوتا ہے تو اس کے بارے میں مختلف آرا سامنے آتی ہیں، مگر آخری رائے پچاس سال گزرنے کے بعد آتی ہے اور یہی مستند ٹھہرتی ہے۔ میں امجد کا صرف دوست ہی نہیں، وہ میری جند جان ہی نہیں تھا، ہم ایک دوسرے سے زیادہ روز الگ رہنے کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ اس کی شخصیت کے بارے میں میری رائے میں اونچ نیچ آتی رہتی تھی، مگر اس کے بڑے ادیب اور بڑے شاعر ہونے کے بارے میں میری رائے میںکبھی تبدیلی نہیں آئی۔ وہ نظم اور غزل دونوں میں یکساں مہارت رکھتا تھا، مگر ذاتی طور پر میں اس کی نظم کا والہانہ حد تک شیدائی ہوں، اس نے ایک سے بڑھ کر ایک خوبصورت نظم کہی۔اس کی نظم میں خالص شاعری کے علاوہ ایک ڈرامائی کیفیت بھی ہوتی تھی، ایک با ت جو مجھے خصوصی طور پر کہنی ہے اور وہ یہ کہ ہمارے نقادوں کی ایک جماعت آسانی سے سمجھ میں آنے والی شاعری کو کم نمبر دیتی ہے، عوام الناس کا مسئلہ دوسرا ہے، اسے عام فہم مگر اپنے اندر گہرے معانی کا ذخیرہ رکھنے والی شاعری زیادہ پسند آتی ہے، اس حوالے سے میںبھی عوام الناس میں ہوں، وہ جب اپنی نظم کا پہلا مصرعہ پڑھتا تھا، مجھے وہ نظم پوری یاد آ جاتی تھی۔
امجد یک رخا ادیب نہیں تھا، اس کی بہت سی حیثیتیں ہیں، اس نے ایک سے بڑھ کر ایک ڈرامے لکھے، جن میں سے ’’وارث‘‘اسے ہمیشہ زندہ رکھے گا۔ اس حوالے سے ایک بہت مزے کی بات یاد آئی، میں اور امجد جب پہلی دفعہ دلی کے مشاعرے میں گئے تو اس کی ناظم ایک خاتون تھیں، جن کا ادب سے کچھ زیادہ تعلق نہیں تھا۔ اس زمانے میں میرا اور انتظار حسین کا کالم ریڈیو پاکستان سے نشر ہوتا تھا اور یہ دہلی میں سنا جاتا تھا، یہ خاتون مشاعرے کے آغاز سے قبل میرے پاس آئیں اور پوچھنے لگیں کہ امجد صاحب کی شاعری کے علاوہ بھی کوئی حیثیت ہے؟ میں نے کہا وہ بہت بڑے ڈرامہ نگار ہیں، ان کا ڈرامہ ’’وارث‘‘ جب ٹیلی کاسٹ ہوتا تھا تو گلیاں بازار سنسان ہو جاتے تھے، ایسے لگتا تھا جیسے شہر میں کرفیو لگا ہو۔ امجد کی باری آئی تو خاتون نے ان کاتعارف کراتے ہوئے کہا کہ امجد اسلام امجد بہت بڑے شاعر ہیں اور اس کے علاوہ بڑے ڈرامہ نگار بھی ہیں۔ جب ان کا ڈرامہ وارث ٹی وی سے نشر ہوتا تھا تو حکومت کو شہر میں کرفیو لگانا پڑ جاتا تھا۔
امجد کےساتھ میری اتنی عمر گزری ہے، جتنی آج بہت سوں کی عمر بھی نہیں ہوتی۔ لہٰذا جو لکھا ہے، یہ ابتدائیہ مگر جو بات میں محسوس کررہا ہوں وہ یہ کہ مجھے اس سے بہت پیار تھا، مگر 47سالہ رفاقت کے بعد اس کی وفات کے بعد مجھے اندازہ ہوا ہے کہ اس سے میرے پیار کا انداز غلط تھا۔ میں اس کے ساتھ آدھا مر گیا ہوں۔اب میری عمر 80برس نہیں 33سال رہ گئی ہے۔