گزرے برس کا آغاز ہوتے ہی اسلام آباد میں افواہیں گردش کرنے لگیں کہ عمران خان کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے وزارت عظمیٰ کے منصب سے ہٹانے کی گیم لگائی جارہی ہے۔سرگوشیاں حد سے بڑھیں تو عملی اعتبار سے ریٹائرہوارپورٹر بیدار ہوگیا۔ گوشہ نشینی سے وقتی کنارہ کشی کا فیصلہ کیا۔اپوزیشن جماعتوں کے چند سرکردہ رہ نمائوں سے رابطہ کرنے کو مجبور ہوگیا۔ کئی ملاقاتوں کے بعد نتیجہ نکالا کہ ٹھوس یا کھوکھلی بنیادوں پر اپوزیشن جماعتوں کے دلوں میں خوف یہ بٹھادیا گیا ہے کہ عمران خان صاحب 28نومبر2022ء سے چھ ماہ قبل فیض حمید کو آرمی کا سربراہ نامزد کرنے کا ’’فیصلہ کرچکے ہیں‘‘۔
آرمی چیف کی ایسی نامزدگی 1991ء میں بھی ہوئی تھی۔جنرل اسلم بیگ نواز حکومت کو خاطر میں نہیں لارہے تھے۔ انہیں اس برس کی 17اگست کو ریٹائر ہونا تھا۔غالباََ معیاد ملازمت میں توسیع کے خواہاں بھی ہوں گے۔مرحوم آصف نواز جنجوعہ کو مگر 11جون کے دن ان کا جانشین نامزد کردیا گیا۔ مجھے بتایا گیا کہ اب کی بار یہ واقعہ چھ ماہ قبل ہوسکتا ہے۔
عمران خان صاحب واقعتا چھ ماہ قبل والی نامزدگی کرنا چاہ رہے تھے یا نہیں؟ میرے پاس اس شبے کی تائید یا تردید کے لئے ٹھوس شواہد موجود نہیں۔اپوزیشن جماعتوں نے مگر اس ’’خبر‘‘ کو نہایت سنجیدگی سے لیا۔اس خوف میں مبتلا ہوگئے کہ اپنی مرضی کا آرمی چیف لگانے کے بعد عمران خان صاحب ان کے سرکردہ رہ نمائوں کی زندگی مزید اجیرن بنا دیں گے۔احتساب بیورو کے علاوہ ایف آئی اے بھی انہیں بدعنوانی اور منی لانڈرنگ وغیرہ کے الزامات کے تحت طویل عرصے تک جیلوں میں ڈال دے گی۔چوٹی کے چند رہ نمائوں کو نواز شریف کی طرح انتخابات میں حصہ لینے کے لئے نااہل قرار دلوانے کی کوششیں بھی یقینی تصور ہونا شروع ہوگئیں۔
عمران خان کے ’’دس برس تک پھیلے‘‘ اقتدار کے امکان سے کہیں زیادہ اپنی جند بچانے کے لئے اپوزیشن جماعتیں باہمی تلخیاں بھلاکر یکجاہونا شروع ہوگئیں۔ میرا دھیان مگر روس اور یوکرین کے مابین جنگ کے امکانات پر مرکوز ہوگیا۔ جنگ بالآخر شروع ہوگئی تو عالمی امور کا طالب علم ہوتے ہوئے اس سوچ سے پریشان ہوناشروع ہوگیا کہ مذکورہ جنگ کی وجہ سے پاکستان جیسے ممالک کی معاشی مشکلات میں ناقابل برداشت اضافہ ہوگا۔ پیٹرول کی مہنگی قیمت کے علاوہ غذائی بحران کا سامنا بھی کرنا ہوگا۔ مذکورہ تناظر میں بہتر یہی محسوس ہوا کہ عمران حکومت ہٹانے میں عجلت سے کام نہ لیا جائے۔تخت یا تختہ والی جنگ میں مصروف سیاستدانوں کی تاہم اپنی ترجیحات ہوتی ہیں۔ تحریک عدم اعتماد نہ صرف پیش ہوئی بلکہ کامیاب بھی ہوگئی۔
عمران خان صاحب کی فراغت کے بعد فوری انتخاب لازمی تصور کئے۔شہباز حکومت میں شامل اہم ترین وزراء مگر نجی ملاقاتوں میں تواتر سے اصرار کرنا شروع ہوگئے کہ پاکستان دیوالیہ کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔اب سیاست نہیں ریاست بچانا مقصود ہے۔ریاست بچانے کے لئے مفتاح اسماعیل سے عوام کی کمرتوڑنے والے فیصلے کروائے گئے۔ 2022ء اور 2023ء کا بجٹ بھی پیش کردیا گیا۔ریاست بچانے کی اگر واقعتا ٹھان لی گئی تھی تو مفتاح اسماعیل کو ذلت آمیز انداز میں وزارت خزانہ سے فارغ کرنے کا جواز موجود نہیں تھا۔موصوف نے آئی ایم ایف کو رام کرنے کی راہ ڈھونڈ نکالی تھی۔انہیں کامل اختیار کے ساتھ اپنے تیارکردہ بجٹ کو کاملاََ لاگو کرنے کا موقعہ فراہم کیا جانا چاہیے تھا۔ مسلم لیگ (نون) کو مگر اب ’’سیاست‘‘ بچانے کی فکر بھی لاحق ہوگئی۔ امید یہ دلائی گی کہ اسحاق ڈار اپنا تجربہ ڈالر اور مہنگائی کوقابو میں لانے کیلئے استعمال کریں گے۔ ’’برادر ممالک‘‘ سے ’’دیرینہ مراسم‘‘ کی بدولت چند سہارے بھی تلاش کرلیں گے۔
ڈار صاحب سے ’’عوام دوست‘‘ نسخوں کی امید باندھتے ہوئے یہ حقیقت بھلادی گئی کہ ’’برادر ممالک‘‘ میں اب نئی نسل برسراقتدار آچکی ہے۔ان کی ترجیحات اپنے بزرگوں سے قطعاََ مختلف ہیں۔ اقتدار سنبھالتے ہی شہباز شریف اور ان کے بااعتماد وزراء جن ’’برادر ملکوں‘‘ میں گئے ان کی قیادت نہایت خلوص سے یہ پیغام سفارتی زبان میں مسلسل دیتی رہی کہ پاکستان کے عوام کو ریاستی خزانے سے ادا کردہ ’’امدادی رقوم‘‘ کے ذریعے سستا تیل اور گیس فراہم کرنا ’’غیر دانشمندانہ‘‘ رویہ ہے۔پاکستان اس کا متحمل ہوہی نہیں سکتا۔ صاف لفظوںمیں دیامذکورہ پیغام نجانے کیوں لندن میں مقیم نواز شریف اور اسحاق ڈار تک نہ پہنچا یا گیا۔ سارا دوش مفتاح کے کاندھوں پر ڈال دیا گیا۔
ڈار صاحب موصوف کی جگہ تعینات ہوئے تو آئی ایم ایف کو اڑی دکھانا شروع ہوگئے۔ان کے رویے نے ’’ریاست‘‘ کو ایک بار پھر خطرے میں ڈال دیا۔ وقت کا ایک بار پھر تقاضہ تھا کہ ریاست کو بچانے کے لئے مزید تلخ اقدامات لینے سے قبل عوام سے رجوع کیا جائے۔انتخابی مہم کے دوران تمام سیاسی جماعتیں عوام کے روبرو وہ حکمت عملی رکھیں جو ان کی دانست میں ریاست کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے علاوہ متوسط طبقے کو سکڑنے سے بھی بچاسکتی ہے۔واضح نظرآتی پیش قدمی سے مگر اجتناب برتا گیا۔جنرل باجوہ بھی دریں اثناء اپنی میعاد ملازمت میں مزید توسیع کے حصول کے لئے ’’وکٹ کے دونوں طرف‘‘ کھیلنا شروع ہوگئے۔شہباز حکومت ان کی بلف کال کرنے سے گھبراتی رہی۔دل ہی دل میں البتہ ٹھان لی کہ 28نومبر کا سرجھکائے انتظار کیا جائے۔نئے آرمی چیف کی تعیناتی شہباز صاحب کے ہاتھوں ہی ہو۔ ہاپنتے کانپتے یہ مقصد بھی بالآخر حاصل کرلیا گیا۔
اس کے حصول کے بعد ایک بار پھر ریاست بچانے کی فکر لاحق ہوگئی۔ڈار صاحب کو آئی ایم ایف کے روبرو سرجھکانا پڑا۔ امید ہے کہ مہنگائی کا ایک اورطوفان بھڑکانے والے جو اقدامات لئے گئے ہیں وہ قومی اسمبلی سے منی بجٹ منظور ہوجانے کے بعد آئی ایم ایف کی دل میں تھوڑی نرمی لاپائیں گے۔ یہ توقع بھی باندھی جارہی ہے کہ اگلے ماہ کے وسط تک پاکستان کو ایک ارب ڈالر کی روکی رقم میسر ہوجائے گی۔ اس کے بعد دوست اور برادر ممالک بھی ہمیں سہارے دینے کو آمادہ ہوجائیں گے۔
آئی ایم ایف اگر رضا مند ہوگیا تو شہباز حکومت کو ایک بار پھر یہ موقع مل جائے گا کہ وہ آرمی چیف کی تعیناتی اور عالمی معیشت کے نگہبان ا دارے سے ہوئے معاہدے کی بحالی کے بعد نئے انتخاب کی تیاری کرے۔ ہماری ریاست کے دائمی اداروں کی پشت پناہی سے انتخابات کے انعقاد کے لئے تشکیل پائی ’’نگراں حکومت‘‘ آئی ایم ایف کی تسلی کے لئے طے ہوئے فیصلوں پر ’’سیاسی نقصان‘‘ کے خوف کے بغیر عملدرآمد یقینی بناسکتی ہے۔ ریاست بچالینے کے عوض شہباز حکومت کو اپنی ’’میعاد ملازمت‘‘ میں توسیع کا تقاضہ نہیں کرنا چاہیے۔کسی بھی حقیقی سیاستدان کے لئے ایسا تقاضہ یہ تاثر پھیلاتا ہے کہ وہ اپنے اقتدار کو طول دینے کے لئے انتخابات سے فرار کی راہ ڈھونڈ رہا ہے۔’’سیاست‘‘ بچانے کے لئے انتخابی میدان میں اترنے کو ہمہ وقت تیار نظر آنا لازمی ہے۔علم سیاست کی اس بنیادی حقیقت کو مسلم لیگ (نون) میں شامل ’’کائیاں اور تجربہ کار سیاستدانوں‘‘ کا ہجوم نہ جانے کیوں سمجھ نہیں پارہا ہے۔