Site icon DUNYA PAKISTAN

ایک اور گدھا!

Share

گزشتہ روز ایک اور گدھے سے ملاقات ہوگئی، پہلے مجھے اس نئے گدھے کی شکل کچھ جانی پہچانی سی محسوس ہوئی، میں اس کے پاس گیا اور پوچھا ’’تم کون ہو؟ ویسے مجھے لگتا ہے میں نے تمہیں کہیں دیکھا ہے‘‘۔ وہ بے نیازی سے بولا ’’دیکھا ہو گا!‘‘ میں نے اس کی سرد مہری نظر انداز کرتے ہوئے کہا ’’ہم شاید اسلام آباد میں ایک دوسرے سے ملے ہیں‘‘، یہ سن کر اس نے ٹھنڈی سانس بھری اور کہا ’’تم ٹھیک کہتے ہو، میں اسلام آباد میں رہا ہوں، مگر تم سے تو میری ملاقات نہیں ہوئی‘‘۔ میں نے جواب دیا ’’ہوئی تھی مگر تم ان دنوں بہت اونچی ہواؤں میں تھے چنانچہ تمہیں یاد نہیں‘‘۔ یہ سن کر گدھا اپنی سنہری یادوں میں کھو سا گیا، پھر کچھ دیر بعد اس نے سر اوپر اٹھایا اور میری طرف دیکھ کر کہا ’’آہ وہ بھی کیا دن تھے، میری ڈیوٹی اسلام آباد کے مختلف محکموں میں تھی، میں وہاں سے ڈھیروں سامان اپنی پیٹھ پر لاد کر اسلام آباد کی ایک کوٹھی میں لایا کرتا تھا، یہ سامان بڑے سائز کی بوریوں میں بند ہوتا تھا مگر مجھے حیرت ان کے وزن پر ہوتی تھی جو نہ ہونے کے برابر تھا، ایک دن ایک بوری زیادہ سامان کی وجہ سے پھٹ گئی اور یہ دیکھ کر میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ ان بوریوں میں پانچ پانچ ہزار روپے کے کرنسی نوٹ بھرے ہوئے تھے، بس یہ وہ گھڑی تھی جو میری زندگی میں بہت بڑا انقلاب لے کر آئی، میں نے اس بوری میں سے کچھ نوٹ کھسکا لئے اور باقی بوریاں کوٹھی پر چھوڑ آیا جہاں بیٹھے لوگ یہ سب کچھ آپس میں بانٹ لیتے تھے‘‘۔

اب اس گدھے میں میری دلچسپی پہلے سے بڑھ گئی تھی۔ سو میں نے پوچھا ’’پھر کیا ہوا؟ اس نے جسم پر بیٹھی مکھیوں کو اڑانے کیلئے اپنے جسم کو جھنجھوڑا اور بولا ’’ہونا کیا تھا، بس اس کے بعد میری عیش ہوگئی، اب میں بوری پھٹنے کا انتظار نہیں کرتا تھا بلکہ ہفتے میں ایک آدھ بار پوری بوری غائب کر دیتا تھا جس کا کسی کو پتا ہی نہ چلتا تھا کیونکہ سینکڑوں بوریوں میں سے ایک آدھ بوری کی غیر موجودگی کا احساس کسی کو ہوتا ہی نہ تھا‘‘۔ میں ابھی تک اسے صرف گدھا ہی سمجھ رہا تھا، اس کے اس انکشاف کے بعد میں نے خود کو گدھا سمجھنا شروع کر دیا، ایسا موقع میری زندگی میں کئی بار آیا ہے، میں لوگوں کو سمجھتا کچھ تھا اور وہ نکلتے کچھ اور تھے۔ بہرحال اب یہ گدھا مکمل طور پر میری دلچسپی کا محور بن چکا تھا۔ میں نے اسے مخاطب کیا اور پوچھا ’’اسکے بعد کیا ہوا؟‘‘ بولا ’’جب پیسے جیب میں آئے تو میں نے پہلا کام یہ کیا کہ اسلام آباد کلب کا ممبر بن گیا‘‘، یہ سن کر میری ہنسی نکل گئی، میں نے پوچھا ’’تم تو گدھے ہو، اتنے عالی مرتبت کلب کے ممبر کیسے بن گئے؟‘‘ اس بار اسکے ہنسنے کی باری تھی، کہنے لگا ’’جیب میں نوٹ ہونے چاہئیں، کلب کی ممبر شپ کیا چیز ہے، انسان سینیٹر بن جاتا ہے‘‘۔ اس کے بعد مجھے اس سے کچھ مزید پوچھنے کی ضرورت نہیں تھی، وہ کہہ رہا تھا ’’ان دنوں میں نے فائیو اسٹار ہوٹلوں میں جانا شروع کر دیا، ان ہوٹلوں کے جنرل منیجر بذاتِ خود میری ٹیبل پر آکر میری آمد کا شکریہ ادا کرتے تھے۔ میں نے اسلام آباد کے سب سے مہنگے سیکٹر میں ایک عالیشان کوٹھی بھی خرید لی جس میں شام کو شہر کے اکابرین اکٹھے ہوتے اور موج میلہ کرتے، ان میں سیاستدان، بیورو کریٹ اور اشرافیہ کے دوسرے لوگ بھی ہوتے تھے، ان محفلوں پر چھاپہ پڑنے کا پورا جواز موجود تھا مگر چھاپہ مارنے والے خود شریکِ محفل ہوتے تھے لیکن ایک حادثے نے میری زندگی میں دکھوں کی آمیزش کر دی‘‘۔ یہ کہتے ہوئے اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے، جو میں نے اپنے رومال سے پونچھے۔ میں نے پوچھا ’’کیا ہوا؟‘‘ بھرائی ہوئی آواز میں بولا ’’مجھے ایک خاتون سے عشق ہو گیا، وہ ایک این جی او چلاتی تھی اور بیحد خوبصورت تھی‘‘ میں اسکے آنسوؤں کو بھول کر دل میں خوب ہنسا، مگر سنجیدہ سی شکل بنا کر پوچھا’’پھر کیا ہوا؟‘‘ بولا ’’وہ بھی فوراً میری طرف مائل ہوگئی، میں نے اسے ایک کوٹھی خرید کر اسکے نام کر دی، ڈیڑھ کروڑ روپے کی کار اسے خرید کر دی، جیولری کے کئی سیٹ اسے تحفے میں دیے، وہ میرے عشق کا دم بھرتی رہی لیکن دور دور رہتی تھی۔ ایک دن میں نے اسے شادی کا پیغام دیا مگر اسے راضی کرنے کیلئے مجھے اپنی حق حلال کی کمائی کا ایک بڑا حصہ اسکی فرمائشوں پر صرف کرنا پڑا!‘‘ ’’پھر کیا ہوا؟‘‘ میں نے پوچھا ’’پھر وہ مان گئی مگر…‘‘ اس کی آنکھیں ایک دفعہ پھر پُرنم ہو گئی تھیں۔ ’’کتنا عرصہ اس کیساتھ رہے؟‘‘ میں نے پوچھا، ’’اتنا عرصہ کہاں ولیمے والے دن وہ فوت ہوگئی‘‘ میں نے سوال کیا ’’وہ کیسے؟‘‘ بولا ’’مجھے کیا پتا‘‘ پھر اس گدھے نے بھولپن سے کہا ’’اللہ کو شاید یہی منظور تھا‘‘

میں زندگی میں بہت سے گدھوں سے ملا ہوں لیکن یہ بہت عجیب و غریب گدھا تھا۔ اس نے اپنی داستان بیان کرتے ہوئے بتایا کہ اپنی محبوبہ کی وفات کے بعد اس کا دل دنیا سے اچاٹ ہو گیا، اپنی دولت وہ اللوں تللوں میں اڑا چکا تھا، بوریاں ڈھونے کا کام ویسے ہی ترک کر چکا تھا کیونکہ اس کی ضرورت نہ رہی تھی، چنانچہ لاہور آگیا، اب لوگ اسے گدھا ہی سمجھتے ہیں اور گدھوں ہی کی طرح ٹریٹ کرتے ہیں۔

دریں اثناء اس کا مالک آگیا اور اسے ہانک کر ایک زیر تعمیر عمارت کی طرف لے گیا۔ اس نے چلتے چلتے گردن موڑ کر میری طرف دیکھا اور پوچھا ’’تم اسلام آباد میں کیا کرتے تھے؟‘‘ میں نے کہا ’’کچھ نہیں، صرف گدھوں کی تجارت کرتا تھا‘‘۔ ہر الیکشن میں میں گدھوں کو گھوڑا قرار دے کر بیچتا تھا۔

Exit mobile version