نئے سال کے پہلے دن جو کالم چھپا تھا اس میں خیرکی دُعا مانگتے ہوئے میں نے مشرق وسطیٰ میں ایک نیا فسادبرپا ہونے کے بارے میں اپنے خدشات کا اظہارکیا تھا۔مجھے ہرگز اندازہ نہیں تھا کہ سنگین واقعات کی ایک ڈرامائی سریز اتنی تیزی سے رونما ہوجائے گی۔ریگولر اور سوشل میڈیا میں بے تحاشہ لوگ ان واقعات کے بعد ہمیں تیسری عالمی جنگ کے لئے تیار کرنا شروع ہوگئے ہیں۔میں اگرچہ خود کو ’’اجے قیامت نئی آئی‘‘ والے تحفظات کا اظہار کرنے کو مجبور محسوس کررہا ہوں۔ایران وعراق کے سنگین واقعات پر نگاہ رکھتے ہوئے ایک اہم ترین پہلو بھی ہماری توجہ حاصل نہیں کرپایا۔مناسب سمجھتا ہوں کہ فی الوقت اسے اجاگر کیا جائے۔نائن الیون کے بعد بش حکومت نے افغانستان اور عراق پر خوفناک جنگیں مسلط کیں۔ نیویارک کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملے کا ’’بدلہ‘‘ لینے کی خواہش کے ساتھ صدر بش کے نام نہاد’’Neoconsمصاحبین نے ہمیں نوید‘‘یہ بھی سنائی کہ امریکہ دُنیا کی واحدسپرطاقت ہوتے ہوئے اب دُنیا بھر میں ’’جمہوری نظام‘‘ کو فروغ دے گا۔بنیادی انسانی حقوق کا احترام ہوگا۔اظہار رائے کی آزادی کو یقینی بنایا جائے گا۔دُنیا کے تمام ممالک میں عوا م کے ووٹوں سے منتخب حکومتوں کے قیام کا تقاضہ ہوگا۔ ایک ’’نئی‘‘ ’ پُرامن اور خوش حال‘ دُنیا نمودار ہوجائے گی۔افغانستان اور عراق کی جنگوں کی وجہ سے یہ ’’شاعرانہ‘‘ اہداف مگر حاصل نہ ہوپائے۔ کھربوں ڈالر کے زیاں اور کئی ہزار فوجی مروانے کے باوجود امریکہ ان دو ممالک میں ’’استحکام‘‘ کے مناظر بھی نہ دکھاپایا۔ افغانستان میں طالبان توانا سے توانا تر ہوتے چلے گئے۔عراق میں داعش نمودار ہوگئی۔ شام میں خونی خانہ جنگی کا آغاز ہوگیا اور پاکستان جیسے ممالک وحشیانہ دہشت گردی کا نشانہ بن گئے۔دُنیا بھر میں عراق اور افغانستان پر برپا ہوئی جنگوں کی وجہ سے جو عذاب نازل ہوا امریکی عوام کی اکثریت اس سے قطعاََلاتعلق رہی۔ بالآخر انہیں فکرلاحق ہونا شروع ہوئی تو فقط اتنی کہ افغانستان اورعراق پرمسلط جنگوں کی وجہ سے امریکی معیشت کسادبازاری کا شکار ہوگئی ہے۔روزگار کے امکانات معدوم ہورہے ہیں۔امریکہ کی سڑکوں اور ریل وغیرہ کے نظام کو جدید تر بنانے کے لئے سرمایہ کاری نہیں ہورہی۔ سستے علاج کی سہولتیں ناپید ہونا شروع ہوگئی ہیں۔امریکی معیشت کی زبوں حالی کا ادراک کرتے ہوئے اوبامہ نے ’’تبدیلی‘‘ کے نعرے سے اُمید جگانے کی کوشش کی۔ لوگوں سے وعدہ کیا کہ وہ وائٹ ہائوس پہنچ کر اپنے ملک کو افغانستان اور عراق کی جنگوں سے جدا کرلے گا۔عراق کے ضمن میں وہ اپنا وعدہ نبھانے میں کسی حد تک کامیاب رہا۔اگرچہ اس کے نتیجے میں جو ’’خلائ‘‘ پیدا ہوا اسے داعش جیسی تنظیموں نے پُرکرنا شروع کردیا۔ عراق سے امریکی انخلاء نے ایرانی قیادت کو بھی اپنا حلقہ اثریمن سے لبنان تک پھیلانے کے شاندار مواقعے فراہم کئے۔افغانستان کی جنگ سے اوبامہ مگر لاتعلقی اختیار نہ کرپایا۔ اس کے حامیوں میں شدید مایوسی پھیلنا شروع ہوگئی۔اس مایوسی کا ایک غیر روایتی ’’سیاست دان‘‘ ڈونلڈٹرمپ نے بھرپور فائدہ اٹھایا۔واشنگٹن کو اس نے Swamp(جوہڑ) پکارنا شروع کردیا اور عام لوگوں کو باور کروایا کہ اس شہر پر مسلط فیصلہ ساز امریکی عوام کی بنیادی خواہشات ،ضروریات اور ترجیحات کا ادراک بھی نہیں رکھتے۔وہ سب Deep Stateکے کارندے ہیں جو امریکہ کے Military Industrial Complexکی غلام ہے۔ امریکی جرنیلوں اور خارجہ امور کے ماہرین کا ٹرمپ بہت حقارت سے ذکر کرتا رہا اور خود کو ’’عوامی حمایت‘‘ سے مالا مال ایک ایسا “Outsider”بناکر پیش کرتا رہا جو امریکہ کی Establishmentیا Deep Stateپر قابو پاتے ہوئے صرف اور صرف اپنے ملک اور اس کے عوام کی خوش حالی پر توجہ دے گا۔ٹرمپ کے دورِ اقتدار میں ا مریکی معیشت یقینا حیران کن حد تک بحال ہوئی ہے۔روزگار کے نئے امکانات پیدا ہوئے اور اجرتوں میں گرانقدر اضافہ۔ امریکی معیشت کے رونق والے اس موسم میں ٹرمپ کو یقین تھا کہ نومبر2020کا صدارتی انتخاب لڑنے سے قبل وہ افغانستان سے بھی امریکی افواج واپس بلالے گا۔دُنیا کو اس کے حال پر چھوڑدے گا۔تمام عالم میں ’’جمہوری نظام‘‘ کو فروغ دینے کی بڑھکیں نہیں لگائی جائیں گی۔ 2020میں داخل ہوتے ہی مگر امریکہ کو ’’فضول جنگوں‘‘ سے محفوظ رکھنے کا دعوے دار ٹرمپ ایران کے خلاف ایک نیا محاذ کھولتا نظر آرہا ہے۔مختصراََ یوں کہہ لیجئے کہ امریکہ کی Deep Stateجیت گئی۔ ٹرمپ ہار گیا۔صبح اُٹھتے ہی ٹویٹس کے ذریعے امریکی صدر اب ایران کو تڑیاں لگاتا ہے۔ عراق میں تازہ دم فوجی دستے Special OPsکے لئے بھیج دئیے گئے ہیں۔جدید ترین اور مہلک ترین اسلحہ سے لیس بحری بیڑہ بھی خلیج فارس پہنچ گیا ہے۔ٹرمپ کے تازہ ترین ٹویٹس مگر یہ عندیہ بھی دے رہے ہیں کہ اسے مایوسی زدہ حیرت ہورہی ہے کہ ایران نے سلیمانی کے قتل کا ’’بدلہ‘‘ فوری طورپر اس انداز میں نہیں لیا جس کی توقع کی جارہی تھی۔سلیمانی کے عراق میں ڈرون طیاروں کے ذریعے قتل کا فیصلہ کرتے ہوئے امریکی فیصلہ سازوں کو یقین تھا کہ ایران اس کے خلاف فوری اور خوفناک ردعمل دکھائے گا۔ایرانی قیادت اس ضمن میں کوئی قدم اٹھانے سے لیکن ابھی تک گریز کررہی ہے۔اسے بخوبی اندازہ ہے کہ فوجی اعتبار سے وہ امریکہ کے خلاف براہِ راست اور بھرپور جنگ چھیڑنہیں سکتی۔ اس کو ’’بدلہ‘‘‘ لینے کے لئے غیر روایتی طریقے اختیار کرنا ہوں گے۔اس ضمن میں وقت کا چنائو بھی ایرانی قیادت ہی طے کرے گی۔ایران کی جانب سے دکھایا ’’تحمل‘‘ مگر خطے میں تنائو کی صورت حال کو گھمبیر تربناتارہے گا۔اس کا فوری اثر تیل کی قیمتوں پر نظر آنا شروع ہوگیا ہے۔کسی بڑی جنگ کے بغیر تنائو کی یہ کیفیت پاکستان جیسے ممالک کے لئے جان لیوا ہے۔ہم مہنگائی کے شدید ترین سیلاب کی زد میں آئیں گے جسے خلقِ خدا کی اکثریت کے لئے برداشت کرنا پہلے ہی ناممکن دکھائی دے رہا ہے۔ٹرمپ کے خلاف امریکہ کی Deep Stateکی جیت اور مشرق وسطیٰ میں مسلسل تنائو کی بدولت ابھرتی مہنگائی کی لہر دو ایسے موضوعات ہیں جن پر مشرق وسطیٰ کے ڈرامائی معاملات پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے ہمیں غور کی سہولت اور فرصت میسر نہیں۔ہمیں اس حقیقت پر بھی نگاہ رکھنا ہوگی کہ سلیمانی کی قیادت میں ایران نے پاکستان اور افغانستان سمیت یمن سے لبنان تک پھیلے ممالک میں ’’جنگجو‘‘نوجوانوں کی ایک مؤثر کھیپ تیار کی ہے جو اپنے ممالک میں ’’امریکہ سے بدلہ‘‘ لینے کے لئے کسی بھی وقت کچھ بھی کرسکتے ہیں۔امریکہ اور ایران کے مابین تنائو کو لہذا مسلکی تنگ نظری سے بالاتر ہوکر دیکھنا بھی ضروری ہے۔غور طلب بات یہ ہے کہ امریکہ فی الوقت دُنیا کی واحد سپرطاقت ہے۔اس کے مقابلے میں ایران کا اپنی ’’تاریخ‘‘ پر بے تحاشہ فخروغرور ہے۔ایران کی مذہبی قیادت کے شدید ترین ایرانی ناقدین بھی اپنے ملک کا ذکر کرتے ہوئے حیران کن حد تک قوم پرست ہوجاتے ہیں۔ٹرمپ نے اقتدار سنبھالنے کے بعد ایران پر جو اقتصادی پابندیاں عائد کی ہیں ان کی وجہ سے وہاں کی معیشت خوفناک حد تک مفلوج ہوچکی ہے۔مہنگائی کے خلاف ایران کے کئی شہروں میں مظاہرے ہوئے۔ان کے خلاف بھرپور ریاستی قوت استعمال ہوئی۔کئی شہروں میں مظاہرین یہ نعرے بھی لگاتے سنائی دئیے کہ ایران کو عراق اور لبنان میں ’’چوہدراہٹ‘‘ دکھانے کے بجائے مقامی مسائل پر توجہ دینا چاہیے۔ان مظاہرین کے جذبات کو کند کرنے کے لئے ایران نے جدید ترین ذرائع ابلاغ کے استعمال کے ذریعے سلیمانی اور اس کے ’’القدس بریگیڈ‘‘ کو قومی ہیروز بناکر پیش کرنا شروع کردیا۔بات مگر بنی نہیں۔حالیہ چند مہینوں میں لہذا کمال مہارت سے ایرانی قیادت ’’سائرس اعظم‘‘ سے جڑی ’’’تاریخی اور ثقافتی‘‘داستانوں کے احیاء میں مشغول ہوگئی۔ایرانیوں میں ’’مسلک‘‘ کی بجائے اب ’’تاریخی اور ثقافتی‘‘ تفاخر کو بھڑکایا جارہا ہے۔واشنگٹن کے کئی تھنک ٹینک ذہن سازی کے لئے ایرانی قیادت کی اپنائی اس نئی حکمت عملی پر کڑی نگاہ رکھے ہوئے ہیں۔اسی باعث فی الوقت ترجیح یہی ہے کہ ایران پر براہِ راست حملے سے گریزکیا جائے۔اسے افغانستان یا عراق نہ بنایا جائے۔بہتر یہی ہے کہ نیا ’’اشتعال انگیز‘‘ قدم ایران اٹھائے اور امریکی افواج اس کا ’’حساب برابر‘‘ کرتی نظر آئیں۔