اورنگزیب کی ہیرا بائی سے محبت کی داستان
یہ کہانی پہلی نظر میں پیار کی ہے۔ اور وہ بھی ہندوستان پر 49 سال تک حکومت کرنے والے مغل شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر کی۔ تب شاہ جہاں ہندوستان کے حکمران تھے اور اُن کے بیٹے 35 سالہ اورنگزیب شہزادے تھے۔
دوسری بار دکن کے گورنر کا عہدہ سنبھالنے کے لیے ’اورنگ آباد‘ جاتے ہوئے اورنگزیب برہان پور سے گزرے۔ موجودہ انڈین ریاست مدھیا پردیش میں تاپتی دریا کے دائیں کنارے واقع برہان پور وہی جگہ ہے جہاں اُن کی والدہ ممتاز محل کو وفات کے بعد تاج محل میں دفنانے سے پہلے امانتاً دفن کیا گیا تھا۔
بروکیڈز، ململ اور ریشم کے لیے مشہور اس شہر میں میر خلیل خانِ زمان سے بیاہی جانے والی اورنگزیب کی ایک خالہ، سہیلہ بانو، رہتی تھیں۔
اُن ہی سے ملنے اورنگزیب گئے تھے جب اُن کے دل کی دنیا تلپٹ ہوئی۔
مولانا ابوالکلام آزاد نے ’غبارِ خاطر‘ میں 18ویں صدی میں نواب شمس الدولہ شاہ نواز خان اور اُن کے بیٹے عبدالحئی خان کی لکھی کتاب ’ماثرالامرا‘ کے حوالے سے لکھا ہے کہ ’اورنگزیب برہان پور میں زین آباد کے باغ ’آہو خانہ‘ میں چہل قدمی کر رہے تھے۔ شہزادے کی خالہ بھی اپنی خواصوں کے ساتھ سیر کے لیے آئی ہوئی تھیں۔‘
‘ایک خواص نغمہ سنجی میں سحر کار اور شیوہ دل ربائی و رعنائی میں اپنا جواب نہیں رکھتی تھیں۔ سیر و تفریح کرتے ہوئے یہ پورا مجمع ایک درخت کے سائے میں سے گزرا جس کی شاخوں میں آم لٹک رہے تھے۔ جونھی مجمع درخت کے نیچے پہنچا تو ان ہی خواص نے نہ تو شہزادے کی موجودگی کا کچھ پاس لحاظ کیا نہ ان کی خالہ کا۔ بے باکانہ اچھلیں اور ایک شاخ بلند سے ایک پھل توڑ لیا۔‘
‘شہزادے کی خالہ پر یہ شوخی گراں گزری اور انھوں نے ملامت کی تو خواص نے ایک غلط انداز نظر شہزادے پر ڈالی اور پشواز سنبھالتے ہوئے آگے نکل گئیں۔ یہ غلط انداز نظر کچھ ایسی قیامت کی تھی کہ اس نے شہزادے کا کام تمام کر دیا اور صبر و قرار نے خدا حافظ کہا۔‘
اورنگزیب کے سوانح نگار حمید الدین خان نے اس واقعے کو مختلف انداز میں بیان کیا ہے۔ ’چونکہ یہ ان کی خالہ کا گھر تھا، اس لیے حرم کی عورتوں کو ان کی نظروں سے ہٹانے کی زیادہ پروا نہیں کی گئی اور شہزادے بغیر اعلان کیے گھر میں داخل ہو گئے۔ زین آبادی، جن کا اصل نام ہیرا بائی تھا، ایک درخت کے نیچے کھڑی، اپنے دائیں ہاتھ سے شاخ پکڑے دھیمے لہجے میں گا رہی تھیں۔‘
’انھیں دیکھتے ہی شہزادے اپنے آپ پر قابو نہ رکھ سکے اور وہیں بیٹھ گئے اور پھر بے ہوش ہو کر زمین پر گر پڑے۔ خالہ تک خبر پہنچ گئی۔ ننگے پاؤں دوڑتی آئیں اور انھیں سینے سے لگا لیا اور آہ و بکا کرنے لگیں۔ تین چار گھڑی کے بعد شہزادے کو ہوش آیا۔‘
خالہ نے پوچھا ’یہ کیا بیماری ہے؟ کیا تم پر اس سے پہلے کبھی اس کا کوئی حملہ ہوا؟‘
’شہزادے نے کوئی جواب ’نہیں‘ دیا۔ آدھی رات تھی جب شہزادے نے کہا کہ اگر میں اپنی بیماری کا ذکر کروں تو کیا آپ اس کا علاج کر سکتے ہیں؟‘
’ان کی خالہ نے جب یہ الفاظ سُنے تو نہایت خوشی سے صدقہ دیا اور کہنے لگیں کہ تم علاج کی کیا بات کرتے ہو، میں اپنی جان [تمہارے علاج کے لیے] پیش کر دوں گی‘
پھر شہزادے نے انھیں سارا معاملہ بتا دیا۔ یہ سن کر وہ خاموش ہو گئیں۔ آخر کار شہزادے نے کہا ’جب آپ میری باتوں کا جواب نہیں دے رہیں تو میرا علاج کیسے کریں گی؟‘
خالہ نے جواب دیا کہ ’میں تم پر قربان ہو جاؤں! تم اس بدبخت (شوہر)کو جانتے ہو، وہ ایک خونخوار آدمی ہے۔ ہیرا بائی کے لیے تمھاری درخواست سُن کر وہ پہلے اسے اور پھر مجھے قتل کرے گا۔ اسے (اپنے شوق کے بارے میں) بتانے سے اس کے سوا کوئی فائدہ نہیں ہو گا کہ مجھے اپنی جان قربان کرنا پڑے گی۔ لیکن اس غریب معصوم لڑکی کی زندگی بغیر کسی جرم کے کیوں تباہ کی جائے؟‘
شہزادے نے جواب دیا ’بے شک آپ نے سچ کہا۔ میں کوئی اور حربہ آزماؤں گا۔‘
طلوع آفتاب کے بعد وہ اپنے گھر واپس آئے اور کچھ نہیں کھایا۔ اپنے معتمد مرشد قلی خان سے تفصیل سے گفتگو کی۔ خان نے کہا کہ ’میرے خون کے بدلے میرے ولی اور روحانی رہنما (یعنی شہزادے) کا کام ہو جائے تو مضائقہ نہیں۔‘
شہزادے نے جواب دیا ’میں جانتا ہوں کہ آپ میرے لیے اپنی جان قربان کرنے کے لیے تیار ہیں۔ لیکن میرا دل اپنی خالہ کو بیوہ کرنے پر راضی نہیں۔ اس کے علاوہ قرآنی قانون کے مطابق کوئی شخص مذہبی قانون کے علم کے ساتھ صریح قتل نہیں کر سکتا۔ آپ کو [کامیابی کے لیے] خدا پر بھروسا کرتے ہوئے [خانِ زمان سے] بات کرنی چاہیے۔‘
مرشد قلی خان نے سارا احوال خانِ زمان سے کہہ دیا۔ انھوں نے جواب دیا ’شہزادے کو میرا سلام پہنچا دو۔ میں اس کا جواب ان کی خالہ کو دوں گا۔‘
خانِ زمان نے اپنی بیوی کو اورنگزیب سے بدلے میں اُن کے حرم سے چتر بائی ان کے حوالے کرنے کا پیغام دیا۔
مؤرخ جادو ناتھ سرکار اس بیان کو درست نہیں مانتے۔
لکھاری رعنا صفوی کا کہنا ہے کہ ’واقعے کے بیانات میں تفصیل پر تو اختلاف ہے لیکن اس بات پر سب متفق ہیں کہ مذہبی رجحان رکھنے والے سادگی پسند شہزادے کو پیار پہلی ہی نظر میں ہوا تھا۔‘
گجیندر نارائن سنگھ کے مطابق ’اورنگزیب کے جوانی کے پیار‘ اور مؤرخ جادو ناتھ سرکار کے مطابق ’اورنگزیب کے واحد رومان‘ کا نام تھا ہیرا بائی۔
وہ کشمیری ہندو تھیں جنھیں ان کے والدین نے بازار میں بیچ دیا تھا۔ وہ خانِ زماں کے ہاں گاتی اور ناچتی تھیں۔
ماثرالامرا میں لکھا ہے کہ اورنگزیب نے بڑی منت سماجت کر کے اپنی خالہ سے ہیرا بائی کو حاصل کیا۔
’احکام عالمگیری‘ کے مطابق جب اورنگزیب نے ہیرا بائی کو اپنے خالو سے لینا چاہا تو انھوں نے بدلے میں ان سے چتربائی کو مانگا۔ چنانچہ یہ تبادلہ ہو گیا۔
جادو ناتھ سرکار کہتے ہیں کہ ہیرا بائی کو ’زین آبادی محل‘ نام دیا گیا کیونکہ شہنشاہ اکبر کے دور ہی سے یہ حکم تھا کہ شاہی حرم کی خواتین کے ناموں کا عوام میں ذکر نہ کیا جائے اور انھیں کسی نہ کسی صفت سے منسوب کیا جائے، یا تو ان کی پیدائش کی جگہ یا اس شہر یا ملک سے جہاں سے وہ شاہی حرم میں داخل ہوں۔
چنانچہ جب زین آباد سے تعلق رکھنے والی ہیرا بائی اورنگزیب کے حرم میں داخل ہوئیں تو انھیں زین آبادی محل کہا گیا۔
ماثرالامرا کے مطابق ’باوجود اس زہد خشک کے جس کے لیے اس عہد میں بھی مشہور ہو چکے تھے۔ زین آبادی کے عشق و شیفتگی میں اس درجہ بے قابو ہو گئے کہ اپنے ہاتھ سے شراب کا پیالہ بھر بھر کر پیش کرتے اور عالم نشہ و سرور کی رعنائیاں دیکھتے۔ کہتے ہیں کہ ایک دن زین آبادی نے اپنے ہاتھ سے جام لب ریز کر کے اورنگزیب کو دیا اور اصرار کیا کہ لبوں سے لگا لیں۔‘
‘شہزادے نے ہرچند عجز و نیاز کے ساتھ التجائیں کیں کہ میرے عشق و دل باختگی کا امتحان اس جام کے پینے پر موقوف نہ رکھو۔ لیکن اس عیار کو رحم نہ آیا۔ ناچار شہزادے نے ارادہ کیا کہ پیالہ منھ سے لگا لے۔ لیکن جوں ہی اس فسوں ساز نے دیکھا کہ شہزادے بے بس ہو کر پینے کے لیے آمادہ ہو گئے ہیں فوراً پیالہ ان کے لبوں سے کھینچ لیا اور کہا ان کا مقصد شراب پلانا نہیں بلکہ عشق کا امتحان تھا۔‘
شاہ جہاں تک خبریں پہنچنے لگیں اور وقائع نویسوں کے فردوں میں بھی اس کی تفصیلات آنے لگیں۔
رمانند چیٹرجی لکھتے ہیں کہ اورنگزیب کے بڑے بھائی، دارا شکوہ، نے یہ واقعہ اپنے والد شاہ جہاں کو بتایا۔ کہا جاتا ہے کہ انھوں نے شکایت کی کہ ’اس منافق کا تقویٰ اور پرہیزگاری دیکھیں، اپنی خالہ کے گھر کی ایک لونڈی کی خاطر تباہ ہو رہا ہے۔‘
زین آبادی غالباً نومبر 1653 میں ایک ماہ کے لیے اورنگزیب کے ساتھ دولت آباد گئیں۔ عین عروج شباب میں 1654 میں ان کی وفات ہو گئی۔
مولانا آزاد لکھتے ہیں کہ اورنگزیب کو سخت صدمہ پہنچا۔ اسی دن شکار کے اہتمام کا حکم دیا۔ اس پر وابستگان دولت کو تعجب ہوا کہ سوگواری کی حالت میں سیر و تفریح اور شکار کا کیا موقع تھا۔
جب اورنگزیب شکار کے لیے محل سے نکلے تو میرِ عسکر عاقل خان رازی نے عرض کیا: ’اس غم و اندوہ کی حالت میں شکار کے لیے نکلنا کسی ایسی ہی مصلحت پر مبنی ہو گا جس تک ہم ظاہر بینوں کی نگاہ نہیں پہنچ سکتی۔‘
اورنگزیب نے جواب میں فارسی میں یہ شعر پڑھا: (مفہوم)
’گھر میں رونے پیٹنے سے میرے دل کو تسلی نہیں ہوئی
بیاباں میں جی بھر کر رویا جا سکتا ہے‘
اس پر عاقل خان کی زبان سے بے ساختہ یہ شعر نکل گیا: (مفہوم)
’عشق کس قدر آسان دکھائی دیا لیکن افسوس وہ کس قدر مشکل تھا
جدائی کس قدر دشوار تھی، محبوب نے اسے کس قدر آسانی سے اختیار کر لیا‘
اورنگزیب پر رقت طاری ہو گئی۔ پوچھا کہ یہ شعر کس کا ہے۔ عاقل خان نے کہا اس شخص کا ہے جو نہیں چاہتا کہ اسے شاعروں میں شمار کیا جائے۔
اورنگزیب سمجھ گئے کہ خود عاقل خان کا ہے۔ بہت تعریف کی اور اس دن سے ان کی سرپرستی اپنے ذمے لے لی۔
اطالوی سیاح اور مصنف (1639-1717) نکولاؤ منوچی لکھتے ہیں: ’اورنگزیب کو کچھ عرصے کے لیے نمازیں بھی بھول گئیں تھیں اور ان کے دن موسیقی اور رقص میں گزرتے۔ رقاصہ کا انتقال ہوا تو اورنگزیب نے آئندہ کبھی شراب نہ پینے اور موسیقی نہ سننے کا عہد کر لیا۔
’بعد کے دنوں میں وہ اکثر کہتے کہ خدا نے اس رقاصہ کی زندگی کا خاتمہ کر کے ان پر بڑا احسان کیا تھا جس کی وجہ سے ایسی بہت سی برائیوں میں پڑ گئے تھے جن سے ان کے حکومت کرنے کے امکانات کو بھی خطرہ لاحق ہو گیا تھا۔‘