سپین مغربی دنیا کا وہ پہلا ملک ہے جس نے ماہواری کے دوران شدید درد میں مبتلا خواتین کو چھٹی دینے کا قانون متعارف کروایا ہے۔
سپین کی بائیں بازو کی حکمران جماعت کا کہنا ہے کہ اس قانون کا مقصد ماہواری سے جڑی معاشرتی خاموشی کو ختم کرنا ہے۔
سپین کی وزیر آئرین مونٹیرو نے کہا کہ ’یہ ایک تاریخی دن ہے‘ اور اس قانون کے ذریعے ایک ایسے طبی مسئلے کا حل تلاش کرنا ہے جسے چھپانے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔
اس قانون کے تحت ماہواری کے دوران شدید درد میں مبتلا خواتین ضرورت کے مطابق چھٹی حاصل کر سکیں گی تاہم ان کو ڈاکٹر کی اجازت درکار ہو گی اور چھٹی کا دورانیہ اس قانون میں واضح نہیں کیا گیا۔
دنیا بھر میں بہت کم ممالک میں ایسا قانون موجود ہے۔ ان میں سے اکثریت ایشیائی ممالک کی ہے جن میں جاپان، تائیوان، انڈونیشیا اور جنوبی کوریا شامل ہیں جبکہ زیمبیا کا ملک بھی اس فہرست میں شامل ہے۔
ماہواری کی چھٹی کا پہلا قانون سوویت یونین میں 1922 میں منظور کیا گیا تھا۔
اس قانون کے حامیوں کا ماننا ہے کہ ماہواری کی چھٹی اتنی ہی اہم ہے جتنی زچگی کے دوران چھٹی کیونکہ یہ ایک بنیادی طبی عمل کی شناخت ہے تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ ایسی قانون سازی سے خواتین کے لیے ملازمت کے حصول میں مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔
بی بی سی 100 نے کئی ممالک میں خواتین سے بات چیت کی جہاں ماہواری کی چھٹی دینے کا رواج موجود ہے۔
’مجھے مرد ساتھیوں نے تنقید کا نشانہ بنایا‘
انڈونیشیا کی ٹی وی صحافی آئرین وردھانے کا کہنا ہے کہ ان کو سکول کے وقت سے ہی ماہواری کے دوران شدید درد ہوتا تھا۔ اب وہ ہر ماہ دو دن کی چھٹی لیتی ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’ماہواری شروع ہونے سے پہلے مجھے بہت درد ہوتا ہے۔ میں تھک جاتی ہوں اور میرے سر میں درد رہتا ہے۔ یہ کیفیت دو سے تین دن تک رہتی ہے۔‘
’اب ذرا تصور کریں کہ کسی مرد سے ماہواری کی چھٹی کی درخواست کرنا کیسا ہوتا ہو گا۔‘
’پہلے تو مجھے پریشانی ہوتی تھی کہ دوسرے کیا سوچیں گے لیکن مجھے صرف اپنے مینیجرز کو ایک ای میل بھیجنی ہوتی تھی اور وہ کافی ساتھ دیتے تھے۔‘
’میری کمپنی میں یہ کافی آسان ہے۔ مجھے صرف چند مرد ساتھیوں کی تنقید کا سامنا کرنا پڑا جن کا خیال تھا کہ یہ منصفانہ نہیں۔‘
انڈونیشیا میں کئی خواتین اس قانون سے بے خبر ہیں جس کے تحت وہ ماہواری کے دوران دو دن کی چھٹی لے سکتی ہیں۔
آئرین بتاتی ہیں کہ ’میں نے میڈیا میں دیگر خواتین سے بات کی جن کو اس پالیسی سے آگاہ نہیں کیا گیا اور ان کو شدید درد میں کام کرنا پڑتا ہے۔‘
انڈونیشیا میں اس قانون کے تحت سال میں 24 دن بطور ماہواری کی چھٹی کی اجازت ہے تاہم اس قانون پر عمل درآمد مکمل طور پر نہیں ہوتا۔
انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کی رپورٹ کے مطابق کئی کمپنیوں میں ایک ماہ کے دوران صرف ایک چھٹی دی جاتی ہے جبکہ اکثر میں وہ بھی نہیں دی جاتی۔
ووی ودیاوتی انڈونیشیا میں گارمنٹ سیکٹر میں کام کرنے والی خواتین کے حقوق پر کام کرتی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’فیکٹری میں کام کرنے والی خواتین کے لیے دیگر شعبوں کے مقابلے میں ماہواری کی چھٹی حاصل کرنا مشکل ہے۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’ایسے غیر رسمی شعبوں میں کام کرنے والی خواتین کو تو اس حق کے بارے میں علم ہی نہیں ہوتا۔‘
ودیاوتی کا کہنا ہے کہ ان خواتین کے لیے ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ ان کو پہلے ڈاکٹر سے نوٹ لکھوانا پڑتا ہے۔
’ان کو جنسی ہراسانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے یا پھر چھٹی کی درخواست کرتے ہوئے ان کو شرم آتی ہے۔ کئی کمپنیاں ماہواری کی چھٹی کے دوران تنخواہ کاٹ لیتی ہیں۔‘
ڈسمینوریہا کیا ہے؟
ماہواری کے دوران خواتین کی اکثریت کو درد کا احساس ہوتا ہے لیکن کچھ خواتین، جن کو ڈسمینوریہا کی تکلیف ہوتی ہے، شدید درد میں مبتلا ہوتی ہیں
ڈسمینوریہا کے دوران پیٹ میں مروڑ اٹھتے ہیں جو کمر اور ٹانگوں کے درد کی شکل میں بھی نمایاں ہوتا ہے اور سر درد، پیچش اور متلی کی شکایت ہو سکتی ہے۔
ڈسمینوریہا کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں مثلا پروسٹاگلینڈن نامی غدود کی مقدار میں تبدیلی عورت کے پیٹ کے پٹھوں کو سکڑنے پر مجبور کر سکتی ہے جس سے ایسا شدید درد ہوتا ہے۔ اس غدود کی مقدار جتنی زیادہ ہو گی، پٹھوں کے سکڑنے کی طاقت اتنی زیادہ ہو گی۔
تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ ڈسمینوریہا کافی عام ہے اور 20 فیصد خواتین کی روزمرہ زندگی کو متاثر کر سکتا ہے۔
2016 میں یو گو نامی تنظیم کے سروے میں 1000 خواتین سے بات کی گئی جس میں معلوم ہوا کہ 52 فیصد کو ڈسمینوریہا کے دوران کام کرنے میں مشکلات کا سامنا ہوا جبکہ صرف 27 فیصد نے اپنے باس کو حقیقت سے آگاہ کیا۔
’اب بھی یہ ممنوعہ موضوع ہے‘
جاپان میں ماہواری کی چھٹی کا قانون 70 سال سے موجود ہے جہاں کان کنوں اور فیکٹری ملازمین کو کام کی جگہوں پر بیت الخلا کی کمی کی وجہ سے یہ چھٹی بطور انڈسٹریل حق فراہم کی گئی تاہم انسانی حقوق پر کام کرنے والوں کا کہنا ہے کہ یہ چھٹی ہر کوئی نہیں لیتا۔
ایومی تانیگوچی مینا نو سیری نامی کمپنی کی شریک بانی ہیں جو ماہواری کے قانون پر کام کرتی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ جاپان میں بہت کم خواتین ماہواری کی چھٹی لیتی ہیں۔
جاپان کے حکومتی اعداد و شمار کے مطابق اپریل 2019 سے مارچ 2020 کے درمیان صرف اعشاریہ نو فیصد خواتین ملازمین نے چھٹی کی درخواست دی۔
ایومی کا کہنا ہے کہ ماہواری سے اب بھی معاشرتی منفی رویے منسوب ہیں اور مردوں سے بھری ہوئی کام کرنے کی جگہوں پر خواتین اس بارے میں کھل کر بات کرنے سے کتراتی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ زیادہ تر کمپنیاں ماہواری کی چھٹی کے دوران تنخواہ نہیں دیتیں اس لیے زیادہ تر لوگ سالانہ چھٹی لینے کو ترجیح دیتے ہیں۔
جنوبی کوریا نے 1953 میں ماہواری کی چھٹی کے قانون کو اپنایا تھا۔
2001 میں ماہانہ ایک چھٹی کا قانون منظور کیا گیا اور اسی سال جب ایک سابق ایئر لائن سی ای او نے ایک خاتون کو چھٹی دینے سے انکار کیا تو اسے 1800 ڈالر جرمانہ کیا گیا۔
کم من جی کہتی ہیں کہ ’میں پہلے جس کمپنی میں کام کرتی تھی وہاں خواتین درد برداشت کرتی تھیں یا پھر اپنی سالانہ چھٹیوں کو استعمال کر لیتی تھیں۔‘
’میرے پاس بھی درد برداشت کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔‘
’جنوبی کوریا کا معاشرہ سمجھتا ہے کہ آپ کو درد برداشت کرنا چاہیے اور یہی معاشرتی ماحول سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ یہاں ماہواری کی چھٹی کے بارے میں بات کرنا ہی مشکل ہے۔‘