معروف بھارتی مصنف، منظر نگار اور شاعر جاوید اختر نے اردو کو مادری زبان کی حیثیت سے اس کی اہمیت اور تاریخ پر تفصیلی گفتگو کرتے ہوئے اردو شاعری کے حوالے سے اظہار خیال کیا۔
رپورٹ کے مطابق جاوید اختر لاہور میں جاری فیض فیسٹیول کے ساتویں ایڈیشن میں شرکت کرنے کے لیے پاکستان آئے ہوئے ہیں۔
جاوید اختر نے ’جادونامہ‘ نامی سیشن میں کہا کہ شاعری لکھنے کا مقصد لوگوں سے رابطہ کرنا ہے، اسی لیے شاعر جو کہنا چاہتا ہے اسے جاننے کے لیے ایک اچھی شاعری کا کامیاب ہونا ضروری ہے۔
ان کے مطابق زبان کے خالص یا اصل ہونے کی بات صرف ایک افسانہ ہے، ان کا کہنا تھا کہ ’ایک زبان میں دیگر زبانوں کے الفاظ اپنے اندر شامل کرنے کا عمل ہر وقت جاری رہتا ہے‘۔
جاوید اختر نے نشاندہی کی کہ آکسفورڈ ڈکشنری انگریزی زبان میں سالانہ کم از کم 25 نئے الفاظ کا اضافہ کرتی ہے لیکن ہمارے یہاں زبان کے نام نہاد ٹھیکیدار زبان سے الفاظ میں کمی کرتے رہتے ہیں اور انہیں غیر ملکی قرار دیتے ہیں جس کی وجہ سے زبان کا ذخیرۂ الفاظ محدود ہوتا جائے گا۔
انہوں نے عربی، اطالوی، پنجابی، گجراتی، فارسی، ترک، تامل، انگریزی، جاپانی اور سنسکرت سمیت مختلف زبانوں کے الفاظ کی نشاندہی کرتے ہوئے اردو کے ایک حوالے کی مثال دی، ان کا کہنا تھا کہ ’زبان راتوں رات ہی نہیں تخلیق ہوتی بلکہ اسے طویل اور سست عمل سے گزرنا پڑتا ہے‘۔
بھارتی مصنف نے کہا کہ زبان کو تَرک کر دینے کا مطلب ہے کہ لوگوں اور ثقافت سے علیحدگی اختیار کر لینا ہے۔
انہوں نے خدشہ ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ’آج کل بچے اب مادری زبان کے بجائے انگریزی زبان سیکھنے کو ترجیح دے رہے ہیں‘، انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ ایک انسان کو اپنی مادری زبان کا علم ہونا چاہیے چاہے وہ کوئی بھی زبان ہو۔
ان کا کہنا تھا کہ جب شیخ عبدالقادر نے 1798 میں قرآن پاک کا اردو ترجمہ کیا تھا، تو ان کے خلاف فتویٰ جاری ہوگیا تھا، اُس وقت اردو کو ’جہنمی زبان‘ کہا جاتا تھا۔
انہوں نے کہا کہ وہ اس بات پر فخر محسوس کرتے ہیں کہ اردو ان کی مادری زبان ہے جہاں اس کے مقابلے دیگر زبانوں کی شاعری کا آغاز مندروں اور گرجا گھروں سے ہوا، اردو اپنے آغاز سے ہی ایک سیکولر زبان ہے کیونکہ یہ مذہب مخالف، توہم پرستی اور بنیاد پرستی کے خلاف تھی۔
جاوید اختر نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جنوبی ایشیا میں ہر چیز مادی ہوگئی ہے اور یہ مادیت ان کی نسل سے شروع ہوئی جبکہ ان کے والدین مادیت کے فوائد کو زیادہ ترجیح نہیں دیتے تھے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اردو سمیت تمام مادری زبانیں غریبوں کے لیے رہ گئی ہیں۔
پنجابی
پنجابی مصنف نین سکھ کا کہنا تھا کہ پنجابی زبان کو بہت زیادہ نشانہ بنایا گیا اور آج بھی ہم اس کا سامنا کر رہے ہیں جو برطانوی راج کے دوران شروع ہوا تھا۔
انہوں نے کہا کہ جب انگریزوں نے اسکولوں میں نصاب متعارف کرایا تو زبانوں کو مذہب کی بنیاد پر تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ گورمکھی کا نصاب سکھ مذہب کے مطابق بنایا گیا تھا، دیوناگری کا نصاب ہندی سے منسلک کیا گیا جبکہ مسلمانوں کے نصاب فارسی اور عربی سے منسلک تھے۔
نین سکھ نے کہا کہ جب یہ فیصلہ ہو رہا تھا تو پنجابیوں کی طرف سے مزاحمت نظر نہیں آئی۔
انہوں نے کہا کہ اسکولوں میں جو پنجابی پڑھائی جاتی ہے وہ شاہ مکھی نہیں بلکہ گورمکھی میں تھی، انہوں نے ایک سیشن کے دوران کہا ’کدرے ناہ پینڈیاں دساں‘۔
پنجابی مصنف نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بھارت میں بنگالی اور تامل کی طرح پنجابیوں میں پنجابی زبان کے لیے کوئی تحریک نہیں ہے، پنجابیوں نے جلد ہی اردو کو اپنی زبان کے طور پر قبول کرلیا تھا۔
پروفیسر زبیر نے کہا کہ پنجابی اپنی زبان کو صحیح معنوں میں تسلیم نہیں کرتے، ہماری تاریخ محمد بن قاسم سے شروع ہوئی جو ہماری نہیں ہے بلکہ ہماری تاریخ ہڑپہ سے شروع ہوئی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ پنجابی زبان ایک ہزار سال پرانی ہے، پہلا انگریز شاعر چوسر بابا فرید کے دو صدیوں بعد آیا تھا، پنجابی کے خلاف جبر برطانوی راج کے دوران شروع ہوا، انہوں نے بلھے شاہ اور وارث شاہ کی شاعری کی بھی مثالیں دیں۔
ان کا کہنا تھا کہ 1947 کے بعد ہم نے پنجابی کو صحیح معنوں میں استعمال نہیں کیا، آج بھی آپ پنجاب اسمبلی میں پنجابی نہیں بول سکتے۔
پروفیسر زبیر نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ریاستی ڈھانچے میں پنجابی کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔