ہیڈلائن

درخواست ضمانت سے متعلق کیس: عمران خان کی متوقع پیشی، سیکیورٹی کے سخت انتظامات

Share

حفاظتی ضمانت کی درخواست سے متعلق کیس پر سماعت کے دوران سابق وزیراعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کی پیشی کے تناظر میں سیکیورٹی ہائی الرٹ کردی گئی۔

لاہور ہائی کورٹ نے 16 فروری کو الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف پاکستان تحریک انصاف کے احتجاج اور کار سرکار میں مداخلت کے کیس میں حفاظتی ضمانت کی درخواست پر حلف نامے اور وکالت نامے پر دستخط میں فرق کی وضاحت کے لیے عمران خان کو آج پیش ہونے کا حکم دیا تھا۔

گزشتہ سماعت پر لاہور ہائی کورٹ نے آج دوپہر 2 بجے تک عمران خان کو پیش ہونے کی مہلت دی تھی ، جسٹس طارق سلیم عمران خان کی حفاظتی ضمانت کی درخواست سے متعلق کیس کی سماعت کر رہے ہیں۔

گزشتہ سماعت پر عدالت عالیہ نے آئی جی پنجاب کو عمران خان کی لیگل ٹیم کے ساتھ مل کر سیکیورٹی کے معاملاتر طے کرنے کی ہدایت کی تھی، عدالت نے دستخطوں میں فرق سے متعلق بھی عمران خان سے وضاحت طلب کر رکھی ہے جب کہ عمران خان نے الیکشن کمیشن حملہ کیس میں حفاظتی ضمانت کے لیے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

دوسری جانب عمران خان کی لاہور ہائی کورٹ میں پیشی کے تناظر میں پولیس کی اضافی نفری لاہور ہائی کورٹ میں پہنچ گئی تھی، ہائیکورٹ کے مرکزی گیٹ پر بھی پولیس تعینات کی گئی جب کہ خواتین پولیس اہلکاروں کی بڑی تعداد کو بھی ہائیکورٹ میں تعینات کیا گیا ہے۔

فوٹو:ڈان نیوز
فوٹو:ڈان نیوز

قبل ازیں عمران خان کی ذاتی سیکیورٹی ٹیم نے ہائی کورٹ کا دورہ کیا، سیکیورٹی ٹیم نے ہائی کورٹ کے مرکزی گیٹس پر سیکیورٹی چیک کی، سیکیورٹی ٹیم نے ہائی کورٹ کے اندر بھی سیکیورٹی کا جائزہ لیا۔

عمران خان کے وکیل اظہر صدیق نے کہا کہ عمران خان کی گاڑی کو ہائیکورٹ کے احاطے میں داخلے کی اجازت نہیں ملی، شبلی فراز نے گاڑی کو احاطہ عدالت میں لانے کے لیے انتظامی سطح پر ہائیکورٹ سے رجوع کیا تھا، عمران خان کی ہائیکورٹ میں پیشی بارے لیگل ٹیم عمران خان سے دوبارہ مشاورت کرے گی۔

سابق وزیراعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیف آف اسٹاف سینیٹر شبلی فراز نے یقین ظاہر کیا ہے کہ حفاظتی ضمانت کی درخواست سے متعلق کیس پر آج سماعت کے دوران عمران خان کی گاڑی اندر ایک خاص جگہ تک لے جانے کی اجازت مل جائے گی اور عمران خان عدالت میں پیش ہوں گے۔

فوٹو:ڈان نیوز
فوٹو:ڈان نیوز

لاہور میں پی ٹی آئی سیکریٹری جنرل اسد عمر کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے عمران خان کے چیف آف اسٹاف سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ ہم نے گزشتہ جمعے کو لاہور ہائی کورٹ کے رجسٹرار افس میں درخواست جمع کرائی جس میں استدعا کی گئی تھی کہ سابق وزیراعظم عمران خان کی گاڑی کو احاطہ عدالت میں ایک خاص مقام تک لے جانے کی اجازت دی جائے۔

انہوں نے کہا کہ درخواست کی 2 وجوہات تھیں، ایک ان کی صحت اور دوسری وجہ ان کی سیکیورٹی کے معاملات ہیں، آج صبح ہم گئے تھے لیکن بد قسمتی سے ہمیں وہ اجازت نہیں ملی، اس وقت بھی ہمارے وکلا عدالت میں موجود ہیں اور کوشش کر رہے ہیں ہمیں یہ اجازت مل جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ حملے سے قبل عمران خان مختلف کیسز میں عدالتوں میں 25 مرتبہ پیش ہوتے رہے ہیں، اس وقت بھی کوئی وجہ نہیں ہے کہ ہم عدالتوں میں نہ جائیں، ان کی صحت اور سیکیورٹی کے معاملات ہیں، کیونکہ جہاں عمران خان جاتے ہیں وہاں لوگوں کا ہجوم جمع ہوجاتا ہے اور وہ دھکم پیل برداشت نہیں کرسکتے، اس لیے ہماری ہائی کورٹ کے حکام سے بات چیت جاری ہے، ہمیں امید ہے کہ ہماری جائز استدعا کو قبول کرلیا جائےگا تا کہ عمران خان عدالت میں جا سکیں۔

شبلی فراز نے کہا کہ ماضی میں نواز شیف کی پیشی سے متعلق سوال اٹھایا گیا کہ اگر ان کو کچھ ہوگیا تو اس کا ذمے دار کون ہوگا، ہمارا بھی یہ ہی سوال ہے اگر خوانخواستہ عمران خان کو کچھ ہوا تو اس کا ذمے دار کون ہوگا۔

پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ ہمیں امید ہے کہ عمران خان کی صحت اور سیکیورٹی کے پیش نطر کہ وہ ایک خاص فاصلے سے زیادہ آگے نہیں جا سکتے تو ہم یہ امید کرتے ہیں اور ہمیں یقین ہے کہ ہمیں یہ اجازت مل جائے گی اور عمران خان پیش ہوں گے۔

اس موقع پر عمران خان پر درج مقدمات کو مضحکہ خیز قرار دیتے ہوئے پی ٹی آئی رہنما اسد عمر نے کہا کہ عمران خان کو ایک احتجاج پر دہشت گردی کے مقدمے کا سامنا ہے جس میں انہوں نے شرکت بھی نہیں کی، جو مکمل طور پر امن تھا۔

واضح رہے کہ 2 روز قبل اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی عدالت (اے ٹی سی) سے عبوری ضمانت خارج ہونےکے بعد عمران خان نے حفاظتی ضمانت کے لیے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

دوران سماعت جسٹس طارق سلیم شیخ نے استفسار کیا تھا کہ عمران خان کے وکالت نامے اور حلف نامے پر دستخط میں فرق کیوں ہے، یہ بہت اہم معاملہ ہے، میں آپ کو یا آپ کے مؤکل کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کروں گا۔

لاہور ہائی کورٹ میں عمران خان کے وکیل اظہر صدیق روسٹرم پر آئے کیونکہ عدالت نے عمران خان کے دستخطوں میں فرق سے متعلق وکیل سے وضاحت طلب کی تھی۔

عمران خان کے دوسرے وکیل غلام نسوانہ نے کہا کہ عمران خان اپنے دستخطوں کو مانتے ہیں اور اس کی ذمہ داری لے رہے ہیں، جس پر جسٹس طارق سلیم شیخ نے کہا کہ وہ میرے سامنے اون کریں، ورنہ میں وکیل اور درخواست گزار کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کروں گا۔

وکیل نے کہا کہ اگر عدالت مناسب سمجھے تو دستخط کے بارے میں ویڈیو لنک پر پوچھا جا سکتا ہے، عمران خان کو ڈاکٹروں نے چلنے سے منع کیا۔

انہوں نے عدالت سے کہا کہ عدالت بیلف مقرر کرے تاکہ دستخط کی حد تک بات واضح ہو جائے، جس پر جسٹس طارق سلیم شیخ کا کہنا تھا کہ ہم نے قانون کے مطابق چلنا ہے، حلف کے بعد دستخط سے متعلق بیان عمران خان دیں گے۔

وکیل عمران خان غلام نسوانہ نے کہا کہ عمران خان اپنے دستخطوں کو مانتے ہیں تاہم جسٹس طارق سلیم شیخ نے کہا کہ وہ میرے سامنے آکر دستخط کی تصدیق کریں۔

عمران خان کے وکیل نے کہا کہ عمران خان کے دستخط کے معاملے پر جو قصور وار ہوا عدالت اس وکیل کو سزا دی سکتی ہے، جسٹس طارق سلیم شیخ نے پیر کو دو بجے عمران خان کو پیش کرنے کا حکم دیا ۔

10 فروری کو انسداد دہشت گردی عدالت اسلام آباد نے عمران خان کی طبی بنیادوں پر دائر حاضری سے استثنیٰ کی درخواست مسترد کرتے ہوئے انہیں طلب کیا تھا، عدالت نے آئندہ سماعت پر عمران خان کو حاضری یقینی بنانے کا حکم دیتے ہوئے کہا تھا کہ عمران خان پیش ہوئے تو ٹھیک نہیں تو ضمانت قبل از گرفتاری پر آرڈر دے دیں گے۔

واضح رہے کہ عمران خان کےخلاف دہشت گردی کی دفعات کے تحت تھانہ سنگجانی میں مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کی نااہلی کے خلاف احتجاج کرنے پر سابق وزیر اعظم، اسد عمر اور علی نواز سمیت 100 سے زائد کارکنان کے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ درج کیا گیا تھا۔