تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان بھی اُن وزرائے اعظم کی فہرست میں شامل ہوگئے ہیں جو لاہور ہائی کورٹ میں پیش ہوئے ہیں۔ ان سے پہلے ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو، نواز شریف اور شاہد خاقان عباسی مختلف ادوار میں لاہور ہائی کورٹ میں پیش ہوئے۔
سابق وزیر اعظم عمران کے لاہور ہائی کورٹ میں پیش ہونے پر ایک عدالت نے اُن کی حفاظتی ضمانت منظور کرلی اور انھیں گرفتار کرنے سے روک دیا جبکہ دوسری عدالت نے سابق وزیر اعظم کی حفاظتی ضمانت واپس لینے کی بنیاد پر نمٹا دی۔
عمران خان پیر کو ایک ہی دن میں باری باری لاہور ہائی کورٹ کی دو مختلف عدالتوں میں پیش ہوئے۔ پہلے دو رکنی بنچ اور پھر ایک رکنی بنچ کے روبرو اپنی درخواستوں پر کارروائی کے لیے پیش ہوئے۔
سابق وزیر اعظم عمران خان نے لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس طارق سلیم شیخ کے روبرو دستخطوں کے فرق کے معاملے پر معذرت کی اور اس پر افسوس کا اظہار بھی کیا۔
عمران خان جب لاہور ہائی کورٹ پہنچے تو اس وقت اُن کی گاڑی کے اردگرد وکلا کی اچھی خاصی تعداد اکھٹی ہو گئی اور وہ رش کی وجہ سے شروع میں عدالت میں پیش نہ ہوسکے اور گاڑی میں ہی بیٹھ کر انتظار کرتے رہے۔
سابق وزیر اعظم عمران خان ساڑھے سات بجے کے قریب اُس وقت لاہور ہائی کورٹ کے دو رکنی بنچ کے سامنے پیش ہوئے جب بنچ نے ان کے پیش ہوئے بغیر ان کی ضمانت منظور کرنے سے انکار کر دیا اور انھیں رات ساڑھے سات بجے عدالت میں پیش ہونے کی ہدایت کی۔
دو رکنی بنچ کے سامنے اُن کے وکلا نے بتایا کہ عمران خان اس وقت لاہور ہائی کورٹ کے احاطے میں ہیں اور رش کی وجہ سے عدالت کے اندر نہیں آئے ہیں۔ تاہم بنچ نے دو ٹوک الفاظ میں باور کرایا کہ ضمانت کے لیے انھیں عدالت میں پیش ہونا پڑے گا۔
عدالتی مہلت پر عمران خان دو رکنی بنچ کے سامنے پیش ہو گئے۔
سماعت کے دوران دو رکنی بنچ نے عمران خان کو دیکھ کر حفاظتی ضمانت کی درخواست پر آرڈر لکھوانا شروع کر دیا. عمران خان نے دو رکنی بنچ کو بتایا کہ ان کی ٹانگ کی ہڈی تقریبا جُڑ چکی ہے اور 28 فروری کو ٹانگ کا ایکسرے ہوگا۔
سابق وزیر اعظم نے یہ بتایا کہ اگر کوئی بھی جھٹکا لگ گیا تو وہ نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ ان کے بقول ڈاکٹرز نے احتیاط برتنے کا مشورہ دیا ہے۔
’عدلیہ کے لیے بہت احترام ہے اور ان کی جماعت کا نام ہی انصاف اور قانون کی حکمرانی پر ہے‘
تحریک انصاف کے سربراہ عمران نے کہا کہ اُن کا عدلیہ کے لیے بہت احترام ہے اور ان کی جماعت کا نام ہی انصاف اور قانون کی حکمرانی پر ہے۔ عمران خان نے دو رکنی بنچ کو بتایا کہ وہ ایک گھنٹے سے کوشش میں تھے کہ عدالت میں پیش ہونے کیلئے گاڑی سے باہر نکل آوں۔
لاہور ہائی کورٹ کے دو رکنی بنچ نے عمران خان کی ایک ہفتے کی حفاظتی ضمانت منظور کر لی، جس پر اس کی معیاد میں اضافے کی استدعا کی گئی جسے دو رکنی بنچ نے منظور کر لیا اور عمران خان کی متعلقہ عدالت میں پیشی کے لیے انھیں نے تین مارچ تک کا وقت دے دیا۔
کمرہ عدالت میں رش ہونے کی وجہ سے پہلے وکلا کو باہر نکالا گیا، جس کے بعد عمران خان کو دوسری عدالت میں لے جایا گیا۔ سماعت کے دوران کمرہ عدالت میں تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی، فرخ حبیب، شبلی فراز اور دیگر موجود تھے۔
تقریباً سوا آٹھ بجے کے قریب عمران خان جسٹس طارق سلیم شیخ کی عدالت میں پہنچے۔
ان کے وہاں پہنچے سے پہلے کمرہ عدالت وکلا سے کھچا کھچ بھر چکا تھا، جس پر عمران خان کے ایک وکیل نے کمرہ عدالت خالی کرنے کی درخواست کی تاکہ عمران خان کمرہ عدالت میں آ سکیں۔
’کمرہ عدلت میں رش اور شور سن کر جج دوبارہ اپنے چیمبر میں چلے گئے‘
لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس طارق سلیم شیخ نے کارروائی شروع کی لیکن کمرہ عدالت میں رش اور شور کی وجہ سے وہ اپنے چیمبر میں واپس چلے گئے۔ جج کے واپس جانے پر وکیل خواجہ احمد طارق رحیم کمرہ عدالت خالی کرانے کے لیے درخواست کرتے رہے اور صورت حال میں کسی طرح کی تبدیلی نہیں آئی تو وکیل نے ناراضگی کا اظہار کیا اور کہا کہ اگر کمرہ عدالت خالی نہ ہوا تو عمران کمرہ عدالت میں نہیں آ سکیں گے اور انھیں عدم پیشی کی صورت میں توہین عدالت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
کمرہ عدالت میں ایک وکیل نے یہ بھی تجویز دی کہ عمران خان کے ساتھ سیلفی بناتے ہوئے کمرہ عدالت سے چلیں جائیں۔ سابق وزیر مملکت فرخ حبیب بھی وکلا کو کمرہ عدالت خالی کرنے کی درخواست کرتے رہے۔ جب ہجوم کم ہو گیا تو عمران خان کمرہ عدالت میں آئے۔
سینیٹر اعظم سواتی بھی عمران خان کے ساتھ کمرہ عدالت میں داخل ہوئے۔
لگ بھگ پندرہ منٹ کے بعد جسٹس طارق سلیم شیخ نے دوبارہ سماعت شروع کی تو عمران خان روسٹرم پر آگئے اور دستخطوں کے فرق پر معذرت کی اور افسوس کا اظہار کیا۔ جسٹس طارق سلیم شیخ نے انھیں عدالتی معاملات میں احتیاط برتنے کی ہدایت کی۔
عمران خان نے بتایا کہ جیسے ہی انھیں اس معاملے کا علم ہوا تو انھوں نے درخواست واپس لینے کی ہدایت کی۔ لاہور ہائی کورٹ نے درخواست واپس لینے پر کیس نمٹا دیا۔
اسی دوران وکلا نے اسلام آباد میں سنگجانی پولیس سٹیشن میں سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف مقدمے میں حفاظتی ضمانت کی دوبارہ درخواست دوبارہ دائر کی، جو ساڑھے چار بجے کے لیے سماعت کیلئے مقرر کی گئی۔
حفاظتی ضمانت کی نئی درخواست پر لاہور ہائی کورٹ کے اُسی دو رکنی بنچ نے سماعت کی جو اس سے پہلے 17 فروری کو عمران خان کے پیش نہ ہونے پر مسترد کی تھی۔
بنچ نے گذشتہ سماعت پر عمران خان کے وکلا کو باور کرایا تھا کہ ضمانت کے لیے عدالت کے سامنے سرنڈر کرنا ضروری ہے اور عدالت میں پیش ہونے کے لیے ساڑھے چھ بجے کا وقت مقرر کیا۔
سماعت کے دوران لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس طارق سلیم شیخ نے ریمارکس دیے کہ عمران خان ایک لیڈر اور رول ماڈل ہیں. انھیں رول ماڈل رہنا چاہیے۔
خواجہ احمد طارق ایڈووکیٹ نے بتایا کہ سکیورٹی فراہم نہیں کی گئی اور صرف جی پی او چوک کے گیٹ سے پارکنگ تک اندر آنے کی اجازت دی گئی تھی۔
جسٹس طارق سلیم شیخ نے ریمارکس دیے کہ قانون سب کے لیے برابر ہے۔
عمران خان کی لاہور ہائی کورٹ میں پیشی کے موقع پر سڑک پر بیئرز لگائے گئے تھے اور پولیس کی بھاری نفری تعینات کی گئی تھی۔