تقریباً ہم سب ہی محبت کرنا چاہتے ہیں، ایسا ہی ہے نا؟ اور اس کام میں ہماری مدد کے لیے ڈیٹنگ ایپس موجود ہیں۔
بی بی سی تھری کی نئی سیریز پلینیٹ سیکس میں، ماڈل کارا ڈیلیونگنے نے بتایا کہ جب ہم ان لوگوں کی تصاویر دیکھتے ہیں جو ہمیں پرکشش لگتے ہیں تو ہمارے دماغوں پر کیا چل رہا ہوتا ہے۔
ایک قسط میں وہ خود بھی جانچ کے اس عمل سے گزریں۔
ان کے دماغ کی نگرانی کی گئی جب انھیں ان لوگوں کی تصاویر دکھائی گئیں جنہیں وہ پہچانتی تھیں، یا جو ان کے جان پہچان والے تھے، یا جنھیں وہ پرکشش سمجھتی تھیں اور وہ بھی جن کے ساتھ ان کے طویل مدتی تعلقات تھے۔
کارا کے دماغ کے افعال اس وقت روشن ہو گئے جب ایسے افراد کی تصاویر سامنے آئیں جن سے انھیں ماضی میں شدید محبت تھی۔
ان کے نتائج دیکھ کر ڈاکٹر بیانکا ایسیویڈو، جنھوں نے ان کے دماغ کے سکین کیے، نے کہا کہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ ’محبت ایسا جذبہ ہے جو پتھر کو بھی ہلا دے۔‘
’حتیٰ کہ اگر دو افراد کا آپسی تعلق بہت خوشگوار نہیں ہے تب بھی ایک مضبوط تعلق ہے اور آپ کو ایسے جوڑوں کے دماغوں میں شدید سرگرمی نظر آتی ہے۔‘
کارا مانتی ہیں کہ ’محبت دراصل ایک نشہ ہے۔‘
ایسے میں ڈیٹنگ ایپس، ایک ایسی ٹیکنالوجی جو ہمیں پیار تلاش کرنے میں مدد کرتی ہے، کی مقبولیت کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔
ایک حالیہ تحقیق کے مطابق 2022 میں، جس سال ٹنڈر نے 10 سال مکمل کیے، دنیا بھر میں 323 ملین لوگ ٹنڈراور اس جیسی دوسری ایپس کا استعمال کر رہے تھے۔
ماہر نفسیات اور ثقافتی مشیرزویی مالت کے مطابق ان ایپس کی لت بہت بری لگتی ہے۔
’یہ آپ کو ان لوگوں سے ملنے کا موقع دیتی ہیں جن سے آپ شاید ویسے نہیں مل پاتے۔‘ تاہم ان کا کہنا ہے کہ ’یہ سب مثبت پہلو نہیں ہیں۔‘
یہ ایپس آپ کو پیار تلاش کرنے میں مدد کر سکتی ہیں، لیکن چونکہ اس میں بہت زیادہ سکرین ٹائم شامل ہے اس لیے حقیقی زندگی میں جب آپ لوگوں سے ملتے ہیں تو آپ کے رویے میں تبدیلی آ سکتی ہے۔
یہ وقفے وقفے سے ملنے والی مدد کی طرح ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ سائنسدان اسے جوئے سے جوڑتے ہیں۔ یہ ہمیشہ جیتنے کا نشہ آور احساس ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر آپ کسی ایسے شخص کو ڈھونڈ لیتے ہیں جو آپ کو پسند ہو آپ اسے منتخب کر لیں، تو کوئی بھی اس بات کی ضمانت نہیں دے سکتا کہ اس شخص کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوگا، اس لیے جب میچ ہوتا ہے تو انعام بڑا محسوس ہوتا ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ’غیر یقینی صورتحال آپ کو مزید وقت دینے پر مجبور کرتی ہے۔ یہاں تک کہ اگر آپ کو کوئی میچ نہیں ملتا ہے، تو آپ مزید کے لیے واپس آنا چاہیں گے۔‘
ڈیٹنگ ایپس کا استعمال کرتے وقت ہم کیسا محسوس کرتے ہیں؟
ماہر نفسیات کا کہنا ہے کہ یہ سب آپ کے دماغ میں ڈوپامائن کی سطح کے متعلق ہے۔
یونیورسٹی کالج لندن کے مطالعے میں اسے کیمیائی میسنجر کے طور پر بیان کیا گیا ہے جو ہمیں خوشی محسوس کرنے میں مدد کرتا ہے، جب آپ ڈیٹنگ ایپ پر میچ کرتے ہیں تو ڈوپامائن آپ کے دماغ کو بھر دیتی ہے۔
مالت کا کہنا ہے کہ یہ وہی کیمیکل ہے جو اس وقت خارج ہوتا ہے جب آپ سیکس کرتے ہیں یا کچھ جیتتے ہیں۔ یہ آپ کو پر سکون اورم پرجوش محسوس کروا سکتا ہے۔
’جب آپ ان کا استعمال کر رہے ہوتے ہیں تو آپ کو خوشی کا احساس ہوتا ہے۔ لیکن ڈوپامائن میں اضافہ مختصر وقت کے لیے ہوتا ہے اور آپ اسے دوبارہ محسوس کرنا چاہتے ہیں۔‘
وہ کہتے ہیں کہ صارف کو مشغول رکھنے کے لے ڈیٹنگ ایپس کو شاندار طریقے سے ڈیزائن کیا گیا ہے۔
بالکل اسی طرح جیسے ہم سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہیں، ڈیٹنگ سروس ڈیزائنرز چاہتے ہیں کہ آپ بار بار واپس آئیں۔
’دونوں ہی آپ کے دماغ کی پٹھوں کی یادداشت کو نشانہ بناتے ہیں ، لہذا جب آپ اپنا فون اٹھاتے ہیں تو یہ سب سے پہلی چیز ہے جسے آپ تلاش کرتے ہیں۔ آپ کا دماغ قدرتی طور پر ایسی جگہ پر جائے گا جس کے بارے میں وہ جانتا ہے کہ وہ آپ کو اچھا محسوس کروا سکتا ہے۔‘
اور بالکل سوشل میڈیا کی طرح ڈیٹنگ ایپس کو ’آپ کو باقی دنیا سے قطعہ تعلق‘ کروانے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔
محبت؟
ماللیت کا کہنا ہے کہ انسان مسلسل توثیق کی تلاش میں رہتے ہیں اور ڈیٹنگ ایپس بھی یہی اپیل کرتی ہیں۔
’جب آپ کو ڈیٹنگ ایپ پر میچ ملتا ہے تو یہ ایک مختصر سیکنڈ کے لیے آپ کے تمام شکوک ختم کر سکتا ہے۔‘
’نیز ’نامعلوم‘ کا احساس صارفین کو جھکا دیتا ہے۔ آپ کبھی نہیں جانتے کہ اگلا کون ہونے والا ہے اور یہ بہت دلچسپ ہے۔‘
لیکن کیا یہ جذبہ محبت میں بدل سکتا ہے؟
یو جی او وی کی ایک تحقیق کے مطابق، 25 سے 34 سال کی عمر کے 16 فیصد عالمی صارفین نے اپنے ساتھی سے موبائل ایپ کے ذریعے ملاقات کی ہے ۔
ماہر نفسیات کے نزدیک اس جیک پاٹ کو جیتنا ’قسمت‘ اور ’کوشش‘ کا نتیجہ ہے۔
’اگر آپ ڈیٹنگ ایپ پر محبت کی تلاش میں بہت زیادہ وقت صرف کرتے ہیں، تو حقیقت میں آپ کے اپنی پسند کے کسی فرد کو تلاش کرنے کا زیادہ امکان ہے۔
’لیکن یہ بھی قسمت کی بات ہے۔ آپ جس علاقے میں رہتے ہیں وہاں شاید آپ کو کوئی پسند نہ آئے۔‘
آمنے سامنے
مالیت کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا اور ڈیٹنگ ایپس نے حقیقی زندگی میں ہماری بات چیت کے طریقے کو بھی بدل دیا ہے۔
’وہ کہتی ہیں ٹیکنالوجی پر ہمارے انحصار کا مطلب یہ ہے کہ کچھ لوگوں کو آمنے سامنے بات چیت کرنے میں مشکل پیش آتی ہے۔‘
’اب لوگ سوچتے ہیں کہ انھیں باہر نکل کر یا ان لوگوں کے قریب جانے کی ضرورت نہیں ہے جنھیں وہ اپنے ارد گرد روز دیکھتے ہیں کونکہ وہ گھر جا کر سوائپ کر سکتے ہیں جو بہت ہی آسان ہے۔‘
تو کیا ان کا استعمال کرنا اچھا ہے؟
زویی کا کہنا ہے کہ ہر چیز کے اچھے اور برے پہلو ہوتے ہیں۔
’اگر آپ اپنے ساتھی کو جاننا چاہتے ہیں، تو ایپس یہ جاننے کا ایک بہترین طریقہ ہے کہ آپ ان سے کیا چاہتے ہیں یا نہیں چاہتے۔‘
ایپس آپ کا اعتماد بھی بڑھا سکتی ہیں، لیکن نئے لوگوں سے ملنے کے لیے میں ان پر بھروسہ کرنے کی تجویز نہیں دوں گی۔
اس کے علاوہ وہ کہتے ہیں کہ جس طرح سے ہم ڈیٹنگ ایپس کو استعمال کرتے آ رہے ہیں وہ اب بدلنا شروع ہو رہا ہے۔
’بمبل جیسی ایپس نے کئی تقریبات منعقد کرنا شروع کردی ہیں جو کہ بہت دلچسپ ہے کیونکہ یہ صارفین کو ایپ سے باہر اور حقیقی زندگی میں لے جاتی ہیں۔‘
زویی کا کہنا ہے کہ ’ایپس کے تخلیق کاروں کو یہ احساس ہو رہا ہے کہ ہم اب بھی حقیقی زندگی میں لوگوں سے ملنا چاہتے ہیں۔‘
لیکن ہماری ایپس کی لت کم نہیں ہو گی۔
’انسان قدرتی طور پر ایسی چیزیں پسند کرتے ہیں جو ہماری زندگی کو آسان بناتی ہیں۔‘
’ڈیٹنگ ایپس ہمیں ایک ہاتھ دیتی ہیں، یہ ہماری زندگیوں کو آسان بناتی ہیں۔ یہ مسئلے کا حل ہیں۔ لوگوں سے ملنا مشکل ہے اس لیے اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ ہم ان ایپس کو کتنا پسند کرتے ہیں۔‘