حکومتی اتحادی اب اپنی عجلت کا خمیازہ بھگتیں
خالصتاََ منطقی ذہن سے سوچیں تو لاہور ہائی کورٹ نے پیر کی شام بنیادی پیغام یہ دیا ہے کہ عمران خان صاحب جیسے مقبول ترین سیاستدان کو بھی اگر کسی معاملے میں حفاظتی ضمانت درکار ہے تو عدالت کے روبرو ذاتی طورپر پیش ہونا پڑے گا۔ اس تناظر میںجائز یا ناجائز بنیادوں پر تشکیل دئے جواز کسی کام نہیں آتے۔اندھی نفرت وعقیدت کے رواں موسم میں یہ کلیدی پیغام مگر اجاگر نہیں ہوپایا ہے۔
میڈیا کے ماہرانہ استعمال کے ذریعے تحریک انصاف نے پیر کی صبح سے رات ہونے تک ٹی وی سکرینوں کے ایئر ٹائم پر کامل اجارہ برقرار رکھا۔سوشل میڈیا کے ذریعے اپنے کارکنوں کو زمان پارک پہنچنے کو اُکساتے رہے۔عمران خان کی ممکنہ گرفتاری عاشقان عمران کے لئے ’’ریڈلائن‘‘ ٹھہرادی گئی۔دریں اثناء ہائی کورٹ کے عزت مآب جج سماعت میں وقفے لیتے رہے۔بالآخر عدالت کی جانب سے عمران خان صاحب کی ذاتی پیشی کے لئے ڈیڈ لائن بھی طے کردی گئی۔عمران خان صاحب اسے خاطر میں نہ لاتے تو توہین عدالت کے مرتکب بھی ٹھہرائے جاسکتے تھے۔ زمان پارک میں واقع اپنے آبائی گھر کو انہوں نے گزشتہ کئی مہینوں سے ناقابل تسخیر قلعہ کی صورت دے ر کھی ہے۔ وہاں سے نکلنے کو مجبور ہوئے۔ ان کے پرستاروں نے مگر پولیس کی جانب سے فراہم کردہ سکیورٹی پر بھروسہ نہیں کیا۔ڈنڈے اٹھاکر ان کے ہائی کورٹ کی جانب رواں قافلے کے ہمراہ چلتے رہے۔
جو کارکن زمان پارک تک پہنچ نہ پائے تھے لاہور ہائی کورٹ کے احاطے میں جمع ہونا شروع ہوگئے۔فضا کو انہوں نے پرجوش نعروں سے گرمائے رکھا۔ان کے ہجوم اور والہانہ اظہار محبت وعقیدت کی وجہ سے سوال یہ کھڑا ہوگیا کہ خان صاحب ان میں سے گزرکر عدالت کے کمرے تک پہنچ سکتے ہیں یا نہیں۔دھکم پیل کی وجہ سے ان کی ٹانگ پر لگازخم مزید بگڑسکتاتھا۔عدالت سے لہٰذا استدعا ہوئی کہ وہ عمران خان صاحب کی عدالت سے باہر موجودگی کو ’’حاضری‘‘ شمار کرلے۔استدعا نامنظور ہوئی اور سابق وزیر اعظم کو گاڑی سے نکل کر عدالت کے کمرے تک جانا ہی پڑا۔
ان کے ذاتی طورپر حاضر ہوجانے کے بعد ضمانت کی درخواست ردکرنے کے ٹھوس قانونی جواز میسر نہ رہے۔ نظر بظاہر معمول کی کارروائی تھی۔خان صاحب کے حامیوں نے لیکن اسے اپنی شان دار ’’فتح‘‘ بناکرپیش کیا۔ ان کی دانست میں لوگوں تک پیغام چلا گیا ہے کہ پاکستان کی حکومت یاریاست کا کوئی ادارہ عمران خان صاحب کے ساتھ زیادتی اور ناانصافی برتنے کی جرأت نہیں دکھاسکتا۔معمول کی کارروائی تحریک انصاف نے میڈیا کے بھرپور استعمال کی بدولت حق وباطل کے مابین ہوئے ایک ڈرامائی معرکہ میں بدل ڈالی۔عمران خان صاحب اس کے انجام پر کامیاب وکامران ثابت ہوئے۔
پیر کے دن عمران خان صاحب کا بیانیہ جس شدت سے روایتی اور سوشل میڈیا پر چھائے رہا اس نے عمران خان صاحب کے مخالفین وناقدین کو بوکھلادیا ہے۔ جلے دل ہذیان سے مغلوب ہوکر سوال اٹھانا شروع ہوگئے کہ عمران خان صاحب کو عدالت کی جانب سے ایسی رعایتیں کیوں دی جارہی ہیں جن کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ذوالفقار علی بھٹو بھی کسی زمانے میں قابل رشک حد تک مقبول رہ نما تصور ہوتے تھے۔لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس مشتاق کی عدالت میں لیکن انہیں کٹہرے میں کھڑا ہونا پڑتا تھا۔ بالآخر اسی عدالت نے انہیں قتل کے الزام میں پھانسی کی سزا بھی سنائی تھی۔ سپریم کورٹ نے اسے برقرار رکھا اور وہ اپریل 1979ء میں پھانسی پر لٹکادئے گئے۔جلن میں یہ حقیقت بھلادی گئی کہ عمران خان صاحب کو کسی سنگین الزام کی وجہ سے ضمانت درکار نہیں تھی۔اسلام آباد میں درج ہوئے چند مقدمات کا معاملہ تھا جن کے تناظر میں محض حفاظتی ضمانت درکار تھی۔ اسلام آباد کی عدالت میں پیشی کے لئے مہلت کی فراہمی انہونی نہیں تھی۔تحریک انصاف نے کمال مہارت سے اسے معرکہ حق وباطل بنادیا۔عوام کو یہ پیغام پہنچایا کہ عاشقان عمران خان کے جذبات کی حدت قانونی ضوابط موم کی طرح پگھلادیتی ہے۔’’عدالتی نرمی‘‘ اس کا بھرپور اظہار تھی۔
عاشقان عمران خان کے لاہور میں بنائے ماحول نے تحریک انصاف کی جانب سے ایوان صدر میں بٹھائے عارف علوی کو بھی ہلاشیری دی۔ہمارے تحریری آئین کو جو عموماََ ابہام سے ماورا تصور ہوتا ہے انہوں نے موم کی طرح استعمال کیا اور پنجاب وپختون خواہ اسمبلیوں کے انتخاب کے لئے 9اپریل کی تاریخ طے کردی۔وہ یہ تاریخ طے کرنے کے اہل تھے یا نہیں؟ اس سوال کا جواب اب سپریم کورٹ کو اپنے تشریح کرنے والے اختیارات بروئے کار لاتے ہوئے فراہم کرنا ہوگا ۔ 9اپریل کا دن طے کرتے ہوئے تحریک انصاف کے دیرینہ کارکن اور عمران خان کے جانثار صدر علوی نے اگرچہ یہ حقیقت بھی یاد رکھی ہے کہ 2022ء کی 9اپریل ہی کو ان کے قائد کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے وزارت عظمیٰ سے فارغ کیا گیا تھا۔عمران خان صاحب کی ممکنہ طورپر دوتہائی اکثریت کے ساتھ اس منصب پر لوٹنے کا سفرلہٰذا 9اپریل 2023ء ہی سے شروع کرنا ہوگا۔ اس روز پنجاب اور خیبرپختونخواہ کی اسمبلیوں کے لئے انتخاب کا انعقاد واقعتا ہوگیا تو آبادی کے اعتبار سے ہمارے سب سے بڑے صوبے میں تحریک انصاف کے برسراقتدار آنے کے امکانات روشن ہیں۔دفاعی اعتبار سے کلیدی تصور ہوتے خیبرپختونخواہ میں بھی ویسے ہی نتائج برآمد ہوں گے۔ان دونوںصوبوں میں تحریک انصاف کی حکومتیں آئندہ پانچ سال کیلئے قائم ہوگئیں تو قومی اسمبلی کے انتخاب محض ’’رسمی کارروائی‘‘ ہی نظر آئیں گے۔ تحریک انصاف کو ان کے دوران ’’واک اوور‘‘ ملتا محسوس ہوگا جو عارف علوی کے آئندہ پانچ برسوں کے دوران ایوان صدر میں براجمان رہنے کو بھی یقینی بنادے گا۔ ’’چوپڑیاں اور وہ بھی دو دو‘‘ کی ممکنہ منظر نامے سے بہتر مثال مل نہیں سکتی۔
’’گیم‘‘ جس انداز میں کھیلی جارہی ہے اس سے گھبرا کر عمران خان صاحب کے سیاسی مخالفین یاصحافی ناقدین ’’جل ککڑی‘‘ والا انداز ہی اختیار کرسکتے ہیں۔اپنی جلن کے اظہار کے لئے ٹویٹس لکھتے ہوئے اپنے قائدین کی ’’بصیرت‘‘کو مگر خدارانظرانداز نہ کریں۔مجھ جیسے بدنصیب 2022ء کے آغاز سے مسلسل خبردار کررہے تھے کہ عمران خان کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے وزارت عظمیٰ سے فارغ کرنا ایک احمقانہ فیصلہ ہے۔ وزارت عظمیٰ سے فراغت کے بعد عمران خان صاحب سنبھالے نہیں جائیں گے۔شیروانی پہننے کی عجلت میں شہباز شریف اور ان کے وفاداروں نے جو عجلت برتی کھلے دل سے اب اس کا خمیازہ بھگتیں۔