وفاقی حکومت نے لاہور ہائی کورٹ میں 1947 سے اب تک توشہ خانہ سے تحائف وصول کرنے کی تفصیلات کی فراہمی کے لیے دائر درخواست پر سماعت کے دوران کابینہ کا ریکارڈ ڈی کلاسیفائیڈ کرنے کا فیصلہ عدالت میں پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ 2002 سے توشہ خانہ تحائف خریدنے والوں کا ریکارڈ ویب سائٹ پر ڈال دیا جائے گا۔
گزشتہ سماعت پر ڈپٹی اٹارنی جنرل اسد باجوہ نے سیل شدہ ریکارڈ پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ توشہ خانہ کے ریکارڈ کو پبلک کر نے کے بارے میں آئندہ وفاقی کابینہ اجلاس میں فیصلہ ہونا ہے۔
وفاقی حکومت کی جانب سے کابینہ کا ریکارڈ ڈی کلاسیفائیڈ کرنے کا فیصلہ اس کو پبلک کرنے کی درخواست کی سماعت کے دوران سنگل رکنی بینچ کے سامنے پیش کیا گیا۔
یہ درخواست شہری منیر احمد نے ایڈووکیٹ اظہر صدیق کے توسط سے دسمبر 2022 میں دائر کی تھی، جسٹس عاصم حفیظ نے درخواست پر سماعت کی۔
درخواست میں قیام پاکستان سے اب تک توشہ خانہ سے دیے گئے تحائف اور جن اشخاص کو تحفے دیے گئے ان کی تفصیلات مانگی گئی ہیں۔
دوران سماعت وفاقی کابینہ کے سیکریٹری اعزاز ڈار توشہ خانہ ریکارڈ سمیت لاہور ہائی کورٹ میں پیش ہوئے، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ وفاقی کابینہ نے 2002 سے اب تک کا توشہ خانہ کا ریکارڈ ڈی کلاسیفائیڈ کر دیا ہے، یہ سارا ریکارڈ ہم ویب سائٹ پر ڈال دیں گے۔
جسٹس عاصم حفیظ نے استفسار کیا کہ 2002 سے پہلے کا ریکارڈ آپ کے پاس نہیں ہے جس پر وفاقی حکومت کے وکیل نے جواب دیا کہ 2002 سے پہلے کا ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ نہیں ہے۔
وکیل وفاقی حکومت نے کہا کہ ہم یہ ریکارڈ ڈی کلاسیفائیڈ کر رہے ہیں کہ یہ تحائف کس نے خریدے، ہم وہ ریکارڈ نہیں دے رہے کہ بیرون ملک سے یہ تحائف دیے کس نے ہیں۔
عدالت نے حکم دیا کہ کابینہ سیکریٹری 2002 سے پہلے کا توشہ خانہ کا ریکارڈ بھی عدالت میں پیش کریں، جسٹس عاصم حفیظ نے کہا کہ آئندہ سماعت پر یہ ریکارڈ بھی عدالت میں پیش کریں کہ یہ تحائف آئے کہاں سے ہیں، آپ یہ ریکارڈ بھی ہمیں چیمبر میں جمع کرائیں گے۔
درخواست گزار کے وکیل اظہر صدیق نے مؤقف اپنایا کہ حکومت کو سارا ریکارڈ عدالت کے سامنے رکھنا چاہیے، جسٹس عاصم حفیظ نے ریمارکس دیے کہ ایک دم سے چیزیں تبدیل نہیں ہوتیں، 2023 میں حکومت نے ریکارڈ ڈی کلاسیفائیڈ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اس کے ساتھ ہی لاہور ہائی کورٹ نے کیس کی مزید سماعت 13 مارچ تک کے لیے ملتوی کردی۔
گزشتہ سماعت پر وفاقی حکومت نے توشہ خانہ کا سیل شدہ ریکارڈ عدالت میں پیش کردیا تھا، کیس کی سماعت ملتوی کرتے ہوئے عدالت عالیہ نے توشہ خانہ سربراہ کو بیان حلفی کے ساتھ طلب کیا تھا۔
واضح رہے کہ اس سے قبل ایک سماعت کے دوران لاہور ہائی کورٹ نے قیام پاکستان کے بعد سے سیاسی حکمرانوں اور بیوروکریٹس کو غیر ملکی شخصیات کی جانب سے ملنے والے توشہ خانہ کے تحائف کی تفصیلات جمع کرانے کا حکم دیا تھا۔
عدالت کے حکم کے جواب میں حکومت نے عدالت میں مؤقف اپنایا تھا کہ توشہ خانہ معلومات افشا کرنے سے غیر ملکی تعلقات خراب ہو سکتے ہیں، حکومت کے جواب پر عدالت نے ہدایت کی تھی کہ معلومات کے ’کلاسیفائیڈ‘ ہونے کے حوالے سے 2 ہفتے میں حلف نامہ جمع کرایا جائے۔
سیکریٹری کابینہ کی جانب سے جمع کرائے گئے تحریری جواب میں کہا گیا تھا کہ 26 نومبر 2015 کے وزیراعظم آفس کے سرکلر کے تحت توشہ خانہ کے تحائف کی معلومات کلاسیفائیڈ ہوتی ہیں، ایسی معلومات کو افشا کرنے سے غیر ضروری میڈیا تشہیر ہو سکتی ہے جس سے غیر ملکی تعلقات کو نقصان ہو سکتا ہے، بین الاقوامی پریکٹس کے مطابق نئی توشہ خانہ پالیسی بنا رہے ہیں۔
سیکریٹری کابینہ ڈویژن کے جواب میں کہا گیا تھا کہ وزیر اعظم نے بین الاوزارتی کمیٹی بنائی جس نے پالیسی پر اپنی تجاویز جمع کرائیں، نیا توشہ خانہ بل وزیراعظم آفس کی منظوری کے بعد وفاقی کابینہ کے روبرو رکھا گیا، ہدایت کی روشنی میں توشہ خانہ بل کابینہ کے ارکان کو بھیج دیا ہے۔
خیال رہے کہ توشہ خانہ، کابینہ ڈویژن کے انتظامی کنٹرول کے تحت 1974 میں قائم کیا گیا محکمہ ہے جو حکمرانوں، اراکین پارلیمنٹ، بیوروکریٹس کو دیگر ممالک کی حکومتوں اور ریاستوں کے سربراہان اور غیر ملکی مہمانوں کی جانب سے دیے گئے قیمتی تحائف کو اپنی تحویل میں رکھتا ہے۔
یہ محکمہ سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف توشہ خانہ کے تحائف اور ان کی مبینہ فروخت سے حاصل ہونے والی آمدنی کی تفصیلات شیئر نہ کرنے اور جھوٹے بیانات اور غلط ڈیکلیریشن پر ان کی نااہلی کی وجہ سے حالیہ دنوں میں خبروں میں رہا ہے۔
توشہ خانہ قوانین کے مطابق تحائف اور اس طرح کی موصول ہونے والی دیگر اشیا کو کابینہ ڈویژن میں رپورٹ کیا جائے گا۔