رسول حمزہ پہلی نظر میں تو کسی مافیا کا رکن دکھائی دیتا ہے، سونے کے دانتوں سے لیس مسکراہٹ چہرے پر سجائے، اس نے بڑی بے تکلفی سے اپنا موبائل فون میرے ہاتھ میں تھماتے ہوئے کہا کہ ”بھائی! یہ جاپانی عورت کیا کہہ رہی ہے؟ فون سن کر مجھے ذرا روسی زبان میں ترجمہ بتاؤ۔“ ویسے تو روسی لوگوں کی اکثریت ہی بے تکلف ہوتی ہے لیکن سیاہ بالوں والا یہ نوجوان، جونین، نقش سے کوہِ قاف کے علاقے سے آیا محسوس ہو رہا تھا، کچھ زیادہ ہی بے تکلف تھا۔ مگر اس کی بے تکلفی میں ایک گرمجوشی، اپنائیت اور خلوص کا رنگ چھلکتا تھا، اس لیے یہ بے تکلفی بھلی لگی۔ اور ہاں! یہاں یہ وضاحت کرتا چلوں کہ میں جنات، دیو اور پریوں کی سرزمین کوہ قاف کا ذکر نہیں کر رہا بلکہ روس کے مسلم اکثریتی، پہاڑی علاقے کا تذکرہ مقصود ہے۔میں نے بخوشی موبائل فون پکڑ کر بات کرنے پر آمادگی ظاہر کر دی، بات مکمل ہوچکی تو مجھ سے فون پکڑتے ہوئے کہنے لگا: ”یار! میری کھوپڑی میں تو یہ جاپانی زبان نہیں گھستی، بہت کوشش کی……“
اس کی گفتگو کا لُبِ لباب یہ تھا، کہ گویا سارا قصور اس نامراد جاپانی زبان کا ہے، جو ابھی تک اس کے دماغ میں جگہ بنانے میں ناکام رہی ہے۔ میرے استفسار پر اس نے اپنا نام بتایا، رسول حمزہ!! نام سنتے ہی ذہن میں داغستانی، خوش نوا شاعر رسول حمزہ کی نظمیں گونجنے لگیں۔ فیض احمد فیض کا سفرنامہ ”مہ و سالِ آشنائی“ اس بے مثل شاعر کا خاکہ بڑی صراحت سے بیان کرتا ہے، اپنے مجموعہ کلام ”نسخہ ہائے وفا“ میں بھی فیض صاحب نے رسول حمزہ کی چند نظموں کا اُردو میں ترجمہ شامل کیا ہے، جو کلاسیکی ادب کا درجہ رکھتا ہے۔
نام سن کر میں نے بے اختیار کہہ دیا ”تمہیں پتا ہے رسول حمزہ داغستان میں ایک بہت بڑا شاعر ہو گزرا ہے؟‘ میرے سوال پر اس نے ایک بار پھر اپنے سونے کے کور میں ملبوس دانتوں کی نمائش کی اوریہ دھماکہ خیز انکشاف کیا کہ عظیم انقلابی شاعر رسول حمزہ اس کے والد کا دوست تھا، ناصرف اس نوجوان کا نام اس کے والد نے اپنے شاعر دوست کے نام پر رکھا بلکہ یہ بچپن میں رسول حمزہ کے ہاتھوں میں کھیلتا رہا ہے۔ اس کا والد رسول حمزہ کے داغستان میں واقع گاؤں کے پرائمری سکول میں استاد تھا۔ یہ حیرت انگیز انکشاف سن کر میں نے اسے اپنے ساتھ کافی پینے کی دعوت دی، جسے اس نے نقد ہی قبول کر لیا۔ کافی کے مگ ہاتھ میں تھامے، دیر تک ہم داغستان اور ادب کے متعلق گفتگو کرتے رہے۔ بُلّھے شاہ کی کافیوں کے علاوہ مجھے کولمبیا کی کافی بہت پسند ہے۔ کافی کی ان دونوں اقسام میں ایک چیز مشترک ہے کہ دونوں ہی ایک خاص قسم کی کیفیت طاری کر دیتی ہیں۔ باتوں باتوں میں اس نے پوچھا کہ ”آج کل کیا پڑھ رہے ہو؟“ بظاہر جرائم پیشہ نظر آنے والا یہ داغستانی مسلمان اچھا خاصا پڑھا لکھا آدمی نکلا۔ یہاں یہ وضاحت کرتا چلوں کہ میں پڑھا لکھا اسے نہیں کہتا جس نے کالج، یونیورسٹی سے ڈگریاں لے رکھی ہوں، بلکہ وہ شخص جسے پڑھنے لکھنے سے شغف اور کتابوں سے رغبت ہو۔ خیر!! میں نے بتایا کہ لیوٹالسٹائی کی ”جنگ اور امن“ ان دنوں دوبارہ زیرمطالعہ ہے۔ رسول حمزہ کہنے لگا کہ کامریڈ لینن مگر اس ادیب سے شاکی تھا، لینن کا کہنا تھا کہ اگر ٹالسٹائی نہ ہوتا تو اکتوبر 1917ء میں برپا ہونے والا بالشویک انقلاب، دس سال پیشتر ہی روسی قوم کو نصیب ہو جاتا۔
لیوٹالسٹائی کے نظریات سے علمی سطح پر اختلاف ممکن ہے مگر دنیا کے کسی بھی صاحب مطالعہ شخص سے اگر یہ سوال کیا جائے کہ عالمی ادب کی تاریخ میں سب سے بڑا ناول نگار کون ہے؟ اور سب سے عظیم ناول کون سا ہے؟ تو یقینا جواب ٹالسٹائی اور اس کے شہرہ آفاق ناول ”جنگ اور امن“ کے علاوہ کوئی دوسرا نہیں ہو سکتا۔ اس ناول کو شائع ہوئیڈیڑھ صدی کاعرصہ بیت گیا مگر آج بھی اس کی اہمیت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی، بلکہ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ اضافہ ہی ہوا ہے۔دو صدیوں پہلے کے تناظر میں لکھے گئے اس جنگی ناول کا مرکزی نقطہ زارِ روس اور نپولین بوناپاٹ کے درمیان لڑی جانے والی جنگ اور اس جنگ کے ہنگام کا روسی معاشرہ، بالخصوص روسی اشرافیہ کی زندگی پر اس کے اثرات ہیں۔ کئی اعتبار سے اس ناول نے جنگ کے متعلق ہزاروں سال سے پائی جانے والی انسانی سوچ کو ایک نیا زاویہ اور ادب کو اک نیا موڑ عطا کیا ہے۔ ٹالسٹائی انسانی تاریخ میں وہ پہلا ادیب تھا جس نے ہزاروں صفحات پر مبنی اپنے اس ناول میں جنگ کے محاسن، جنگی ترانے، پرچم، جوش و جذبہ اور سپاہ کے حوصلے کی تعریف میں شاہنامے نہیں لکھے بلکہ جنگ کی تباہ کاریوں، زخمیوں کے دکھ درد، ورثاء کی کسمپرسی، اور سپاہیوں کی گھریلو زندگی پر جنگ کے زہریلے اثرات کا جائزہ پیش کیا ہے۔ اسی ناول میں لیوٹالسٹائی نے پورے عالم میں سب سے جامع تسلیم کی جانے والی ”امن“ کی تعریف بیان کی ہے، اس کے بقول ”امن دو جنگوں کے درمیانی وقفے کو کہتے ہیں“ بنیادی طور پر وہ ایک امن پسند آدمی تھا، بیسویں صدی کے آغاز میں جب روس اور جاپان کے درمیان جنگ ہوئی، جس میں روس کو شکست ہوئی تھی، ٹالسٹائی نے اس جنگ کے خلاف ایک کتابچہ شائع کیا تھا جس کی پاداش میں اسے جیل بھی جانا پڑا۔ باتیں جاری تھیں کہ رسول حمزہ نے ایک انکشاف نما سوال داغ دیا کہ ”تمہیں پتا ہے کہ ٹالسٹائی مسلمان ہو گیا تھا؟“ میں نے بے یقینی کا تاثر دیتے ہوئے کہا: ”میرے دوست! کس کی بات کر رہے ہو کہ مسلمان ہو گیا تھا؟“ رسول حمزہ نے بھی جواباً طنزیہ انداز اپناتے ہوئے کہا: ”جنابِ شاعر! میں ”ایناکارینینا“ کے خالق آنجہانی کاؤنٹ لیونکولائی وچ ٹالسٹائی کا ذکرِ خیرکر رہا ہوں۔“ رسول حمزہ نے چونکہ بچپن سے ہی عالمی سطح کے ادیبوں کی باتیں اور گفتگو سننے کے علاوہ ایک ادبی ماحول میں پرورش پائی تھی، اس لیے روسی ادب اور ادیبوں کے متعلق ایسے ایسے تہلکہ خیز انکشافات کیے کہ چودہ طبق روشن ہو گئے۔ میں نے کہا: ”مجھے یہ تو معلوم ہے کہ اس نے آرتھوڈوکس عیسائیت کو خیرباد کہہ دیا تھا“ اور یہ بات تو ریکارڈ کا حصہ ہے، مگر ٹالسٹائی کے مسلمان ہونے کے متعلق تو آج تک نہ کہیں پڑھا اور نہ ہی کسی سے ایسی بات سنی ہے۔
میری حیرانگی دیکھ کر رسول حمزہ کہنے لگا کہ اس میں اچنبھے کی کوئی بات نہیں، بڑی منطقی سی بات ہے۔لیوٹالسٹائی نو سال کا تھا جب ماں کے بعد اس کا باپ بھی فوت ہوگیا، تو وہ اپنی پھوپھی کے پاس قازان چلا گیا تھا جہاں سے اس نے بنیادی تعلیم مکمل کی تھی، یہ مسلم اکثریتی علاقہ ہے، یوں یہ بات تو طے ہوئی کہ اسے بچپن سے ہی اسلام کا بنیادی تعارف حاصل تھا۔ آخری عمر میں جب وہ عیسائیت ترک کر چکاتھا، تب اس کی ملاقات چیچنیا کے ایک مسلمان امام مسجد سے ہوئی، ٹالسٹائی عمر کے آخری حصے میں کئی بار اس عالم دین سے ملنے کے لیے چیچنیا گیاتھا، اور اسی امام کے ہاتھوں بالآخر مشرف بہ اسلام ہوا تھا۔ سچی بات تو یہ ہے کہ میرے لیے یہ کوئی معمولی خبر نہیں تھی، بعض اوقات خبر کا بڑا ہونا ہی دل میں شکوک و شبہات، وسوسے اور بے یقینی پیداکرنے کا سبب بن جاتا ہے، اسی ذہنی ادھیڑ بن میں تھا جب میں نے پوچھا کہ اگر ٹالسٹائی مسلمان ہو گیا تھا تو پھر کسی جگہ اس بات کا ذکر کیوں نہیں ملتا؟
رسول حمزہ کا استدلال تھا کہ ہمیں غور کرنا چاہیے کہ یہ واقعہ کن حالات میں وقوع پذیر ہوا؟ یہ روس میں مذہب اوراشرافیہ سے بیزاری کا دور تھا، کیمونسٹ انقلاب کا لاوا پک چکا تھا، روسی کسان لینن اور ٹراٹسکی کی قیادت میں شہنشاہیت کا خاتمہ کرنے جا رہے تھے۔ ایک بات تو ہمیں ماننا ہی پڑے گی کہ امن پسندی اپنی جگہ، مگر ٹالسٹائی نہ صرف خود جاگیردار اور روسی اشرافیہ کا اہم رکن تھا بلکہ اس کی تحریریں بھی روسی طبقہ اشرافیہ کے متعلق ہی ہیں۔ اس لیے اس کے اسلام قبول کرنے کے واقعے کو اہمیت نہ ملنا قابلِ فہم ہونا چاہیے۔ اس موضوع پر کئی ادیبوں سے تبادلہئ خیال ہوا ہے، چند لوگوں نے رسول حمزہ کے بیان کی تصدیق کی ہے اور کچھ نے تردید، زیادہ تر اہلِ علم نے لاعلمی کا اظہار کیا ہے۔ اس موضوع پر اگر مزید کبھی کوئی معلومات حاصل ہوئیں تو ضرور پیش کروں گا۔
حرفِ آخر! کل شام ٹرین میں بھاری بھرکم بیگ اٹھائے، ایک نوعمر جاپانی ٹیکنیشن ملا، پوچھنے پر پتا چلا کہ پاکستان سے واپس آ رہا ہے، ایک ٹیکسٹائل مل میں کام کے سلسلے میں دو ماہ فیصل آباد گزار کے آیا تھا، میں نے رسمی تعارف کے بعد پوچھا کہ پاکستان میں رہنے کا تجربہ کیسا رہا؟ پاکستانی قوم کے بارے میں کیا تاثر لے کر آئے ہو؟ وہ تو پاکستان میں قیام کے نشے سے سرشار تھا، کہنے لگا کہ پاکستانی بہت مہمان نواز، ملنسار اور کھلے دل کے مالک ہیں، مجھے نہ تو اردو آتی تھی اور نہ ہی انگریزی مگر میں نے پاکستان کے لوگوں کوبہت مددگار پایا۔ آپ لوگوں کا مشترکہ خاندانی نظام مجھے بے حد پسند آیا۔ میری خواہش ہے کہ بار بار پاکستان جاؤں۔ بلاشبہ پاکستانی قوم میں بے شمار خوبیاں ہیں، جہاں ہم اپنی خامیوں اور ناکامیوں کے تذکرے کرتے ہیں، کبھی کبھی ان خوبیوں کا بھی ذکر ہونا چاہیے۔