Site icon DUNYA PAKISTAN

مادری زبان کا عالمی دن اور ڈاکٹر سید یوسف حسن

Share

محمد حسن
ایمسٹرڈیم، دی نیدرلینڈز
برطانوی نو آبادیات کے خلاف بر صغیر کی آزادی کی تحریک میں کمیونسٹوں کی ادارےسمیت ترقی پسندرجحان کے حامیوں کا بڑا کردار رہا ہے۔ اس وقت کمیونسٹ نظرئیے کے حامی اپنے تئیں تحریکِ آزادی کے لئے سلسلہ وار مظاہروں، ہڑتالوں اور دیگرسیا سی پروگرام کے ذریعہ سرگرم عمل رہے۔ کمیونسٹ کارکنان ہندوستان کی آزادی کے لئے انقلابی تحریک چلا رہے تھے تاکہ ہندوستان کے کسانوں اور محنت کش طبقات کو انگریزسمیت مقامی سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے خلاف منظم کیاجاسکے ۔ان کا اصل مقصد یہ تھاکہ عام عوام سیاسی طور پر بااختیار ہوں تاکہ ملک میں سبھوں کے لئے مساوی حقوق ِ اور وسائل پر برابر کی رسائی ہوسکے۔ واضح رہے کہ ۱۹۱۹ میں ہندوستان ریپبلکن ایسوسی ایشن کے نام سے کمیونسٹوں کی ایک تنظیم قائم ہوئی۔ بعد ازاں ہندوستان سوشلسٹ ریپبلکن ایسوسی ایشن کے نام سےایک اور تنظیم تشکیل دی گئی، فیصلہ ہوا کہ یہ سیاسی پارٹی کمیونسٹ انٹرنیشنل کے تعاون سے کام کریگی۔مختلف سیاسی تناظرمیں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیاجو کہ ایک بڑی سیاسی پارٹی ہے ۱۹۲۵ میں قائم ہوئی۔
۱۹۴۷ میں دو قومی نظرئیے کے تحت برِ صغیر کو تقسیم کیا گیا اور اسی طرح دنیا کے نقشے میں مذہبی بنیاد پر دو آزاد ممالک ابھر کر سامنے آئے۔ اس دوقومی نظرئیے نے لاکھوں خاندانوں کے بسے بسائے گھر اجاڑ دئیے۔کروڑوں لوگوں کو ہجرت جیسی اذیت ناک مرحلے سے گذرنا پڑا اوروہ غیر انسانی زندگی گذارنے پرمجبور ہوئے۔
 ۱۹۴۸ میں کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے نام سےایک سیاسی تنظیم قائم کی گئ جس کے بانی تھے سجاد ظہیر ۔برصغیر کے ایک مشکل ترین حالات میں سجاد ظہیر کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کی ذمہ داری سنبھالی اور اپنی پارٹی کو سر گرم عمل کرنے کے لئے مختلف اقدامات کئے۔ انہوں نے اپنی پار ٹی کو مزید وسعت دینےکے لئے بھارت میں علی گڑھ یونیورسٹی کا رخ کیا جہاں ان کی ملاقات دوسرے دیگرطلبہ کے ساتھ سید یوسف حسن سے ہوئی۔ سید یوسف حسن علی گڑھ یونیورسٹی کے ان طلباء میں سے تھے جنہوں نے اپنے طالب علمی کے زمانے سے ہی ترقی پسند نظرئیے نیز کمیونی ازم سے متاثرتھے۔اُس زمانے میں علی گڑھ یونیورسٹی میں ان کی ملاقات معین احسن جذبی، جاں نثار اختر، مختار الدین آرزو اور کیفی اعظمی سے ہوئی۔ یہ تمام شخصیتیں اردو ادب کے نمایاں ترقی پسند مصنفوں میں سے ہیں۔ واضح رہے کہ سید یوسف حسن کیفی اعظمی کی شخصیت سے اتنا متاثر تھےکہ انہوں نے اپنےاکلوتے صاحبزادے کا نام کیفی حسن رکھا۔ انہوں نے اپنی تنظیمی صلاحیت کوبروئے کار لاتے ہوئے یونیورسٹی میں ذاتی تعلقات استوار کئے تاکہ تقسیم ہند کے بعدماند پڑنے والی ترقی پسند تحریک کومزیدفروغ دیا  جاسکے۔ ان کی اس تنظیمی صلاحیت کو سراہتے ہوئے ۱۹۴۹میں سجاد ظہیرنے سید یوسف حسن کو مشرقی پاکستان میں کمیونسٹ پارٹی کی سرگرمیوں کو منظم کرنے کا مشورہ دیا۔ سجاد ظہیر کی اس پیشکش کی تکمیل کے لئے وہ ۱۶ اکتوبر ۱۹۴۹ میں مشرقی پاکستان  چلے آئے۔ یہ وہی یوسف حسن ہیں جنہوں نے مشرقی پاکستان کسی ذاتی مفادکی خاطر نہیں بلکہ ایک سیاسی اور نظریاتی مقصد کی بقاء کے لئےہجرت جیسے اذیت ناک مرحلے طے کرتے ہوئے یہاں پہنچے اور اسی ملک کے ہو کر رہ گئے جو بعدمیں۱۶ دسمبر ۱۹۷۱ میںایک آزاد ملک بنگلہ دیش کے نام سے دنیا کے نقشے میں ابھرا۔  
سید یوسف حسن ۴نومبر ۱۹۲۶ کو صوبہ بہار کے دارالحکومت پٹنہ میں ایک زمیندار خاندان میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام سید اشرف حسین تھا۔ان کے والد نے ۱۹۴۳ میں انہیں علی گڑہ یونیورسٹی میں اعلیٰ تعلیم کی حصولی کے لئے بھیجا تھا۔ ۱۹۴۹ میں  انہوں نے علی گڑھ یونیورسٹی سےاردو میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔
جب سید یوسف حسن مشرقی پاکستان پہنچے تو یہاں بنگالی عوام اپنی مادری زبان بنگلہ کی بقاء کی جہد میں شامل تھے۔ یوسف حسن نے ان کے جہد کا بہت ہی دوربینی سے جائزہ لیا اور اس فیصلے پرپہنچے کہ بنگا لی جوکہ پاکستان کی اکثریتی آبادی ہے اور ان کا مطالبہ کہ اردو کے ساتھ ساتھ بنگلہ کو بھی سرکاری زبان کی حیثیت سے تسلیم کیا جانا چاہئے ،ایک جمہوری اور جائز مطالبہ ہے۔ اس مطالبہ کی حمایت کی جانی چاہئے۔انہوں نے بنگالیوں کے جائز مطالبے کی حصولی میں شانہ بشانہ حصہ لیا۔ ان کی شخصیت سابق مشرقی پاکستان میں اردو بولنے والوں میں پہلی اورواحد شخصیت ہیں جنہوں نے بنگلہ زبان کی حمایت میں آل پارٹی مرکزی قومی کونسل برائے مادری زبان کی جدوجہد جسے عام طور پربھاشاسنگرام پریشد(لسانی تحریک)کے نام سے جانا جاتاہے، میں ایک رکن کی حیثیت سے نامزد کئے گئے۔ اس وقت ایک اردو داں ہونے کے ناطے  یہ بہت ہی ہمت کی بات تھی کہ اربابِ اختیار اور اسٹبلشمنٹ کےخلاف بنگالیوں کی حمایت میں یوسف حسن آ کھڑے ہوئےبلکہ یوں کہئے کہ وہ لہر کے خلاف ایک محاذ میں کھڑے ہوگئے۔اس طرح وہ اپنی جمہوری کردار اور انسان دوست ہونے کا ثبوت دے رہے تھے۔ بھاشاسنگرام پریشد(لسانی تحریک) کی ایک میٹنگ میں انہوں نے تجویز پیش کی کہ اس مہم میں اردو داں طبقوں کو بھی سامنے آنا چاہئے۔ اس لئے انہوں نے بنگلہ پمفلٹ کا اردو میں ترجمہ اور انکے درمیان تقسیم کے لئےزوردیا۔انہوں نےخود ا س پمفلٹ کا اردو ترجمہ کیا اور اسے اردو بولنے والوں میں تقسیم کروائی۔ ان کی ان اقدامات کی وجہ سے اس وقت مشرقی پاکستان کے بہت سارے اردو شعراء ادباء، صحافی و مفکرنے اس تحریک میں براہِ راست حصہ لیا۔ ان میں عارف ہوشیارپوری (ادیب وشاعر )، ایاز عصمی (افسانہ نگار)، مسعود کلیم (شاعر)، اختر پیامی (صحافی و شاعر)، اختر حیدرآبادی (شاعر)، ادیب سہیل (افسانہ نگار، شاعرو صحافی)، خواجہ محمد علی (ادیب)، بشر منظور رحمن (ادیب)، صلاح الدین محمد (شاعروصحافی)، فخر الدین احمد (انجینئر)،پرویز احمد (بیرسٹر)، حسن سعید (صحافی)، ابو سعید خان (مصنف)، زین العابدین (افسانہ نگار وصحافی)، عطا الرحمن جمیل (شاعر)، نوشاد نوری (شاعرو صحافی)، حبیب انصاری (بزنس مین)، بانو اختر سہود (مصنف)، ام عمارہ (افسانہ نگار)، انور فرہاد (شاعروصحافی) اور احمد الیاس (شاعرو صحافی) شامل تھے۔یوسف حسن نے ایک اور نایاب کام انجام دئیے کہ بنگالیوں کی جمہوری مطالبہ کوتسلیم کرنے کے بارے میں اخبار میں بیان جاری کئے۔
سماج کی تعمیر میں اہم کردار دا کرنے والی شخصیت ڈاکٹر یوسف حسن ذرائع ابلاغ کو ترجیح دینے کی کوشش کی۔ ان کی اس فکر کی تکمیل کے لئے انہوں نے ۱۹۵۰ میں ڈھاکہ سے ترقی پسند مصنفین کی ترجمان اردو ماہنامہ”رفتار” شائع کیا لیکن حکومتِ پاکستان نے اس رسالے پر پابندی عائد کر دی۔
۲۱ فروری ۱۹۵۲ میں جب ڈھاکہ کے شاہ راہ پر مادری زبان بنگلہ کو تسلیم کے مطالبہ کے احتجاجی جلوس میں پولیس نے گولیاں چلائیں اور جائے وقوع پر ہی کئی طلبہ اور نوجوان شہید ہوئے اس وقت ڈاکٹر یوسف حسن ڈھاکہ کے قریب نرائن گنج کے ایک اسکول میں بطورمدرس برسرِ روزگار تھے۔ جب ڈھاکہ سے یہ خبر ان تک پہنچی تو انہوں نے ۲۲ فروری ۱۹۵۲ کو نارائن گنج میں ایک احتجاجی جلوس نکالا۔ پولیس نےان کے اس اقدام کی وجہ سے انہیں گرفتار کرلیا۔
واضح رہے کہ وہ مشرقی پاکستان میں کمیونسٹ پارٹی کومنظم کرنے کے سلسلے میں مصروف عمل تھے کہ۱۹۵۴ میں پاکستان حکومت نے کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے خلاف روالپنڈی سازش مقدمہ کے تحت ان کی سرگرمیوں پر پابندی عائد کردیں اور اسی طرح سید یوسف حسن کمیونسٹ پارٹی کو منظم کرنے کے لئے خفیہ اقدامات کرتے رہے ۔

یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ ۱۹۵۴ میں چین میں ہونے والی امن کانفرنس کا دعوت نامہ سید یوسف حسن کے نام ارسال کیا گیاتھا جس میں مشرقی پاکستان سے پانچ مندوبین کی شرکت کی پیشکش کی گئی تھی۔ یہ کانفرنس آج بھی بنگلہ دیش کی تاریخ کا ایک بڑا حصہ مانا جاتا ہے کیونکہ اس کانفرنس میں بنگلہ دیش کے بانی شیخ مجیب الرحمن بھی شامل تھے۔ انہوں نے یہ دعوت نامہ لے کر خندکارمحمد الیاس کےپاس پہنچے جو ان کےقریبی اور قابلِ اعتماد ساتھیوں میں سے تھے۔خندکار الیاس کے مشورے پر اس کانفرنس میں شیخ مجیب الرحمن،بانی بنگلہ دیش ، عطاء الرحمن خان،قانون داں، سیاسی رہنما اور بعد ازاں  مشرقی پاکستان کے وزیر اعظم بھی رہے، تفضل حسین (مانک میا)، مدیر ،مشہوربنگلہ روزنامہ اتفاق، خندکرمحمد الیاس،مصنف، سیاسی رہنماو تاریخ نویس اورسید یوسف حسن کے نام شامل تھے۔ دعوت نامہ کے حوالے سےاس بات کا اظہار یوسف حسن نے راقم الحروف سے ایک نجی گفتگو کے دوران کیا تھا۔ اس بات کو اس لئے رقم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ لوگوں کو مشرقی پاکستان میں اردو داں کی خدمات سے آگاہی ہو اور اس کے ذریعہ یہ باتیں تاریخ کا حصہ بھی بنے۔ سید یوسف حسن کو اس کانفرنس میں شمولیت سے روکنے کے لیے اس وقت حکومت پاکستان نے مختلف رکاوٹیں کھڑی کیں۔ حکومتِ پاکستان انہیں  پاسپورٹ نہ دینے کا فیصلہ کیا تھا لیکن شیخ مجیب الرحمن کی مداخلت سے انہیں  امن کانفرنس میں شرکت کرنے کا موقع ملا۔

ایک سیاسی رہنما کی حیثیت سے وہ فعال تھے اس لئے جب پاکستان میں فوجیوں نےاقتدار پر قبضہ کیا تو دوسرے دیگر لوگوں کے ساتھ انہیں بھی۱۹۵۴ اور۱۹۵۸ میں گرفتارکیا گیا۔اسی طرح انہیں  عوامی حقوق اورجمہوریت کی بالادستی کےلئے جبر و ظلم سہنے پڑے۔ لیکن انہیں کسی طرح روکنا ناممکن تھا۔ واضح رہے کہ ۱۹۶۷ میں جب نیشنل عوامی پارٹی ٹوٹ کر دو حصوں میں بنٹ گئی تو نیشنل عوامی پارٹی (مظفر)کے بانیوں میں  سید یوسف حسن پیش پیش رہے ۔تحریکِ قیامِ بنگلہ دیش میں اس پارٹی کی بہت ساری خدمات آج بھی بنگلہ دیش کی تاریخ میں نمایاں ہیں۔    
سید یوسف حسن کی ذہانت کی تشخیص کرتے ہوئے ان کے بھائی سید قیس محمد نےا نہیں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے میں حوصلہ افزائی کی۔ چنانچہ انہوں نے ڈھاکہ یونیورسٹی کے شعبئہ اردو و فارسی سے” مشرقی بنگال میں اردو” کے عنوان سےڈاکٹر عندلیب شادانی کی نگرانی میں تحقیقی کام کا آغازکیا اوربہت ہی مشقت سے اپنی تحقیقی کام کا احاطہ کیا جو کہ پاکستان کی تاریخ میں ایک بڑا کارنامہ تھا۔ لیکن پھر سے انہیں پاکستان حکومت کے اعتاب کا شکار ہونا پڑا۔ ان کی ڈگری حکومت کی خاموش اشارے پر تقریباً دو سال تک موخر کردیا گیا۔ ایک طویل کوششوں کے بعد سید یوسف حسن کی تحقیقی مقالہ کو قبول کرتے ہوئےانہیں ۱۹۷۱ میں پی ایچ ڈی کی ڈگری دی گئی۔لیکن ۱۹۷۱ میں سیاسی بحران اورمشرقی پاکستان کا ٹوٹ جانا نیز جنگ آزادی کےدوران اور اس کے بعد اردو بولنے والوں  پر ڈھائے گئے اعتاب، جبر و ظلم نے ڈاکٹر سید یوسف حسن کو مایوس کردیا۔ جس زبان کی بقاء کے لئے انہوں نے اتنی جد و جہد کی اسی زبان کے بولنے والے اردو کو صفحہ ہستی سےمٹانے کے لئے کیاکچھ نہیں کیا۔ ان تمام صورتحال نے انہیں دل برداشتہ کردیا اوروہ گوشہ نشین ہوگئے۔دارالحکومت ڈھاکہ کو الوداع کہتے ہوئے ملک کے جنوب مغرب میں واقع تیسرا بڑا شہر کھلناچلے گئے۔ان کی شخصیت ایسی تھی کہ انہیں ایک یونیورسٹی کا پروفیسرکے عہدے پر فائض ہونا تھا لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ  انہوں نے شکست بھی قبول نہیں کی اور کھلنا شہر میں  لائنس انگلش اسکول کے پرنسپل کے طوپر خدمات انجام دیئے  بعد ازاں انہوں نےکھلنا پریپاریٹری اسکول کے نام سے ایک اسکول کی بنیاد رکھی ۔ آج بھی یہ اسکول وہاں تعلیم کی روشنی پھیلانے کا بہترین کام کر رہا ہے۔واضح رہے کہ ان کی تحقیقی کتاب “مشرقی بنگال میں اردو” کا پہلا حصہ ۱۹۹۹ میں ڈھاکہ سے شائع ہوا۔
ڈاکٹر سید یوسف حسن کی خدمات کے اعتراف میں۲۰۰۳ میں کھلنا شہر کے ممتاز شہریوں کی تنظیم نےانہیں شہری اعزاز سے نوازا۔ ۲۰۰۶ میں  اردو داں نئی نسل کی تنظیم اور شمس الحق فاؤنڈیشن نے مشترکہ طور پر ڈاکٹر سید یوسف حسن سمیت دوسرے دیگر ۴ اردو داں دانشوروں جن میں نوشاد نوری (شاعر وصحافی)، احمد سعدی(شاعرو مترجم) حسن سعید (صحافی)اور احمد الیاس(ترقیاتی کارکن و شاعر) کو ان کی گراں قدر خدمات کے اعتراف میں اعزازات سے نوازا۔۲۰۰۹ میں بنگلہ-اردو ساہتیہ فاؤنڈیشن نے بنگلہ زبان کی حق میں ان کی گراں قدر خدمات کے اعتراف میں اعزاز سے نوازا۔ بنگلہ زبان کے اہم شاعر اسد چودھری کی از حد کوششوں کے پیشِ نظر ۲۰۰۹ میں زبان کی تحریک میں رہنمائی کرنے والی تنظیم تمدن مجلس نے ڈاکٹر سید یوسف حسن اور احمد الیاس کوایک استقبالیہ دیئے۔۲۰۱۰ میں اسد چودھری کی ایک دیرینہ کوشش رنگ لائی۔ مادر ی زبان کا مہینہ فروری کو شایانِ شان انداز میں  منانے والے ملک کا اہم ادارہ  بنگلہ اکیڈیمی نے اپنے مرکزی منچ پرڈاکٹر سید یوسف حسن کو استقبالیہ دیا۔ اردو داں کے حق پرستار آنجہانی کمال لوہانی جب شلپا کلا اکیڈیمی کے ڈائیرکٹر جنرل کا عہدہ سنبھالا تو انہوں نے بھی ۲۰۱۰ میں اپنی مرکزی منچ پر ڈاکٹر سید یوسف حسن کے خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے انہیں اعزازات سے نوازا۔ واضح رہے کہ ڈاکٹر سید یوسف حسن بنگلہ دیش میں اولڈ علی گڑھ طلبہ ایسوسیشن کے صدربھی رہے ہیں۔ ڈاکٹرسید یوسف حسن ۲۵ دسمبر ۲۰۱۵ میں نوے برس کی عمر میں اس  دارِ فانی سےکوچ کر گئے۔ انہیں محمدپورقبرستان میں سپردِ خاک کیاگیا۔  
چونکہ فروری کا مہینہ بنگلہ دیش سمیت بنگالیوں کے لئے بہت ہی اہمیت کا حامل ہے۔ ساتھ ہی ۱۹۹۹ میں اقوامِ متحدہ کی تنظیم UNESCO  نے بنگلہ زبان کی تحریک کو تسلیم کرتے ہوئے اس دن کو بین الاقومی مادری زبان کا دن قرار دیا ہے تاکہ    بنگلہ دیش کے سرحدپار دنیا کے تقریباً ۱۹۸ممالک میں اس دن کو مادری زبان کاعالمی دن کے طور پر منایا جائے۔ اس موقع  پر بنگلہ دیش سمیت دنیا میں اس دن کے حوالے سے مضمون، ادارئیے اور رپورٹنگ شائع ہوتی رہتی ہیں اور اس تحریک میں شامل جیالوں کو یاد کیا جاتا رہاہے لیکن ایک اردو داں ہونے کی وجہ سے ڈاکٹر یوسف حسن کی عظیم قربانیوں کو  بنگلہ دیش کی تاریخ سے فراموش کردیا گیا۔آج اس مضمون کے ذریعہ ہم   بنگلہ دیش کے اردوداں محقق، سیاسی رہنما اور ماہر تعلیم ڈاکٹر سید یوسف حسن جیسے اس عظیم جیالے کو زبردست خراجِ عقیدت  پیش کررہے ہیں اور انہیں نہایت ہی عزت و احترام کے ساتھ یاد کررہے ہیں۔

Exit mobile version