کالم

جل توجلال تو آئی بلا ٹال تو

Share

بچپن میں ہوا بھرے بیلون اڑانے کا بڑا شوق تھا۔ جیسے ہی غبارے بیچنے والا ہمارے گھر کے پاس سے گزرتا ہم دوڑ کر بیلون خریدتے اور اس کے دھاگے کو ہاتھ میں تھامے خوشی سے اِدھر اُدھر بھاگنے لگتے۔کبھی کبھی توہوا بھرے بیلون اتنے بے وفا نکلتے کہ ہمارے ہاتھ سے چھوٹتے ہی بیلون آسمان کی طرف اُڑ جاتا اور ہم اداس نظروں سے اسے دیکھتے رہ جاتے۔ اور بیلون کی بے وفائی پر خفا ہو کر، بنا کھائے اور پئے سو جاتے۔

اس کے علاوہ ہمیں بیلون کو کاغذ کے بیگ میں موم بتی جلا کر اڑانے کا بھی کافی شوق رہا۔ ہم نے دوستوں کی صحبت میں اس فن کو بھی سیکھ لیا تھا۔جس کے لئے ہم رنگ برنگے بیلون خرید کر کاغذ کے چھوٹے سے بیگ میں دبلی پتلی موم بتی جلا کر اسے اُڑنے کے لئے چھوڑ دیتے۔ جوں جوں بیلون اوپر جاتا ہم خوشی اور حسرت سے اسے دیکھتے رہتے اور سوچتے رہتے کہ ہمارا بیلون کسی اور ملک میں جا کر ہماری محبت اور ہمدردی کا پیغام دے گا۔

لیکن آج میں جس بیلون کی بات کرنے جارہا وہ کوئی عام بیلون نہیں ہے بلکہ یہ ایک “خفیہ بیلون “ہے۔اب آپ بھی سوچ میں پڑ گئے ہوں گے کہ بچپن کی بات کرتے کرتے کیوں میں خفیہ بیلون کی بات کرنے لگا۔دراصل پچھلے کچھ دنوں سے ایک خبر پوری دنیا میں سنی جارہی ہے کہ امریکہ اور کینیڈا کی فضا میں دیو قامد سائز کے سفید بیلون اڑتے ہوئے دیکھے گئے۔ جس کے بعد مت پوچھئے کہ کیا کیا نہیں ہوا۔ پہلے تو امریکہ نے صاف صاف کہہ دیا کہ یہ بیلون چین نے امریکہ کی خفیہ فوجی دستاویز کو جاننے کے لئے بھیجا ہے امریکہ کے اس بیان سے امریکہ سمیت دنیا کے مغربی ممالک کے کان کھڑے ہوگئے۔ اور ہوتا بھی کیوں نہیں۔ بات ہی امریکہ نے کچھ ایسی کہہ دی۔ آناً فاناً امریکی صدر جو بائیدن نے بیلون کو فوراًمار گرا نے کا حکم دے دیا۔ لیکن امریکی فوجی نے بیلون کومارنے سے ہچکچاتے ہوئے کہا کہ خدانخواستہ اگر بیلون کے پھٹتے ہی اس کے اندر سے کچھ جان لیوا چیزیں خارج ہوئی تو امریکی عوام کافی تعداد میں مارے جائیں گے۔

امریکی ابھی ایک سفید بیلون کی بات کررہے تھے اور معاملہ اٹکا ہوا تھا کہ کچھ دن بعد دوسرا بیلون بھی آسمان میں جھومتے ہوئے دکھائی دیا۔اب تو صاحب بیٹھے بٹھائے امریکی فوجی اور سیاستدانوں کی نیند حرام ہوگئی۔ امریکی ٹیلی ویژن پر طرح طرح کے نقشے بنا کر بیلون کو چین سے جوڑ کر الزامات پر الزامات لگائے جانے لگے۔لیکن معاملہ اسی بات پر اٹکا ہوا تھا کہ اس دیو قامد سائز کے سفید بیلون کا کیسے ٹھکانا لگائے جائے،جس نے امریکیوں کی نیند حرام کر رکھی تھی۔
بات یہی ختم نہیں ہوئی۔اس کے بعد برطانیہ کے وزیراعظم رشی سونک نے بھی بیان دے دیا کہااگر چینی بیلون برطانیہ کے فضائی حدود میں دکھائی دیا تو برطانیہ خفیہ بیلون کو فوراً مار گرائے گا۔ان ہی دنوں میں گاڑی چلاتے ہوئے دفتر سے گھر کی طرف لوٹ رہا تھا مگرمیری نظر آسمان کو بار بار گھور رہی تھیں۔ نہ جانے کیوں ایسا محسوس ہورہا تھا کہ کئی سفید بیلون آسمان میں دکھائی دے رہے ہیں۔ اب اسے ہم ذہنی تناؤکہیں یا چین کی شرارت یا امریکہ کا فتنہ یا برطانیہ کی خوف و ہراس۔ خیر بات کچھ بھی ہو ہم تو مارے خوف و ہراس کے مسلسل آسمان کی طرف دیکھتے اور پریشانی میں تاروں کو بھی سفید خفیہ بیلون سمجھ کرجل توجلال تو آئی بلا ٹال تو پڑھنے لگتے۔

آخر کار امریکہ نے اپنے فضائی حدود میں چار اڑنے والی بیلون کو مار گرائے۔ کہا گیا کہ بیلون کی بازیابی میں خراب موسم کی وجہ سے تاخیر ہوئی تھی۔جس کے بعد امریکی فوجی اس کے ملبہ اکھٹا کرنے کی کوشش میں لگ گئے اور بیلون کو سمندر سے نکال کر اس کی جانچ شروع کی گئی۔اس بیچ امریکہ مسلسل چین پر الزام لگاتا رہا کہ اس نے خفیہ بیلون بھیج کر بہت غلط کیا ہے۔ وہیں جاپان نے بھی چین کو خبردار کیا ہے کہ نگرانی والے غباروں کے ذریعے اس کی فضائی حدود کی خلاف ورزیاں مکمل طور پر ناقابل قبول ہیں۔بیجنگ نے جوابی وار کرتے ہوئے کہا کہ جاپان کے پاس اپنے الزامات کی حمایت کے لیے ثبوت کی کمی ہے۔وہیں چین نے دعویٰ کیا ہے کہ امریکی غبارے مئی 2022سے دنیا بھر کی پروازوں میں دس بار بغیر اجازت کے اس کی فضائی حدود سے اُڑ چکے ہیں۔ وائٹ ہاؤس نے اس پر اختلاف کیا ہے۔ تاہم بیجنگ نے اپنے دعووں کا کوئی ثبوت یا تفصیلات پیش نہیں کیں لیکن دعویٰ کیا کہ تبت اور سنکیانگ کے انتہائی محفوظ علاقوں میں امریکی بیلون دیکھے گئے جس پر بیجنگ نے امریکہ پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا الزام لزام لگایا ہے۔

اگر تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو فوجی غبارے کی تاریخ 18ویں صدی کے اواخر سے شروع ہوئی۔ جب مونٹگو لفئیر برادران، جوزف مشیل اور جیکس ایٹین نے پہلی بار فوجی استعمال کے لیے گرم ہوا کے غباروں کی صلاحیت کا مظاہرہ کیا۔ مشاہداتی غباروں کا پہلا فوجی استعمال فرانسیسی انقلابی جنگوں کے دوران فرانسیسی ایرو سٹیٹک کور نے کیا تھا۔ یہ پہلی بار فلورس کی جنگ 1794کے د وران ہوا تھا۔ امریکی خانہ جنگی کے دوران بھی بیلون کا استعمال کیا گیا تھا۔ جنوبی امریکہ میں پیراگوئین جنگ کے دوران برازیل نے جولائی 1867میں ایک جاسوسی غبارہ بھیجا تھا۔پہلی جنگ عظیم میں بھی مشاہدے کے غباروں کا خوب استعمال ہو اتھا۔گویا کہ بیلون کوایک عرصے سے مشاہدے اور خفیہ باتوں کا پتہ لگانے کے لئے دنیا کی بیشتر ممالک استعمال کر رہے ہیں۔

غبارے فضائی جنگ میں استعمال ہونے والے پہلے میکانزم میں سے ایک تھے۔ ان کا کردار بنیادی طور پر جاسوسی کے مقاصد کے لیے تھا۔

بیلون کے بارے میں محاورتاً کہا جاتا ہے کہ پرندوں کی آنکھ سے نظارہ حاصل کر نے کے لیے انسانوں کو میدان جنگ میں خود کو اچھی طرح سے بلندی سے دیکھنے کا پہلا دستیاب طریقہ فراہم کیا۔جو حتمی انٹیلی جنس جمع کرنے کا ایک ابتدائی آلہ تھے اور میدان جنگ کے درسے نقشوں کی تیاری میں بھی خاص طور پر کار آمد تھے۔

امریکہ میں بیلون کو مار گرانے سے جہاں لوگوں کو اس بات سے راحت ملی کہ چین کا خفیہ بیلون ڈھیر ہوگیا تو وہیں زیادہ ترلوگوں کے منہ حیرانی سے اس وقت کھلے رہ گئے جب امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا کہ اب تک کی تفتیش سے پتہ چلا ہے کہ تینوں بیلون ایک نجی کمپنیوں کے ہیں جو تفریحی یا تحقیقی اداروں سے منسلک ہیں۔ یعنی کہ تمام باتیں ایک مذاق تھیں؟ یا قد آور سفیدبیلون امریکہ اور چین کے بیچ تناؤ کا ایک اور نمونہ تھا۔خیرجو بات میں نے اپنے بچپن کی یاد سے شروع کی تھی اور بیلون کو اُڑانے اور اپنے جذبات کا اظہارچند جملوں میں کیا تھاوہ چین کی خفیہ بیلون تک پہنچ کر “جل توجلال تو آئی بلا ٹال تو”تک پہنچ گئی۔

پچھلے کچھ برس سے دنیا کی امن و امان کی صورت حال کافی گمبھیرہے۔ آئے دن کوئی نہ کوئی ملک سینہ تان کر جنگ کرنے کی دھمکی دے رہا ہے اورفی الحال روس اور یوکرین کی جنگ کا کوئی حل نظر نہیں آرہا ہے۔ جس سے کیا دن کیا رات، ہر روزبس اسی بات کا خدشہ لگا رہتا ہے کہ نہ جانے کون اب کس سے لڑ پڑے اورایک بار پھر لاکھوں معصوم لوگ مارے جائیں گے۔لیکن کون کسی کی جان کی پرواہ کرتا ہے۔ ہم تو بس مارے خوف کہ یہی پڑھ رہے ہیں، “جل توجلال تو آئی بلا ٹال تو”۔