وہ ملک جس نے اپنی ’گولڈن ویزا‘ سکیم سے اپنے معاشی بحران پر قابو پایا، مگر اسے ختم کیوں کیا جا رہا ہے؟
پرتگال حالیہ برسوں میں یورپ کے معروف سیاحتی مقامات میں سے ایک رہا ہے اور اسے دنیا میں سب سے زیادہ پرکشش ’گولڈن ویزا‘ پروگرام پیش کرنے کا معاشی طور پر بہت فائدہ پہنچا ہے۔
یہ دونوں پہلو اس ملک کے ماڈل میں کلیدی اہمیت کے حامل رہے ہیں جس کی وجہ سے وہ 2008 کے معاشی بحران کے بعد ملکی معیشت کی بحالی میں کامیاب ہوا اور اسے ترقی کے نمونے کے طور پر دیکھا گیا۔
اس کے باوجود کئی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سیاحوں کی آمد میں تیزی اور نام نہاد ’وسٹو گولڈ‘ یا گولڈن ویزا اس سنگین رئیل سٹیٹ بحران کی بھی بنیادی وجہ بنا جس سے یہ ملک اس وقت دوچار ہے۔
گھروں کی قیمتیں اس حد تک بڑھ گئی ہیں کہ یہ خود پرتگالیوں کے لیے بھی ناقابل برداشت ہیں۔
اس لیے، گذشتہ ہفتے وزرا کی کونسل نے ہاؤسنگ پروگرام کے تحت ریئل سٹیٹ سیکٹر میں قیمتوں کے اضافے کے خلاف لڑنے کے لیے اقدامات کا اعلان کیا ہے۔
ان تبدیلیوں میں سیاحوں کے استعمال کے لیے اپارٹمنٹس کے محدود لائسنس اور گولڈن ویزے کا خاتمہ شامل ہیں جو ریل سٹیٹ کی خریداری، زیادہ سرمایہ کاری یا ملازمت کی پیداوار کے بدلے یورپی یونین سے تعلق نہ رکھنے والے لوگوں کو پرتگالی رہائش کی پیشکش کرتے تھے۔
یہ ایک ایسا پروگرام تھا جس کے مطابق خود ملک کے وزیر اعظم انتونیو کوسٹا نے چند ماہ قبل کہا تھا کہ ’پہلے ہی یہ اس کام کو پورا کر چکا ہے جو اسے پورا کرنا تھا۔‘
ایک مسئلہ اور ایک حل
گولڈن ویزا پروگرام کا استعمال دنیا بھر سے اور یورپ کے بیشتر حصوں سے غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کے لیے کیا گيا۔ دنیا بھر کے لوگوں کو پیش کیے جانے والا ’گولڈن ویزا‘ پروگرام ایسے لوگوں کی حمایت کرتا ہیں جن کے پاس بہت زیادہ سرمایہ ہوتا ہے اور اس کے تحت انھیں اس ملک میں رہنے کی ذمہ داری کے بغیر اس کے فوائد تک رسائی حاصل ہوتی ہے۔
پرتگالی امیگریشن اینڈ بارڈرز سروس کے مطابق یہ ویزہ پروگرام پرتگال میں سنہ 2012 میں نافذ ہوا تھا اور اس کے بعد سے ملک نے سات ارب امریکی ڈالر سے زیادہ رقم اکٹھی کی ہے، جس میں سے 90 فیصد رقم رئیل سٹیٹ کے شعبے میں گئی ہے۔
برطانوی کنسلٹنسی ہینلی اینڈ پارٹنرز نے سنہ 2022 میں مختلف ممالک کی جانب سے پیش کیے جانے والے گولڈن ویزا پر ایک مطالعہ شائع کیا جس میں چالیس سے زائد ممالک کے گولڈن ویزا پروگراموں کا موازنہ کیا گیا اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کو سب سے زیادہ سہولیات فراہم کرنے کے معاملے میں پرتگال پہلے نمبر پر آیا۔
اس کا فائدہ بنیادی طور پر چین کے شہریوں نے اٹھایا جو منظور شدہ 11,500 رہائشی کو ملنے والے اجازت ناموں میں سے تقریباً نصف تھے۔
لیکن یہ اقتصادی فائدہ تنازعے سے مبرا نہیں رہا۔
یورپی یونین نے ان پروگراموں کو منی لانڈرنگ، ٹیکس چوری، دہشت گردی کی مالی معاونت، بدعنوانی اور منظم جرائم کی دراندازی کے لیے استعمال ہونے کے خطرے کے پیش نظر محدود کرنے کی کوشش کی ہے۔
یورپی پارلیمنٹ کے کمیشن آف سول لبرٹیز کے لیے یہ ان نظاموں کے ذیل میں آتے ہیں جو ’اخلاقی، قانونی اور اقتصادی نقطہ نظر سے قابل اعتراض ہیں۔‘
پرتگال میں بھی بہت سی آوازیں شروع سے ہی اس کے نفاذ کے خلاف تھیں اور ان کا اس بات پر اصرار تھا کہ یہ ملک کے لیے فائدہ مند ہونے سے زیادہ نقصاندہ ثابت ہو سکتا ہے۔
بطور خاص انھیں رئیل سٹیٹ مارکیٹ پر ہونے والے اثرات کے ضمن میں خدشہ تھا۔
ہاؤسنگ پروگرام
’مزید ہاؤسنگ‘ پروگرام میں شامل دیگر اقدامات کو اگلے ماہ منظور کر لیا جائے گا۔ اور اس کی وجہ پارلیمان میں انھیں حاصل مکمل اکثریت ہے۔ ان اقدامات میں چھٹیوں میں کرائے کے لیے نئے لائسنسوں پر پابندی ہے۔
پہلے سے دیے گئے لائسنسوں کا سنہ 2030 میں جائزہ لیا جائے گا اور پھر ہر پانچ سال بعد ان کی متواتر جانچ پڑتال کی جائے گی۔
وہ ویزے جو پہلے ہی دیے جا چکے ہیں ان کی تجدید صرف اس صورت میں کی جا سکتی ہے جب گھر خریدنے والے اس میں رہتے ہیں، یا ان کی اولاد میں سے کوئی وہاں رہتا ہے یا اگر وہ اسے طویل مدتی کرائے کے بازار میں پیش کرتے ہیں۔
ریاست کی مداخلت سے ایسے مکانات کو زبردستی کرایہ پر لینے کا منصوبہ بھی ہے جس میں کوئی نہیں رہتا ہے۔
یہ وہ اختیار ہے جس کی وجہ سے سب سے زیادہ تنازع پیدا ہوا ہے کیونکہ اس کے تحت ریاست کرایوں میں ثالثی کر سکتی ہے اور قیمت قائم کرنے اور کرایہ نہ ادا کرنے کی صورت میں اس کا چارج لینا شامل ہے۔
پیشے سے وکیل اور پرتگال کے نائب وزیر اعظم اور پارلیمانی امور کے وزیر کے عہدے پر رہنے والے سیاست داں لوئس مارکیز مینڈیس نے انڈیپنڈنٹ کمیونیکیشن سوسائٹی میں اپنی حیثیت کے تحت اس اقدام کے خلاف بات کی ہے۔
لوئس مارکیز مینڈیس نے کہا: ’مالک ہار جائیں گے، کرایہ دار ہار جائیں گے اور وکلا جیت جائیں گے۔‘ ان کا ماننا ہے کہ یہ اقدام کامیاب نہیں ہوں گے۔
پہلا ملک نہیں ہے
پرتگال کے لیے ’مزید ہاؤسنگ‘ پروگرام پر تقریباً 962 ملین امریکی ڈالر کی لاگت آئے گی اور وہ اپنی گولڈن ویزا سکیم کو ختم کرنے والا پہلا ملک نہیں ہے۔
ایک سال پہلے فروری 2022 میں اور روس کے یوکرین پر حملہ کے خطرے کے پیش نظر برطانیہ نے اسے ’غیر قانونی مالی اعانت اور دھوکہ دہی کے خلاف‘ جارحانہ کارروائی کے ایک حصے کے طور پر ختم کر دیا۔
وہاں یہ پروگرام 2008 میں قائم کیا گیا تھا اور اس کے خاتمے کا اعلان نئے امیگریشن پلان کے حصے کے طور پر سامنے آیا۔
پچھلے ہفتے آئرلینڈ میں جو کچھ ہوا وہ اسی سے ملتا جلتا ہے۔ اس ملک نے پہلے ہی یعنی گذشتہ سال مارچ سے ہی روسی شہریوں کے لیے منصوبے کو معطل کر دیا تھا۔
وزیر انصاف سائمن ہیرس نے وضاحت کی کہ سنہ 2012 میں جب یہ پروگرام ترتیب دیا گیا تھا تو اس کا مقصد ‘بے مثال معاشی مشکلات’ کے پیش نظر ‘سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی’ کرنا تھا۔
اور یہ کہ 1.3 ارب امریکی ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری حاصل کرنے کے باوجود، وہ کچھ عرصے سے اسے ختم کرنے کے بارے میں سوچ رہے تھے۔
گولڈن ویزوں کا خاتمہ دوسرے ممالک میں بھی سامنے آ سکتا ہے، جیسے سپین، جہاں جائیداد کی خریداری کے لیے اقامتی نظام کو ختم کرنے کے لیے کانگریس میں پہلے ہی ایک بل پیش کی جا چکی ہے۔