Site icon DUNYA PAKISTAN

برادرم جاوید اختر سے!

Share

عمدہ شاعر اور خوش کلام دوست جاوید اختر گزشتہ ہفتے فیض میلے میں شرکت کے لئے بمبئی سے لاہور آئے تو ان کی بہت پذیرائی ہوئی مگر انہوں نے اپنی گفتگو میں کچھ ایسی باتیں بھی کہیں جس سے پاکستانیوں کی دل آزاری ہوئی، انہوں نے کہا کہ بھارت کے عوام ابھی تک بمبئی حملوں کو نہیں بھول سکے۔ حملہ آور ناروے سے یا مصر سے نہیں آئے تھے، یہ لوگ تو آپ کے ہاں گھوم پھر رہے ہیں ۔جاوید اختر یہ باتیں اگر کسی مشترکہ سیاسی فورم سے کرتے، تو شاید اتنی ناگوار نہ گزرتیں کہ وہاں اس مسئلے کا دوسرا پہلو بیان کرنے والے بھی ہوتے بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ اگر فیض احمد فیض زندہ ہوتےتو ان کی موجودگی میں جاوید اختر شاید یہ باتیں کبھی نہ کرتے کہ سب جانتے ہیں فیض ایسی کوئی بات اپنے انڈیا کے کسی دورے کے دوران بھی سننے کے روادار نہ ہوتے۔ جب انڈیا میں ان کی پذیرائی ہوتی تو وہ کہتے تھے کہ یہ میری نہیں میرے پاکستان کی پذیرائی ہے ۔اگر فیض میلے والے فیض کے خیالات و افکار سے پوری طرح آگاہ نہیں ہیں، میں نے اس حوالے سے جو چند باتیں کرنا ہیں، ان میں سے پہلی بات تو یہ ہے کہ دانشوروں کو دونوں ملکوں میں پائی جانے والی کشیدگی کو کم کرنے کی کوشش کرنا چاہئے اگر وہ بھی نفرتوں کو ہوا دینے لگیں تو اس سے زیادہ افسوسناک بات اور کوئی نہیں ہو سکتی۔

دوسری بات یہ کہ برادرم جاوید اختر کو بمبئی کی مبینہ واردات تو یاد رہی مگر انہیں بھارت کی ماضی اور حال کی وہ دہشت گردیاں یاد نہیں رہیں جو وہ پاکستان کے مختلف علاقوں میں کرتا رہا ہے۔بلوچستان میں باقاعدہ ایک بھارتی اسپانسرڈ گروپ کے علاوہ باقاعدہ بھارتی انٹیلی جنس کے افسران دہشت گردی کی کارروائیوں میں مشغول ہیں کلبھوشن یادیوتک پاکستان کی تحویل میں ہے جو کسی ہمسایہ ملک میں بیٹھ کر ان دہشت گردی کی کارروائیوں کو منظم کرنے میں مشغول تھا ،اس نے جب خود پیرا شوٹ کے ذریعے پاکستان کی سرزمین پر ’’لینڈ‘‘ کیا تو پکڑا گیا اور پھر اس نے اپنے سارے جرائم کا اعتراف بھی کیا۔ میرے دوست جاوید اختر کو یقیناً یاد ہو گا کہ پاکستان کے دو ٹکڑے کرنے میں ہمارا یہ ہمسایہ ملک براہ راست شریک تھا۔ مکتی باہنی بنانے میں بھی اس کا ہاتھ تھا اور پھر کھل کر مشرقی پاکستان پر فوجی جارحیت کی۔جاوید اختر کو یہ سب کچھ یاد رہنا چاہئے تھا نیز پاکستان کے علاوہ خود انڈیا میں اپنے ہی لوگوں کے خلاف دہشت گردی کی جو ہولناک وارداتیں انڈیا نے کیں وہ بھی ناقابلِ فراموش ہیں۔ گولڈن ٹمپل کے واقعہ کے بعد جاوید اختر کے اپنے شہر بمبئی میں سکھوں کا جس طرح قتل عام کیا گیا تاریخ اسے کبھی معاف نہیں کرے گی۔ انڈیا نے کشمیر پر غاصبانہ قبضہ کیا ہوا ہے اور کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب ان کے حق خود ارادیت کے مطالبے کے جواب میں ان کے سینے گولیوں سے چھلنی نہیں کئے جاتے ۔کشمیری مائوں، بہنوں اور بیٹیوں پر وحشی انڈین فوجی پل پڑتے ہیں، ان کی چیخیں برادرم جاوید اختر کو بھی سنائی دیتی ہوں گی میں نہیں جانتا جاوید اختر نے ان مظلوموں کے لئے کبھی آواز اٹھائی اور کتنے تواتر کےساتھ اٹھائی ؟یہ افسوسناک صورتحال ان چند مثالوں تک محدود نہیں ہے۔ مودی کے آنے کے بعد پورے انڈیا میں مسلمانوں کی زندگیاں اجیرن بنا دی گئی ہیں، راہ چلتے بے گناہ مسلمانوں کو مارا پیٹا اور قتل کیا جاتا ہے حتیٰ کہ پوری دنیا میں اپنی فلموں کے ذریعے جن بڑے اداروں نے انڈیا کا نام روشن کیا انہیں بمبئی میں کوئی کرائے کا مکان یا ملکیت کی اجازت دینے میں بھی ہچکچاہٹ سے کام لیا جاتا ہے یہ تجربہ غالباً خود جاوید اختر کو بھی ہوا یا انہوں نے کہیں اس رویے کا ذکر کیا تھا۔ انڈیا اپنی مسلم دشمنی کے رویے سے اب پوری دنیا میں بدنام ہو رہا ہے اور اس کے سیکولرازم کے دعوے کا پول سب پر کھلتا جا رہا ہے۔ سیکولر دنیا کے لئے یہ ناقابل فہم ہے کہ تاریخی بابری مسجد بھی ان سے برداشت نہ ہوئی اور اسے مسمار کر دیا گیا!جاوید اختر بے خبر نہیں ہیں ایک بڑے باپ کے بڑے بیٹے ہیں، ان کی نظر ساری دنیا پر ہے وہ اپنے ملک کی اس انسان دشمن اور تاریخ دشمنی سے کس طرح غافل ہو سکتے ہیں چنانچہ میں جاوید اختر سے یہ امید نہیں رکھتا تھا کہ وہ مہمان کےطور پر پاکستان آئیں اور پاکستانیوں کا دل دکھا کر چلے جائیں ۔

اس وقت ساری دنیا آتش فشاں کے دہانے پر کھڑی ہے، امریکہ ہر جگہ تخریبی کارروائیوں میں مشغول ہے، ویت نام سے لے کر عراق، شام، افغانستان، لیبیا اور جانے کتنے ملکوں کو تباہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے ان کی لیڈر شپ کو قتل کیا جاتا ہے اور وہ سب کچھ جو ایک فاشسٹ ملک کر سکتا ہے، برادرم سے مجھے صرف یہ گزارش کرنا ہے کہ انسان دشمنی کی اس آگ کو بجھانے کےلئے ادیبوں اور دانشوروں کو اپنا بھرپور کردار ادا کرنا چاہئے نہ کہ ان کے دلوں میں نفرت کے مزید بیج بوئے جائیں۔ میں اپنے ہمسایہ ملکوں انڈیا سمیت سب سے گہرے دوستانہ تعلقات کا خواہاں ہوں اور ماضی کے اندھیروں کو بھلا کر روشن مستقبل کی طرف سفر جاآغاز کرنا چاہئے۔ میں یہ توقع خود سے بھی رکھتا ہوں اور برادرم جاوید اختر سے بھی کہ ہم اس فن کی تکمیل کے لئے اپنی کاوشوں کو بروئے کار لائیں اور ایک دوسرے سے دوری کی بجائے باہمی قربت کے لئے کوشاں ہوں ۔

پس نوشت:میرے گزشتہ کے کالم کے آخر میں موضوع سے ہٹ کر فیض فیسٹول کے حوالے سے فیس بک میں درج ایک رائےنقل کی گئی تھی اور اس کے آخر میں ’’منقول‘‘بھی لکھ دیا تھا مگر یہ لفظ سہواً اشاعت سے رہ گیا تھا۔

Exit mobile version