نواز شریف کی تیسری حکومت کے دوران فواد حسن فواد کا ذکر تقریباََ روزانہ ہی سنا کرتا تھا۔ مشتاق منہاس ان دنوں ایک ٹی وی پروگرام کے لئے میرا ساتھی اینکر تھا۔میرا اپنا جی تو عملی صحافت سے اُکتا چکا تھا۔مشتاق کا ’’آتش‘‘ مگر ابھی تک جوان تھا۔متجسس رپورٹر کی طرح ہمہ وقت حکومت کے کلیدی فیصلہ سازوں سے رابطے بڑھاتے ہوئے’’اندر کی خبر‘‘ ڈھونڈنے کو بے چین رہتا۔ اشرافیہ کے ’’تھمب‘‘تصور ہوتے افراد کی جی حضوری اگرچہ اس کی فطرت میں شامل نہیں تھی۔ سیاست اور ریاستی فیصلہ سازی کے چند اہم ترین معاملات کے بارے میں ہمارے درمیان تیز و تندمباحثے ہوتے تو اکثر ’’فواد صاحب تو مگر یہ سوچتے ہیں‘‘ کہتے ہوئے کوئی ایسا نکتہ بیان کرتا جو مجھے چونکا دیتا۔ بعدازاں دریافت یہ بھی ہوا کہ میرے وہ صحافی دوست جن کی پیشہ وارانہ دیانت اور صلاحیتوں کا میں دل سے معترف ہوں ان کی اکثریت وزیر اعظم کے پرنسپل سیکرٹری کے عہدے پر فائز فواد حسن فواد کے ثناخوانوں میں شامل ہوچکی ہے۔ان سے ملاقات کا مگر موقعہ ہی نہ مل پایا۔
ملاقات بالآخر ہوگئی۔یہ مگر اس وقت ہوئی جب فواد حسن فواد احتساب بیورو کی وجہ سے کئی مہینوں کی اذیت بھری تفتیش اور جیل میں وقت گزارنے کے بعد ضمانت پر رہا ہوچکے تھے۔ دومشترکہ دوستوں کی بدولت ہوئی اس ملاقات کے چند ہی لمحے گزرنے کے بعد ترنت جان لیا کہ میرے ساتھیوں کی اکثریت ان کی گرویدہ کیوں ہے۔راولپنڈی سے ابھرے کشمیری نژاد فواد حسن فواد وجیہہ شخصیت کے حامل ہیں۔تعلیم مکمل کرنے کے بعد مقابلے کے امتحان سے پاس ہوکر افسروں کے اس گروپ میں چلے گئے تھے جنہیں DMGیعنی ڈسٹرکٹ مینجمنٹ گروپ کہا جاتا ہے۔برطانوی راج کے دنوں میں یہ گروپ رعایا کے لئے ’’زمینی خدا‘‘ تصور ہوتا تھا۔ کئی مربعوں کے مالک اور کلے دار پگڑیاں پہنے ’’شرفا‘‘ کو ان کے دربار میں کرسی مل جاتی تو ان کی نسلوں تک مذکورہ ’’عزت‘‘کا تذکرہ داستانوں کی طرح جاری رہتا۔ 1947ء کی بدولت نصیب ہوئی ’’آزادی‘‘کے بعد اگرچہ ایسے ’’زمینی خدائوں‘‘ کا رتبہ بتدریج ہماری ریاست کے طاقت ور ترین ادارے کے نمائندوں کو منتقل ہونا شروع ہوگیا تھا۔رواں صدی کے آغاز سے فوجی،جمہوری یا عمران حکومت جیسی آدھا تیتر آدھا بٹیر نظام کے تحت چلائی حکومتیں ڈی ایم جی افسران کو ہاتھ پیٹ پر باندھے ’’جی حضوریے‘‘ بنانے لگیں۔
فواد حسن فواد اپنے شعبے سے وابستہ رعونت برقرا ر رکھنے کے خواہاں نہیں تھے۔ دیانت داری سے مگر مصر رہے کہ اضلاع میں تعینات افسروں کو مقامی حقائق ذہن میں رکھتے ہوئے حاکموں کے روبرو تھوڑی خودمختاری ضرور دکھانا چاہیے۔ ڈی ایم جی افسری کا زیادہ وقت انہوں نے بلوچستان کے مختلف اضلاع میں صرف کیا۔ قدرتی وسائل سے مالا مال اس صوبے کی ’’رعایا‘‘ کے دیرینہ دکھوں سے وہ بخوبی واقف ہیں۔انہیں ’’غدار‘‘ ٹھہراکر دھتکارتے نہیں بلکہ ریاستی پیش قدمی سے ان کے زخم مندمل کرنے کی کاوشوں میں جتے رہے ہیں۔
فواد حسن فواد سے ملاقاتوں کی بدولت ہمارے مابین بلوچستان ہی کے تناظر میں ’’سانجھ‘‘ کا گہرا رشتہ استوار ہوچکا ہے۔میں ان کے انتظامی تجربے سے ہمیشہ سیکھنے کی کوشش کرتا ہوں۔وہ مگر اس ضمن میں خود کو میرا’’استاد‘‘ بنانے کو ابھی تک آمادہ نہیں ہوئے۔ملاقاتوں میں رازیہ بھی کھلا کہ وہ شاعری کا شغف رکھتے ہیں۔موصوف کو نجانے کیوں یہ غلط فہمی رہی کہ میں ادب کا سنجیدہ طالب علم ہوں۔ایک دن انکشاف کیا کہ ان کی شاعری کا دیوان مرتب ہوچکا ہے۔لاہور کے الحمراہال میں ان کی لکھی کتاب کی رونمائی ہوگی۔ ان کی خواہش تھی کہ رونمائی کی تقریب میں نہ صرف میں شریک ہوں بلکہ ان کی شاعری کا ’’جائزہ‘‘ لیتا خطاب بھی کروں۔انہیں بہت خلوص سے سمجھانے کی کوشش کی کہ میں شاعری کا تنقیدی جائزہ لینے کے ہنر سے قطعاََ محروم ہوں۔یہ وعدہ کرتے ہوئے اپنی ’’دانشوری‘‘ کا البتہ بھرم رکھ لیا کہ ان کی کتاب چھپنے کے بعد مفت مل گئی تو اسے پڑھنے کی کوشش کروں گا۔اس کے بعد ہمت ہوئی تو اس کالم میں تنقیدی جائزہ نہیں مگر تذکرہ بھی ہوجائے گا۔
فواد حسن فواد کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے میرے انکار کا باعث ہوئی وجوہات کا خلوص سے ادراک کیا۔ہمارے ایک مشترکہ دوست کو ’’کنج قفس‘‘ کے عنوان سے چھپی کتاب 6فروری کے دن پہنچا بھی دی۔جس دوست کو کتاب دی تھی وہ دفتری فرائض میں دن کے چوبیس گھنٹے الجھا رہتا ہے۔مجھے ’’کنج قفس‘‘ لہٰذا گزشتہ اتوار کی شام ملی۔اس کے بعد بستر کے سرہانے پڑی رہی۔
گزشتہ چند دنوں سے میرا جی سیاسی موضوعات پر لکھنے سے اُکتا چکا ہے۔گزرے جمعہ کی صبح چھپے کالم میں وسوسوں بھرے دل نے بچ بجاکر یہ خوف بھی بیان کردیا ہے کہ ہمارے ہاں کے سیاسی منظر نامے پر جو ہیجان برپاہے وہ ’’آئینی بندوبست‘‘ کے لئے خطرے کی گھنٹی بجارہا ہے۔جو تماشے جاری ہیں ان کا برقرار رہنا ممکن نظر نہیں آرہا۔ پنجابی محاورے والا ’’کٹی یا کٹا‘‘ اب ہر صورت نکالنا ہی ہوگا۔ اگرچہ ہمارے ہاں 1950ء کی دہائی کے آغاز سے بالآخر جو ’’کٹا‘‘ برآمد ہوتا ہے اس کی مختلف النوع صورتوں سے ہم بخوبی واقف ہیں۔
ہفتے کی سہ پہر لہٰذا بستر سے ’’کنج قفس‘‘ اٹھاکر اس کی ورق گردانی میں رات ہونے تک مصروف رہا۔ شاعری کے ہنر سے سرسری شناسائی کی وجہ سے میں اس کتاب میں چھپی غزلوں اور شاعری کا ’’ماہرانہ‘‘ جائزہ لینے کے قابل نہیں ہوں۔ فوری تاثر ان کی غزلوں اور نظموں کو پڑھتے ہوئے اگرچہ یہ ابھرا کہ ’’کنج قفس‘‘ شاعری کا مجموعہ نہیں۔ انتہائی حساس دل کے مالک ایک قیدی کا روزنامچہ ہے جو نثر میں نہیں نظم میں لکھا گیا ہے۔
وطن عزیز میں 1977ء سے حکومتوں کو برسراقتدار اور بعدا زاں انہیں ’’ناکارہ اور بدعنوان‘‘ ٹھہراکر برطرف کرنے والی مقتدر کہلاتی قوتیں ہمیشہ سبکدوش کئے وزیر اعظم کے قریب ترین اور بااعتماد تصور ہوتے سرکاری افسر کو نشان زد کرنے کے بعد عقوبت خانوں میں لے جاتی ہیں۔ انہیں ’’مسعود محمود‘‘ بنانے کی کوشش ہوتی ہے تانکہ بالآخر سبکدوش کئے وزیر اعظم کو اگر پھانسی نہیں لگایا جاسکتا تو کم از کم سیاست میں حصہ لینے کے لئے تاحیات نااہل ضرور کروادیا جائے۔فواد حسن فواد ’’مسعود محمود‘‘ بننے کو رضا مند نہیں ہوئے۔قابل رشک استقامت سے مزاحمت پر ڈٹ گئے۔ اس کی سزا مگر انہوں نے ذاتی طورپر ہی نہیں بھگتی۔ ان کی اہلیہ ،بچے اور خاندان کے دیگر قریب ترین عزیز بھی ذلت واذیت کے عذاب کا نشانہ بنے رہے۔
فواد حسن فواد پر جوبیتی ہمارا ’’آزاد‘‘ اور انسانی حقوق‘‘ کے تحفظ کے لئے بے چین ہوا ’’میڈیا‘‘ مگر لوگوں کے روبرو لانہیں پایا۔دو سے زیادہ برس تک ریاستی جبر کا مستقل نشانہ رہا یہ شخص جو طویل عدالتی عمل کے اختتام پر بے گناہ ٹھہرایا گیا دور حاضر کے فواد چودھری یا اعظم سواتی کی طرح ’’مظلوم‘‘ نہیں بن پایا ہے۔’’کنج قفس‘‘ اس تناظر میں خود کلامی محسوس ہوتی ہے۔ جس کی نظموں اور غزلوں میں فواد حسن فواد خود ہی کو حوصلہ دیتے ہوئے مزاحمت پر ڈٹے رہنے کی تمنا برقرار رکھنا چاہ رہے ہیں۔
’’ہم پہ گزری سو گزر ی…‘‘ والی استقامت کے باوجود اپنے فرزند سلال حسن کو وہ تلقین کرتے ہیں کہ ’’مرے بیٹے،مری جان-تم مری تقلید نہ کرنا‘‘۔ اس نظم میں وہ یہ بھی طے کردیتے ہیں کہ ’’اس خطہ ارضی‘‘ سے ’’جان دینے کو آمادہ‘‘ اور ’’ردکفر کی خاطر کھڑے‘‘ہونے والے افراد کے لئے ’’ہجرت‘‘ غالباََ’’واجب‘‘ ہوچکی ہے۔’’ہجرت‘‘ سے اجتناب برتنے والوں کو تاہم دردمندی سے مشورے دیتے ہیں کہ ’’مری تقلید نہ کرنا‘‘۔
میرے لئے انتہائی حیران کن بات یہ ہے کہ ’’اس خطہ ارضی‘‘ سے کاملاََ مایوس اورناامید ہوئے فواد حسن فواد مقبوضہ کشمیر میں برسوں سے جاری جبر کے باوجود شدت سے یقین رکھتے ہیں کہ ’’شکست‘‘ مودی کے نصیب میں ہے۔اس کا جبر جنت نظیر وادی میں جیت نہیں پائے گا۔ اسی تناظر میں سید علی گیلانی اور یٰسین ملک جیسی حریت پسندی کی علامتوں کو انہوں نے خون گرماتی نظموں سے سراہا ہے۔ ’’عجیب شہر ہے جس میں کوئی شجر ہی نہیں‘‘ کے مکین فواد حسن فواد کی دنیا کی وسیع ترین جیل میں تبدیل کئے مقبوضہ کشمیرسے وابستہ امیدوں کے بارے میں حیران ہوتے ہوئے میں ایک غزل تک پہنچا تو سمجھ آئی کہ وہ ’’اس خطہ ارضی‘‘ سے امید کیوں کھوبیٹھے ہیں۔ اس غزل کا مطلع ہے :’’توڑدینا ہے اگر عہدِ وفا،جاچلاجا- سوچ کر کچھ اسے میں نے ہی کہا،جاچلا جا۔‘‘ مذکورہ غزل پڑھ لینے کے بعد نجانے کیوں محسوس ہوا کہ یہ ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ والا عزم ٹوٹ جانے کی کہانی بیان کررہی ہے۔