Site icon DUNYA PAKISTAN

ڈی ایچ اے سے ریسکیو ہونے والا تیندوا کہاں ہے؟

Share

پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کی رہائشی سوسائٹی ڈی ایچ اے فیز ٹو میں 16 فروری کو اچانک نمودار ہونے والے تیندوا اس وقت کہاں ہے؟

یہ سوال اس لیے پیدا ہوا کیوں کہ بی بی سی کو اسلام آباد وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ کے متعدد اعلیٰ اہلکاروں نے بتایا کہ تیندوے کو پہلے اسلام آباد کے پرانے چڑیا گھر میں شیروں والے پنجرے میں رکھا گیا تھا لیکن اس وقت وہ وہاں موجود نہیں ہے۔

تاہم جب بی بی سی نے وائلڈ لائف مینیجمنٹ کی ترجمان رینا سعید سے رابطہ کیا اور سوال کیا کہ کیا بی بی سی کو اس تیندوے تک رسائی دی جا سکتی ہے تو انھوں نے نفی میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ اس تیندوے کو ریلیز کیا جا رہا ہے۔

تاہم اس تیندوے کو کیسے اور کہاں ریلیز کیا جا رہا ہے، اس بارے میں ابھی تک وائلڈ لائف مینیجمنٹ نے کوئی تفصیلات جاری نہیں کی ہیں۔

واٹس ایپ پر رینا سعید نے یہ پیغام بھی دیا کہ وہ اس وقت ملک سے باہر ہیں۔

اس سے قبل جب بی بی سی کی جانب سے اسلام آباد وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ کے رکن وقار ذکریا سے رابطہ کیا گیا اور ان سے پوچھا گیا کہ اس وقت کیا یہ تیندوا اپنے پنجرے میں موجود نہیں تو انھوں نے کہا کہ وہ اس موقع پر اس حوالے سے کوئی بات نہیں کر سکتے۔

یہ تیندوا کہاں سے آیا تھا؟

خیال رہے کہ رواں ماہ کی 16 تاریخ کو اچانک سوشل میڈیا پر ایک تیندوے کی ویڈیوز وائرل ہونے لگی تھیں جسے آغاز میں ایک سکیورٹی گارڈ کو زخمی کرنے کے بعد ایک گھر کی دیوار پھلانگتے دیکھا جا سکتا ہے۔

اس روز دوپہر کو وائرل ہونے والی اس ویڈیو کے بعد وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ، ریسکیو 1122 اور چند رضاکاروں نے مل کر کئی گھنٹوں تک ایک ریسکیو آپریشن کیا۔

تیندوے نے اس دوران ریسکیو آپریشن میں شامل دو اہلکاروں کو بھی معمولی زخمی کیا تھا، اور ایک گھر کی بیسمنٹ سے دوسرے گھر کی بیسمنٹ میں گھسنے کے بعد اس پر قابو پا لیا گیا تھا۔

تاہم اصل سوال یہ اٹھا کہ یہ تیندوا کہاں سے آیا اور کیا اس کو کسی نے اپنے گھر میں پالتو جانوے کے طور پر رکھا ہوا تھا؟

دلچسپ بات یہ ہے کہ تحویل میں لینے کے بعد اس تیندوے کو ’ڈی ایچ اے‘ کا نام دے دیا گیا تھا جبکہ سہالہ پولیس کی جانب سے اس تیندوے کے ’نامعلوم مالک‘ کے خلاف ایف آئی آر بھی درج کر لی گئی تھی۔

پولیس کی جانب سے درج کردہ مقدمے میں کہا گیا تھا کہ یہ تیندوا کسی نامعلوم شخص نے گھر میں پالا ہوا تھا اور ملزم نے خطرناک جانور رکھ کر شہریوں کی زندگی کو خطرے میں ڈالا۔

پولیس کا موقف تھا کہ ملزم کو جلد گرفتار کر کے قانونی کارروائی کی جائے گی۔

تیندوے کو بے ہوش کرنے کے بعد اسلام آباد وائلڈ لائف بورڈ نے اپنی تحویل میں لیا تھا اور ادارے کی ترجمان رینا سعید خان نے اس وقت بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’جس طرح سے یہ حملہ کر رہا تھا اس سے ایسا معلوم نہیں ہو رہا تھا کہ یہ کوئی جنگلی جانور ہے، ہمیں شبہ ہے کہ یہ پالتو جانور ہے لیکن اس حوالے سے اب تحقیقات کی جائیں گی۔‘

وائلڈ لائف مینیجمنٹ کا موقف کیسے تبدیل ہوا؟

اسلام آباد وائلڈ لائف مینیجمنٹ بورڈ نے بعد میں اپنا موقف بدلتے ہوئے کہا کہ یہ تیندوا پالتو نہیں بلکہ جنگل سے آیا تھا۔

رینا سعید نے چند روز قبل ایک ٹویٹ میں بتایا کہ ’ماہرین نے تیندوے کا بغور جائزہ لیا ہے جس کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ یہ تیندوا ڈی ایچ اے میں جنگل سے ہی آیا تھا۔‘

’ہمارے نزدیک یہ کہوٹا کے جنگلات سے رات کے وقت ڈی ایچ اے 2 میں داخل ہوا جو اس جگہ سے چھ کلومیٹر کی مسافت پر واقع ہیں۔ اس علاقے میں جنگلات خطرات کا شکار ہیں لیکن اچھی خبر یہ ہے کہ اسے دوبارہ جنگلات میں بھیجا جا سکتا ہے۔‘

تاہم اس بارے میں وائلڈ لائف بورڈ کی جانب سے مزید تفصیلات نہیں دی گئیں نہ ہی یہ بتایا گیا کہ ماہرین نے کس بنیاد پر اس بات کا تعین کیا کہ جانور پالتو نہیں جنگلی ہے۔

انھوں نے اس حوالے سے یہ بھی کہا تھا کہ ’جس فرد پر سوشل میڈیا پر اس تیندوے کو رکھنے کا الزام عائد کیا گیا تھا، اس کے اور اس کے قریبی گھروں ضلعی انتظامیہ کے ساتھ مل کر جائزہ لیا گیا تھا لیکن یہاں سے کوئی پنجرہ یا کسی دیگر شواہد نہیں ملے۔‘

رینا سعید خان کی جانب سے سوشل میڈیا پر ایک نقشہ بھی پوسٹ کیا گیا ہے جس میں ایک سیدھی لکیر کھینچ کر یہ بتایا گیا ہے کہ کہوٹا سے سہالہ کا فاصلہ آٹھ سے 10 کلومیٹر ہے اور یہ ایک تیندوے کے لیے رات کی چہل قدمی کے لیے زیادہ سفر نہیں ہے۔

پالتو یا جنگی جانور؟

اس تیندوے کو ریسکیو کیے جانے والے آپریشن کے دوران جب بی بی سی کی جانب سے ایک اہلکار سے بات کی گئی تھی تو انھوں نے بتایا تھا کہ ’یہ پالتو جانور معلوم ہوتا ہے۔‘

وائلڈ لائف کے اہلکار کا کہنا تھا کہ عام طور پر اس طرح کے موقعوں پر مالک سامنے نہیں آتے کیونکہ یہ جانور گھروں میں رکھنا ایک غیر قانونی عمل ہے۔

تاہم اسلام آباد وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ کے رکن وقار ذکریا کا کہنا تھا کہ ’ہم نے اس تیندوے کو اپنے پاس رکھ کر پورا تجزیہ کیا ہے، جس سے ہمیں پتا چلا ہے کہ یہ جنگل سے شہری علاقے میں آ گیا تھا۔‘

انھوں نے کہا کہ ’ایسا ہو سکتا ہے اور ایسا ہوتا رہتا ہے۔ جس کے بعد اس کا رویہ وغیرہ دیکھنے کے بعد فیصلہ ہوا ہے کہ اس کو واپس اس کی قدرتی آماجگاہ میں چھوڑا جائے گا۔‘

وقار ذکریا کا کہنا تھا کہ ’ابھی اس موقع پر اس حوالے سے وہ کوئی بھی تفصیل نہیں دے سکتے۔ یہ مناسب وقت نہیں کہ اس کو ابھی منظر عام پر لایا جائے۔ جلد ہی تفصیلات کو منظر عام پر لایا جائے گا۔‘

’تیندوے کے حملے سے بچ نکلنا اتنا آسان نہیں ہوتا‘

محکمہ ماحولیات صوبہ خیبر پختونخواہ کے سابق اسسٹنٹ ڈائریکٹر نعمان رشید سے بی بی سی نے وائلڈ لائف کے اس دعوے کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے کہا کہ ’وہ نہیں سمجھتے کہ مذکورہ تیندوے کی پرورش جنگل میں ہوئی ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ‘جنگل میں پرورش پانے والا تیندوا شکار کا ماہر ہوتا ہے۔ وہ انسانوں سے خوفزدہ ہوتا ہے۔ انسانوں کو دیکھ کر وہ اپنے بچاؤ میں حملہ کرتا ہے۔’

’جب وہ اپنے بچاؤ میں حملہ کرتا ہے تو اس میں انتہائی شدت ہوتی ہے۔ اس کے حملہ سے اس طرح بچ نکلنا اتنا آسان نہیں ہوتا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’اس طرح بھی یہ بھی ممکن نہیں ہے کہ تیندوے کے کسی کو پنجے لگیں اور وہ معمولی زخمی ہو۔‘

’اس کے پنجے اور ناخن خطرناک ہوتے ہیں۔ تیزی سے کیے گئے حملے سے بچ نکلنا اتنا آسان نہیں ہوتا جیسا ویڈیو میں دیکھا گیا ہے۔‘

’ویڈیو میں تو اس طرح نظر آتا ہے کہ تیندوا اناڑی پن سے حملے کر رہا ہے۔‘

Exit mobile version