پاکستان

لاہور ہائی کورٹ بار کے انتخابات میں خواتین کا بول بالا، نائب صدر اور سیکرٹری کے عہدوں پر خواتین منتخب

Share

لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کی 150 سالہ تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک خاتون کو سیکرٹری منتخب کیا گیا ہے، یہ انتخاب صباحت رضوی جیتیں۔ ان کے ساتھ ساتھ کامیاب ہو کر بار کی نائب صدر منتخب ہونے والی وکیل ربیعہ باجوہ تھیں۔

لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن میں خواتین کی کل تعداد 1772 ہے۔ یہی وجہ ہے وکلا کی سیاست میں ہر برس خواتین اپنی جگہ بنا رہی ہیں اور اس کی تازہ ترین مثال لاہور ہائیکورٹ کے انتخابات میں دو خواتین کا منتخب ہونا ہے۔

صباحت رضوی کے الیکشن میں کامیاب ہونے کے بعد کہنا تھا کہ وہ ان مظلوموں کے لیے آواز بلند کرنے میں اپنا کردار اداد کریں گی جن کے لیے آواز بلند کرنے والا کوئی نہیں ہوتا۔

انتخاب سے قبل ان کا کہنا تھا کہ وہ ایک وکیل کی حیثیت سے انتخاب لڑ رہی ہیں کیونکہ یہ الیکنش کسی مرد یا عورت کا نہیں ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ مردانہ معاشرے میں خواتین کے لیے جدو جہد دگنی ہو جاتی ہے۔ انھوں نے گورنمنٹ اور پرائیویٹ دونوں سیکٹرز میں کام کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 2005 سے وہ سیاست کر رہیں تھیں اس لیے انھوں نے الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس عہدے کے لیے خواتین کو الیکشن لڑنے پر ہمیشہ حوصلہ شکنی کی جاتی ہے لیکن انھوں نے اس ٹیبو کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔

سوشل میڈیا پر صباحت رضوی کے لیے تہنیت کے پیغامات کا تانتا بندھا ہے اور ان کا نام ٹاپ ٹرینڈ میں شامل ہے۔

نائب صدر بھی خاتون

ربیعہ باجوہ بار کی تاریخ میں نائب صدر منتخب ہونے والی اب تک کی تیسری خاتون ہیں۔

ربیعہ باجوہ ایڈووکیٹ دوسری مرتبہ لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے کسی عہدے پر منتخب ہوئی ہیں۔

سابق فوجی آمر ایوب خان کے دور میں پہلی بار نائب صدر رابعہ قاری منتخب ہوئیں جو بعد میں پہلی خاتون صدر لاہور ہائیکورٹ بار تھی۔

فردوس بٹ دوسری نائب صدر تھی لیکن لاہور ہائیکورٹ کے صدر احسن بھون لاہور ہائیکورٹ کے جج بن گئے تو فردوس بٹ صدر لاہور ہائیکورٹ بار بن گئیں۔

جسٹس ریٹائرڈ فخر النسا کھوکھر دوسری خاتون تھیں جو لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کی صدر بنیں. پہلی فنانس سیکرٹری گلزار بٹ تھیں۔ اس کے بعد فردوس امتیاز، تیسری ربیعہ باجوہ اور چوتھی رافیلہ تھیں۔

جسٹس ریٹائرڈ ناصرہ اقبال دوسری صدر لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن تھی۔

ربیعہ باجوہ 2006 میں فنانس سیکرٹری منتخب ہوئیں جبکہ وہ پہلی خاتون تھیں جنھوں نے لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے سیکرٹری کے عہدے پر انتخاب لڑا لیکن وہ تھوڑے ووٹوں کے فرق سے کامیاب نہ ہوسکیں۔

ربیعہ باجوہ کو وکلا سیاست میں ایک ’سرخے‘ کے طور پر جانا جاتا ہے۔ ربیعہ باجوہ کو کسی سیاسی جماعت نے سپورٹ نہیں کیا۔

انھوں نے وکلا تحریک میں اہم کردار کیا تھا۔ مشرف کے صدارتی انتخاب میں جسٹس وجیہہ الدین کی پنجاب میں پولنگ ایجنٹ مقرر ہوئی اور پہلی خاتون تھیں جب غیر فعال چیف جسٹس پاکستان جسٹس افتخار محمد چودھری کی گاڑی میں اسلام آباد سے ایبٹ آباد سے سفر کیا۔

ربیعہ باجوہ کا کہنا تھا کہ وہ بار کے ماضی کے کردار کو زندہ کرنے کا ایجنڈا لے کر لوگوں کے پاس گئیں تھیں۔ انھوں نے کہا کہ ماضی میں بار مزاحمت کا کردار کرتی رہی، آمریت کے خلاف اور خفیہ مارشل لا کے خلاف لڑتی رہی اور انسانی حقوق کے لیے بھی بار نے اہم کردار ادا کیا۔ انھوں نے کہا کہ کچھ عرصے سے بار پر سیاسی اثر کی وجہ سے اس کا اصل مقصد ختم ہو گیا تھا۔

انھوں نے کہا کہ ’نظریاتی سیاست ختم ہو گئی ہے اور الیکشن مہنگا ہو گیا ہے۔ میرا ارادہ ہے کہ اصول و ضوابط میں تبدیلی کر کے نظریاتی بنیادوں پر انتخابات لڑنے کے لیے آسانی پیدا کی جا سکے تاکہ محدود وسائل میں انتخاب لڑا جا سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ پروفیشنل وکیل کے لیے کروڑوں روپے لگا کر الیکشن لڑنا آسان نہیں ہوتا۔ لیکن میں نے محدود وسائل کے ساتھ انتخاب جیت کر ثابت کیا کہ ایسا ممکن ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ پانچ مردوں کے مقابلے میں انتخاب جتینے میں ان کے حامیوں اور ساتھیوں کا بہت ہاتھ ہے۔ انھوں نے کہا کہ انھیں مذہبی بنیادوں مخالفت کا نشانہ بھی بنایا گیا۔

یہ تیسرا موقع ہے جب دو نشستوں پر ایک ہی الیکشن میں دو خواتین منتخب ہوئی ہیں۔ اس سے پہلے جسٹس فخر النسا کھوکھر صدر اور فردوس امتیاز فنانس سیکرٹری تھیں۔

دوسری مرتبہ فردوس بٹ صدر تھیں اور روبی حیات اعوان فنانس سیکرٹری تھی۔

خواتین کی کامیابی کا وکلا کا ردِ عمل

خاتون وکیل غازیہ احسان کا دونوں خواتین کی انتخابات میں کامیابی پر کہنا تھا کہ ’عورت ہونا بذاتِ خود کوئی میرٹ نہیں ہے۔ اگر ایک نظریاتی عورت اپنی عزت نفس کو مجروع کیے بغیر خود اعتمادی اور وقار کے ساتھ الیکشن میں حصہ لیتی ہے اور جیت جاتی ہے تو یہ نہایت خوش آئیند امر ہے۔‘

ایک اور خاتون وکیل صائمہ صفدر کا کہنا تھا کہ ’ایک عورت کے لیے الیکشن لڑنا آسان نہیں ہوتا اور اس وقت زیادہ مشکل ہوتا جب وہ ایک خاص نظریے اور محدود وساٸل کے ساتھ لڑ رہی ہو۔‘

ربیعہ باوجہ کی کامیابی پر انھوں نے مزید کہا کہ ’جب وہ کسی کے سامنے جھک کے نہیں بلکہ ڈٹ کے مقابلہ کرنے کا حوصلہ رکھتی ہو اور جس نے الیکشن میں آکے باقی امیدواروں کی طرح خاموشی اختیار نہیں کی بلکہ ان تمام مساٸل کو سامنے رکھا اور اس پہ بات کی چاہے وہ بوسیدہ انصاف کا نظام ہو یا اسٹیبلشمنٹ کا اس بہادر خاتون نے کبھی ہار نہیں مانی۔‘