Site icon DUNYA PAKISTAN

ماہم امجد: جنھوں نے لنکڈاِن سے اپنے والد کے قتل کے ملزم کا دبئی میں سراغ لگایا

Share

’اب میں 15 برس کی ہوں اور نہ ہی کمزور۔ اسی لیے اپنے والد کے قتل کے انصاف کے لیے آواز بلند کی۔ شوبز کے دوست ہوں، سیاستدان یا عام لوگ، سب نے میرا اس مشن میں بھرپور ساتھ دیا۔‘

یہ الفاظ اداکارہ ماہم امجد کے ہیں، جنھوں نے برسوں قبل قتل ہونے والے اپنے والد کے قتل کے ملزم کا سراغ لگایا۔

سٹیٹ لائف کے دفتر میں قتل

26 اگست 2008 کو کراچی میں آئی آئی چندریگر روڈ پر واقع سٹیٹ لائف کی عمارت میں ماہم امجد کے والد اور سٹیٹ لائف کمپنی کے ریجنل چیف محمد احمد امجد کو دس گولیاں مارکر قتل کیا گیا تھا۔

مدعی محمد عارف نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ ساڑھے گیارہ بجے محمد تقی شاہ جو وہاں سیلز مینیجر تھے، محمد احمد کے کمرے میں گئے اور دو منٹ میں اندر سے فائرنگ کی آواز آئی۔

محمد عارف کے مطابق وہ فون چھوڑ کر کمرے میں گئے تو تقی شاہ پستول لے کر باہر نکلے اور محمد احمد امجد کو گولیاں لگی ہوئیں تھیں، جس سے ان کی ہلاکت ہوئی۔

پولیس کی تفتیش سے پتا چلتا ہے کہ محمد امجد ملزم کے خلاف انکوائری کر رہے تھے جبکہ وہ اپنے حکام بالا کو ان کی کارکردگی اور رویے کی تحریری طور پر آگاہی دے چکے تھے اور یہ بھی بتایا تھا کہ ملزم ان کا تعاقب کر رہا ہے۔

کراچی سے لاہور منتقلی

ماہم امجد بتاتی ہیں کہ جب ان کے والد کو بے دردی سے قتل کیا گیا تو اس وقت ان کی عمر 15 برس اور ان کی بہن 19 سال کی تھیں۔ والدہ گھریلو خاتون تھیں اور ان کے گھر میں کوئی مرد نہیں تھا۔

ماہم بتاتی ہیں کہ والدہ نے سٹیٹ لائف کے حکام کو متعدد درخواستیں بھیجیں لیکن انھوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔

’ہمیں ڈرایا جاتا کہ ہم کو بھی نقصان پہنچایا جاسکتا ہے۔ ہم کوئی ملازم نہیں رکھ سکتے تھے۔ والدہ ڈپریشن کا شکار ہو گئیں۔ ہم نے سکول کی پڑھائی بمشکل مکمل کی۔ اس کے بعد والدہ ہمیں لاہور لے گئیں، جہاں ہماری کوئی شناخت نہیں تھی۔‘

اس کیس میں عدالت نے محمد تقی شاہ کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے لیکن اس وقت تک وہ ملک چھوڑ کر فرار ہو چکے تھے۔

سوشل میڈیا پر شناخت

ماہم امجد دبئی میں رہتی ہیں، جہاں وہ پراپرٹی کے کاروبار کے علاوہ مارکیٹنگ کے شعبے سے بھی منسلک ہیں۔

وہ بتاتی ہیں کہ سنہ 2020 میں انھوں نے لنکڈاِن پر تقی شاہ کی پروفائل دیکھی جس سے معلوم ہوا کہ وہ دبئی میں ہیں۔ان کی ملازمت کی تفصیلات میں سٹیٹ لائف تحریر تھا۔

انھوں نے یہ پروفائل اپنے والد کے دوستوں کے ساتھ شیئر کی جنھوں نے تصدیق کی کہ ہاں یہ ہی وہ شخص ہے جو ان کے والد کے قتل میں نامزد ہے۔

ماہم کا دعویٰ ہے کہ ’سٹیٹ لائف نے کبھی ایف آئی آر کی کاپی بھی ہمیں نہیں دی تھی، کبھی کوئی تھانہ بتایا جاتا تو کبھی کوئی، ہمیں ملزم کا پورا نام تک معلوم نہیں تھا، اصل پولیس فائل گم کر دی گئی تھی۔‘

ان کے مطابق ’میں نے کووڈ کے دنوں میں دوبارہ فوٹو سٹیٹ نقول جمع کیں اور خاموشی سے کام کرتی رہی، جس کے بعد تمام ثبوت جمع کیے اور کیس دوبارہ کھل گیا۔‘

،تصویر کا کیپشنماہم امجد دبئی میں رہتی ہیں، جہاں وہ پراپرٹی کے کاروبار کے علاوہ مارکیٹنگ کے شعبے سے بھی منسلک ہیں

سوشل میڈیا کا سہارا

ماہم امجد نے گذشتہ سال 6 اکتوبر کو ٹوئٹر اور انسٹاگرام پر اپنا ویڈیو پیغام جاری کیا، جس میں انھوں نے اپنے والد کے انصاف کے لیے مدد کی اپیل کی، جس میں انھیں کئی افراد نے قانونی مدد فراہم کرنے کی بھی پیشکش کی۔

ماہم امجد کے مطابق انھوں نے سوشل میڈیا پر عوام سے مدد لینے سے قبل سٹیٹ لائف کے چیئرمین سے رابطے کی کوشش کی۔ انھیں فون کالز اور ای میلز کیں تاہم انھوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔

اس کے بعد انھوں نے سوشل میڈیا کا سہارا لیا کیونکہ اب وہ کمزور نہیں تھیں، وہ مضبوط ہو چکی تھیں۔ ان کی ’فین فالونگ‘ تھی اور وہ پبلک فگر بن چکی تھیں، ان کے فینز اور کئی سیاستدانوں نے ان کی حمایت میں آواز اٹھائی۔

ان کے مطابق ’رد عمل میں ملزم نے ایک ویڈیو جاری کی جس میں دھمکایا گیا اور میری کردار کشی کی گئی اور والد پر الزام عائد کیے گئے، جس پر میں نے ان کے خلاف مجرمانہ مقدمہ درج کرایا، جس کے بعد ان کو گرفتار کیا گیا اور وہ دبئی سے باہر نہیں جا سکتا تھا۔‘

حوالگی کی فائل دبئی پہنچ گئی

ماہم امجد نے منگل کو دوبارہ ٹوئٹر پر پوسٹ لگائی جس میں انھوں نے پاکستان کے وزیر خارجہ بلاول بھٹو سے مخاطب ہوکر کہا کہ 14 سال 4 ماہ 29 دن بعد ان کی کوششوں سے ان کے والد کا قاتل متحدہ عرب امارات میں گرفتار ہو گیا۔

انھوں نے مزید لکھا کہ ملزم کی پاکستان حوالگی کی جو فائلیں متحدہ عرب امارات نے مانگی ہیں وہ 17 فروری سے آپ کے دفتر میں موجود ہیں۔ یہ فائلیں متحدہ عرب امارات پہنچنے کی آخری تاریخ 23 فروری ہے۔ ملزم کے انٹر پول کے ریڈ نوٹس جاری کردیے گئے ہیں۔

اس پیغام کے اگلے روز ماہم امجد نے ٹوئٹر پر پیغام شیئر کیا کہ ان کی پاکستان کے سفیر سے ملاقات ہوئی ہے۔ فیصل نیاز ترمذی نے انھیں مکمل تعاون کا یقین دلایا اور بتایا کہ حوالگی کی فائلیں متحدہ عرب امارات پہنچ گئی ہیں اور انھیں بغیر کسی تاخیر کے وزارت خارجہ امور متحدہ عرب امارات کے حوالے کر دیا جائے گا۔

ماہم امجد کہتی ہیں کہ ’یہ کوئی عام قتل نہیں تھا۔ یہ سرکاری دفتر میں ایک سرکاری افسر کا قتل تھا۔ سٹیٹ لائف کی جو مہم ہے ’اے خدا میرے ابو سلامت رہیں‘ نے پندرہ سال مجھے ڈرایا، میں سو نہیں سکتی تھی۔ نادرا نے ملزم کا شناختی کارڈ اور پاسپورٹ تک بلاک نہیں کیا یہ کیوں ہوا؟

ماہم امجد کی سوشل میڈیا پر جدوجہد کے بعد سٹیٹ لائف انشورنس کارپوریشن کی جانب سے ایک وضاحتی بیان جاری کیا گیا، جس میں کہا گیا کہ وہ متاثرہ خاندان کی مکمل حمایت کرتے ہیں۔

بیان کے مطابق اس واقعے کے بعد سٹیٹ لائف نے فوری اپنے ملازم کے ذریعے ایف آئی آر درج کرائی اور میٹھا در پولیس نے اس کی تحقیقات کیں۔ ان کے مطابق ’کراچی کی ایک مقامی عدالت میں زیر سماعت مقدمے میں سٹیٹ لائف نے مکمل تعاون کیا۔‘

سٹیٹ لائف کا کہنا ہے کہ اس واقعے کے بعد ملزم کو ملازمت سے برطرف کیا گیا اور تمام سہولیات واپس لے لی گئیں اور ادارہ ان کا نام ای سی ایل میں شامل کرانے میں کامیاب ہوا۔

ماہم امجد کہتی ہیں کہ وہ سٹیٹ لائف سے ایک نوٹس چاہتی تھیں تاکہ دبئی حکومت کو بتا سکیں کہ یہ شخص قتل میں ملوث ہے لیکن ادارے نے وہ تک جاری نہیں کیا۔

’اب یہ سبق سیکھا ہے کہ ہر کیس خود لڑنا ہوتا ہے اور اس کی پیروی کرنی ہوتی ہے، تب اس کے نتائج آتے ہیں۔‘

Exit mobile version